خوف کی صنعت


اگر اسلحہ سازی صنعت ہے۔ تو جنگیں اس اسلحے کی جانچ، مظاہرہ اور مارکیٹنگ کے لئے، وقفے وقفے سے منعقد ہونے والے عالمی ٹورنامنٹس ہیں، جو کمزور اور نسبتاً پسماندہ ممالک کے محاذوں، میدانوں اور شہروں میں منعقد کیے جاتے ہیں۔

جنگوں کی اصطلاحاتی درجہ بندی میں، ففتھ جنریشن وارفیئر آج کل زیر بحث ہے۔ جو میدانوں اور محاذوں سے زیادہ ذہنوں میں لڑی جانے والی جنگ ہے۔ ایک زمانے میں مشہور ترین اصطلاح، جو اخبارات اور خبروں کا عام موضوع ہوتا تھا، کولڈ وار کہلایا جاتا تھا۔ کولڈ وار کو عموماً نظریاتی پروپیگنڈے اور مذہبی صف بندیوں کے ذریعے گرم رکھا جاتا تھا۔ کمیونزم جس کا سرخیل روس تھا، گاڈ لیس، لادین اور دہریہ مشہور تھا۔ جبکہ سرمایہ دار ایک خدا یعنی منافع کے ماننے والے تھے۔

چونکہ کمیونسٹ، سامری کے اس سنہرے بچھڑے، منافع کے منکر تھے اس لیے لادین کہلاتے تھے۔ لیکن کولڈ وار کے دوران سب سے زیادہ دلچسپ کردار، اکثر اور اہم مسلم ممالک کا تھا۔ اسلام جو اپنی تعلیمات کی رو سے، مظلوم، مقہور، پسے ہوئے طبقات، غلاموں اور خواتین کے عزت کے ساتھ جینے کے حق کا داعی تھا، سنہرے بچھڑے کے پجاریوں یعنی سرمایہ داری کی صف میں، منافع خوروں کے ساتھ، کاندھے سے کاندھا اور ٹخنے سے ٹخنہ ملا کر کھڑا نظر آیا (پائینچے اٹھا کر) ۔

اس دور میں جنگیں بھی آج کی طرح تیسری دنیا کے ممالک ویتنام، کوریا کمپوچیا وغیرہ میں لڑی گئیں۔ جس میں کسی نے اپنا اسلحہ بیچا اور کسی نے جانچا۔ جب روس ٹائٹینک کی طرح اپنی مضبوطی کے زعم میں ٹوٹ کر ڈوبا تو معلوم ہوا کہ اللہ کے منکر اور دہریئے روس کی سرزمین پر، انسانیت کی تذلیل اور استحصال کا سب سے پرانا اور بدترین ادارہ، چکلہ ایک بھی نہیں تھا۔ کولڈ وار کے خاتمے پر پرانی صف بندیاں ٹوٹ گئیں۔ تو ہینگٹنٹن کے ذریعے تہذیبوں کی تصادم کے ٹورنامنٹ کے لئے ٹیمیں تیار ہونے لگیں۔ کیونکہ ٹورنامنٹس منعقد نہیں ہوں گے تو اسلحہ سازی کی صنعت کیا شب برات میں کام آئے گی۔

انسانی نفسیات کو سب سے زیادہ انگیخت کرنے والے محرکات، لالچ اور خوف ہیں۔ (اطعمھم من جوع و امنھم من خوف۔ القریش) اس لیے سرمایہ داری کو کمیونزم کے کھلانے، پہنانے اور سر چھپانے (منافع کمانے کے مواقع) کے منشور کا خوف تھا۔ اور کمیونزم اپنانے والوں کو کھانے، پہننے اور سر چھپانے کا لالچ۔ کمیونزم کو اپنی ساحرانہ مہارتوں سے پچھاڑنے کے بعد سرمایہ داری کو کوئی خوف نہ رہا تو اسلحے کی صنعت جو دشمن کی شکست کے بعد تقریباً بند ہونے لگی تھی، اور منافع کمانے کا سب سے بڑا ذریعہ تھی، کے لئے، نیا دشمن ڈھونڈھنا ضروری ہوگیا۔ مسلمان جو کولڈ وار میں، سرمایہ داروں کے ساجھے دار اور اہل کتاب بھائی تھے، تیل اور معدنیات کی دولت سے مالامال ہونے کے باوجود ابھی تک منافع خوروں سے، کمیونزم کی موجودگی کی وجہ سے بچے ہوئے تھے۔ لیکن تابکہ۔

مسلح اقوام، جنگیں، خوف اور جھوٹ کی زور پر لڑتی ہیں۔ جبکہ ان کی جارحیت کی شکار قومیں، عزم، قومی یک جہتی اور انسانیت کے ہتھیاروں سے ان کا مقابلہ کرتی ہیں۔ لیکن جنگ میں اکثر وبیشتر انسانیت کی ہار ہوتی ہے۔ کمیونزم کا منافع دشمن نظریہ سامنے نہ رہا۔ تو سرمایہ داری کے انسان دشمن حربی صنعت کو زندہ رکھنے کے لئے، جنگی حکمت عملی کے ماہرین، اسلحہ بیچنے کے صنعتکاروں، کمیشن کھانے والے سوداگروں اور دلالوں، انسانی نفسیات کو مینیپولیٹ کرنے والے استادوں اور میڈیا ہاؤسز کے مالکان نے ایک نیا دشمن، دہشت گردی کے نام سے تراشا اور دنیا پر مسلط کردیا۔ چہروں کو صافوں میں چھپائے طالبان کے نام سے قاتلوں کی ایک تجرباتی نرسری لگائی گئی۔ جنہوں نے خوف کی صنعت کے لئے ماحول اور مارکیٹ پیدا کی۔ پھر انہی طالبانی تجربات کو بہتر کرکے داعش کے نام سے جدید عفریت ایجاد کرکے شہروں اور دیہات پر چھوڑی۔

افغانستان کے بغیر بجلی کے، کچے گاؤوں اور قدیم معاشرے میں رہائش پذیر، برخود غلط، نظریاتی باغیوں اور انقلابیوں کے ایک گروہ، جن کے درمیان، سارے اہم جاسوسی اداروں کے ڈبل ایجنٹ ہمہ وقت موجود ہوتے تھے، جن کی برقی پیغام رسانی، ذاتی اور سامان کی آمد و رفت کی ہمہ وقت، سمندری اور ہوائی اڈوں پر خصوصی نگرانی کی جاتی تھی، ان ”مجاہدین“ نے ایک معجزہ کر دکھایا۔ امریکہ اور جرمنی سے کچھ نیم ان پڑھ، دیہاتیوں (بدوؤں ) نے جہاز اڑانے کی تربیت لی، ( 9 / 11 کی کیمشن کے رپورٹ کے مطابق یہ ”پائلٹ“ صرف ہوا میں جہاز کنٹرول کرسکتے تھے، جہاز کی ٹیک آف اور اتارنے میں اناڑی تھے ) ۔

امیگریشن اور ائیرپورٹ سیکیورٹی کے ساتھ ساتھ سارے آمریکی جاسوسی اداروں کو باوجود تنبیہات اور وارننگز کے چکمہ دیا۔ (ائیرپورٹ سیکیورٹی اور کیلئرنس پر مامور کسی اہلکار کو اتنی تباہ کن، مجرمانہ ”غفلت“ پر آج تک کوئی سزا نہیں ملی) ۔ شہر کے درمیان، سب سے اہم بلڈنگ سے دس منٹ کے وقفے سے دو جہاز ٹکرائے۔ جن کی پہلے سے لگے ہوئے کیمروں کے ذریعے مختلف زاویوں سے باقاعدہ فلم بندی کی جاتی رہی۔ (یہ پہلی تاریخی جنگ ہے۔ جس کی افتتاح سے لے کر اج تک بڑا حصہ ناظرین کے لئے براہ راست یا بالواسطہ نشر کیا گیا، کیونکہ ان کو خوفزدہ کرنا مقصود تھا) ۔ اس نئی جنگ کی بنیادی تھیم خوف تھی اس لیے خوف پھیلا کر اس خوف کے خلاف تحفظ کا احساس دلانے والی نئی جنگی ایجادات اور اس سے منسلک مختلف اشیاء دنیا کو بیچنی تھی۔ مارکیٹنگ کی غرض سے ان گیجٹس کو بیچنے کے لئے مناسب ماحول اور مواقع پیدا کرکے خوف کی صنعت کا افتتاح کیا گیا۔

خوف کی صنعت نے خفیہ (وہ اشیاء جو مختلف ممالک کے جاسوسی اداروں کے لئے خریدی گئیں ) اور علانیہ طور پر کھربوں روپے کی مصنوعات 9 / 11 کے بعد دنیا میں بیچیں۔ جو، اگر خوف کا بنایا گیا موجدہ ماحول نہ ہوتا، خریدنا تو درکنار، کوئی دیکھنے کا بھی روادار نہ ہوتا۔ ہر ملک میں، گلیوں، چوراہوں، ایم سرکاری اور غیر سرکاری عمارات، گھروں، تعلیمی اداروں، ہسپتالوں، بنکوں، ریستورانوں، ہاسٹلوں، غرض یہ کہ ہر پول، دیوار اور درخت پر کیمرے لگائے گئے۔

کمپیوٹر سسٹم اور ڈی وی آر خریدے گئے۔ واک تھرو گیٹ اور ایکسرے مشین لگائی گئیں۔ سامان، کنٹینرز، گاڑیوں اور انسانی جانچ کی غرض سے سیکنرز لگائے گئے۔ بموں کو ڈھونڈنے، بیکار کرنے یا محفوظ کرنے کے بعد اڑانے کے لئے روبوٹ اور پریشر یا پانی سے چلنے والی توپیں خریدی گئیں۔ خودکش گاڑیوں اور خودکش دیوانوں کو حملہ کرنے سے پہلے معلوم کرنے والے اور تربیت یافتہ کتے مہیا کیے گئے۔ مسلسل نگرانی اور حملہ کرنے کی صلاحیت سے لیس معجزہ نما جنگی کھلونے، ڈرون مارکیٹ کیے گئے۔

جن کی جنگی مارکیٹنگ کے ساتھ ساتھ، حربی صلاحیتوں کو خریداروں کو دکھانے کی غرض سے، رئیل ٹائم میں ریکارڈ شدہ اور بعض اوقات لائیو سٹریمنگ کرتی ہلاکت خیز فلمیں، جس میں اکثر ایک ”دہشتگرد“ کو مارنے کے لئے چلائے گئے میزائل، موقع پر موجود بیشمار معصوم لوگوں کے پرخچے اڑاتے گئے۔ جس کو بے حس منافع خوروں نے کولیٹرل ڈیمیجز کا بے جان نام دیا۔ جسے ہر کسی نے اپنے اپنے ڈرائنگ رومز میں ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر دیکھا۔

کیونکہ خوف کی صنعت کو گھر گھر پہنچانا تھا۔ نفسیات دانوں نے نہ صرف کامیابی سے اپنی مصنوعات گھر گھر پنچائی بلکہ اچھے خاصے، جنگ مخالف اور انسانیت دوست شہریوں کے لئے اس قتل عام کو قابلِ قبول بناکر بیچا بھی۔ خوف کی صنعت کی اس جارحانہ اور بدترین مارکیٹنگ سے زیادہ اور موثر مارکیٹنگ سٹریٹیجی ابھی مصنوعات بنانے والے کسی ادارے کے پبلسٹی ماہرین نے سوچنی ہے۔

جہاز ”اڑانے والے خودکش دہشتگرد“ ایک چوتھائی سعودی، بقایا مصری اور ایک ادھ گلف سٹیٹ سے تھے۔ (یہ سارے ممالک امریکن اتحادی ہیں ) اور نزلہ عراق پر گرا۔ کیونکہ وہ خوف کی صنعت کا خریدار نہیں ہوسکتا تھا۔ افغانستان کو ڈیزی کٹر اور مدر اف بمز کے تجربات کے لیے چنا گیا اور افغانستان سمیت پاکستان کے قبائلی علاقے ڈرونز کی مختلف صلاحیتوں کے مظاہرے یعنی نگرانی، حملوں، حملوں کی جانچ اور اس کی مارکیٹنگ کے لئے استعمال کیا گیا۔

چونکہ سرمایہ داری کے خدا منافع کے سینے میں دل نہیں لالچ ہوتا ہے۔ اس لیے، خوف کی صنعت کے خلاف بڑے بڑے جلوس نکالنے والے یورپیئن ممالک کے بڑے مرکزی شہروں، انگلینڈ، میڈرڈ، پیرس، برسلز، نیس اور برلن میں، دہشتگردانہ کارروائیاں کرا کر نہ صرف جنگ مخالف لوگوں کو جنگ کے حق میں کردیا بلکہ ان کی حکومتوں نے حفاظتی گیجٹس کی خریداری پر خطیر رقم بھی خرچ کی۔ جس کی ایک مثال برطانیہ ہے۔ جہاں انگلینڈ حملے میں صرف پانچ شہری مارے گئے (کیا آپ سات جولائی 2005 کی بات کر رہے ہیں؟ قریب پچاس افراد مارے گئے تھے۔ مدیر)  لیکن تھریسا مے کی حکومت نے فوری طور پر 2.5 بلیئن پاؤنڈ کی رقم اس جنگ پر خرچ کرنے کے لئے مختص کی اور اٹھارہ ہزار افراد کو جاسوسی اداروں میں بھرتی کرنے کا حکم دیا۔

سکینڈے نیویا (سویڈن، ڈنمارک، ناروے وغیرہ) اس دنیا میں ایک الگ دنیا ہے جو باقی دنیا کی سیاست اور سیادت سے زیادہ سروکار نہیں رکھتی۔ وہاں پر خوف کی صنعت کاروں کی ایماء پر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے ناشائستہ خاکے ایک لوکل اخبار میں چھپوائے گئے۔ جس کی بنا پر وہ مسلمانوں کے غیظ وغضب کا نشانہ بنے۔ جس کے خوف سے خوف کی صنعت کے بیوپاریوں نے ان کو اپنا سامان بیچا۔ مشرق بعید کے مثالی برداشت والے تکثیر پسند معاشروں کو خوفزدہ کرنے کی خاطر سیر و سیاحت کے روزگار سے منسلک علاقے بالی میں دھماکے کرواکر خوف کے صنعت کاروں نے اپنی تجارت کی۔

نیوزی لینڈ کا حالیہ خونریز واقعہ، خوف کی صنعت کی زوال پذیر مارکیٹ کو نئی زندگی اور نئے گاہک بنانے کی ایک اور کوشش تھی۔ کیونکہ نیوزی لینڈ بھی سکینڈے نیوین ممالک کی طرح دنیا سے الگ تھلگ ہے۔ اگرچہ نیوزی لینڈ کی وزیراعظم نے اپنی بہترین حکمت عملی سے خوف کے صنعتکاروں کی کوشش کو ناکام بنادیا ہے۔ لیکن آسٹریلیا کی مارکیٹ ابھی کھلی ہے۔

سرمایہ داری نظام منافع کو بلاشرکت غیرے ہڑپ کرنا چاہتا ہے اس لیے کسی قسم کی مسابقت یا مقابلہ بالکل برداشت نہیں کرسکتا۔ اپنے پرائیویٹ ملیشیا کو، ملٹری کنٹریکٹرز، زی سیکورٹی کمپنی اور بلیک واٹر کے فینسی ناموں سے پکارتا ہے۔ ان کی خدمات (مخالفین کی قتل وغارت) کو قدر کی نظر سے دیکھتا اور سراہتا ہے۔ لیکن بالکل اسی قسم کی خدمات انجام دینے والے کسی اور ملک (پاکستان) کے مسابقت کرنے والے اداروں کو دہشت گرد اور نان سٹیٹ ایکٹرز کا نام دے کر گردن زدنی قرار دیتا ہے۔

ان کا ایرک پرنس اپنی کمپنی کا معزز سی ای او ہوتا ہے۔ کسی اور کا مدرسے کا ملا (حافظ سعید، مسعود اظہر) ، شدت پسند اور دہشت گرد ہوتا ہے۔ جس کے زندہ یا مردہ گرفتاری پر انعام کا اعلان کیا جاتا ہے۔ جبکہ دونوں ممالک کی سیکورٹی کمپنیوں کا طریقہ کار اور مقاصد ایک جیسے ہیں۔ یعنی اپنی ریگولر فوج کے نقصانات کو کم از کم کرنا۔ (نوٹ: راقم جنگ سمیت ہر قسم کے تشدد کو جرم سمجھتا ہے۔ اور اس کے خلاف ہے۔ صرف علمی اور تجزیاتی مراحل کے طور پر دونوں ممالک کے سیکورٹی کمپنیوں پر بحث کی ہے )

شازار جیلانی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

شازار جیلانی

مصنف کا تعارف وجاہت مسعود کچھ یوں کرواتے ہیں: "الحمدللہ، خاکسار کو شازار جیلانی نام کے شخص سے تعارف نہیں۔ یہ کوئی درجہ اول کا فتنہ پرور انسان ہے جو پاکستان کے بچوں کو علم، سیاسی شعور اور سماجی آگہی جیسی برائیوں میں مبتلا کرنا چاہتا ہے۔ یہ شخص چاہتا ہے کہ ہمارے ہونہار بچے عبدالغفار خان، حسین شہید سہروردی، غوث بخش بزنجو اور فیض احمد فیض جیسے افراد کو اچھا سمجھنے لگیں نیز ایوب خان، یحییٰ، ضیاالحق اور مشرف جیسے محسنین قوم کی عظمت سے انکار کریں۔ پڑھنے والے گواہ رہیں، میں نے سرعام شازار جیلانی نامی شخص کے گمراہ خیالات سے لاتعلقی کا اعلان کیا"۔

syed-shazar-jilani has 127 posts and counting.See all posts by syed-shazar-jilani