460 ارب روپے اور کراچی کی ترقی


کچھ عرصے میں کئی ایسے عدالتی فیصلے سامنے آئے جس نے ورطۂ حیرت میں ڈالے رکھا کہ ایسا بھی ممکن ہوسکتا ہے؟ چونکہ ہم کوئی ماہر قانون تو نہیں اس لیے ان فیصلوں میں قانونی اسقام کی نشاندہی تو نہیں کرسکتے لیکن پاکستانی عوام کی اکثریت کی طرح ہمارے ذہن میں بھی کئی سوالات نے جنم لیا کہ آخر انصاف کا پیمانہ کیا ہے؟ کیا بڑے سے بڑا جرم کرکے محض جرمانے کی خطیر رقم ادا کرکے خود کو ’پاک‘ کیا جاسکتا ہے؟

نیب کا ایک پلی بارگیننگ قانون ہی سمجھ سے بالاتر تھا کہ 10 کروڑ کی کرپشن کرنے والے کو 2 کروڑ جرمانہ لے کر چھوڑ دیا جاتا تھا اور اب متواتر ایسے فیصلے سامنے آرہے ہیں جس میں ”بڑوں“ کے جرائم کے ارتکاب پر خطیر رقم کا مطالبہ ’ازخود‘ کرکے انھیں ’صاف راستے‘ کی پیشکش کی جاتی ہے۔ نہ بابا! ہماری اتنی اوقات کہاں کہ معزز اداروں کے فیصلوں پر اعتراض کرسکیں، ہمارے تو ”پر“ بھی نہیں جو جل سکیں لیکن چلنے سے ضرور معذور ہوجائیں گے، اس لیے چپ ہی بھلی۔

لیکن اس حالیہ فیصلے نے الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر جو شور بپا کر رکھا ہے ان ہی خیالات کو یہاں سمیٹ رہے ہیں۔ ظاہر ہے ہمارے خیالات بھی عوامی ہی ہیں تو اسے ہماری ہی سوچ سمجھ لیں۔ افوہ! جذبات میں مغلوب ہم یہ تو بتانا ہی بھول گئے کہ بات ہو کس فیصلے کی رہی ہے؟ لیکن قارئین بہت ذہین ہیں۔ آپ سمجھ ہی گئے ہوں گے کہ بات پاکستان کی عدالت عظمیٰ کے بحریہ ٹاؤن کی انتظامیہ کی جانب سے 460 ارب روپے کی پیشکش قبول کرنے اور قومی احتساب بیورو کو ملزمان کے خلاف قانونی کارروائی کرنے سے روکنے سے متعلق ہے۔ ملک کی تاریخ میں شاید پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ عدالت نے اتنی بڑی رقم کے بدلے میں ملزمان کے خلاف مقدمات کو ختم کرنے کا حکم دیا ہے۔

جہاں ایک جانب فیصلے کو تنقید کا سامنا ہے کہ غریبوں کو صرف ”جرم ضعیفی“ کی سزا سنائی جاتی ہے اور امراء کو ”چھوٹ“ دے دی جاتی ہے، وہیں ایک وسیع حلقہ فیصلے کے حق میں دلائل دے رہا ہے کہ مذکورہ ”بڑی رقم“ پاکستان کی ترقی یا پھر ڈیم فنڈ کی تعمیر میں استعمال کرکے عوام کی خوشحالی اور ملک کی ترقی میں معاون ثابت ہوگی۔ چلیں جی! مان لیتے ہیں اس نکتے کو بھی۔ ہم ٹھہرے غریب آدمی، 460 ارب روپے میں کتنے ہندسے ہوتے ہیں؟

یہ گننے کے لیے بھی ہمیں انگلیوں پر اکائی، دہائی کرنی پڑتی ہے۔ یہ اربوں کھربوں کی باتیں تو بڑے لوگوں کی ہوتی ہیں، وہی جانیں۔ غریب بے چاروں کے کاروبار تو 40، 50 سال کسی جگہ ہوتے ہوئے غیر قانونی قرار دے کر ڈھا دیے جاتے ہیں اور امیروں کی غیر قانونی تعمیرات کو صرف ریگولرائز کرانے کی ”ہدایت“ کردی جاتی ہے۔ ہاں بھئی! جرمانہ لینے کے بعد۔ آخر وہ رقم بھی تو پاکستانی عوام کی فلاح و بہبود پر ہی خرچ ہوتی ہے ناں۔

”غریبوں“ کو اس فیصلے پر اعتراض نہیں ہونا چاہیے کہ انھیں کسی جرم کے بدلے ”باسہولت پیشکش“ نہیں کی جاتی لیکن اس معاملے کو دیکھیں تو باقاعدہ آفرز کی ایک قطار نظر آتی ہے۔ ”ایک ہزار ارب روپے دیامیر بھاشا ڈیم فنڈ کی تعمیر میں جمع کروادیں تو تمام مقدمات ختم کر دیے جائیں گے“۔ اس پر کوئی ردعمل نہیں آیا تو رقم کم کرکے پانچ سو ارب روپے جمع کروانے کی پیشکش کردی گئی، لیکن حریف نے پھر بھی حامی نہیں بھری۔ آخرکار 31 دسمبر 2018 کی عدالتی کارروائی میں پانچ سو ارب روپے تک کی چھوٹ دے دی گئی۔ لو جی! ایک ہزار ارب روپے سے چلنے والا سفر بالآخر 460 ارب روپے پر آکر رک ہی گیا۔ کسی نے سوشل میڈیا پر کیا خوب جملہ کسا ہے کہ ”آخر ملک صاحب نے اس پروجیکٹ سے کتنی کمائی کی ہوگی جو اتنی بڑی رقم دینے پر تیار ہوگئے“۔

سپریم کورٹ کی طرف سے بحریہ ٹاؤن کی پیشکش کو ماننے کے بعد اب یہ بحث چھڑگئی ہے کہ اتنی بڑی رقم کہاں جائے گی؟ ایک اطلاع کے مطابق 460 ارب روپے کی یہ رقم سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں جمع کروائی جائے گی اور اس کے بعد سپریم کورٹ کوئی لائحہ عمل تیار کرے گی کہ اس رقم کا کیا جائے جو کہ تفصیلی فیصلے میں ہی واضح ہوگا۔ یہ بھی سننے میں آرہا ہے کہ یہ رقم بعد میں سندھ حکومت کو بھی منتقل کی جاسکتی ہے کیونکہ یہ تنازعہ ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی کی زمین کا معاملہ ہے جو کہ 16896 ایکڑ پر مشتمل ہے۔

اچھا جی چھوڑیں ان اعتراضات کو! اب تو فیصلہ ہوہی چکا ہے اور بہت جلد یہ ”بڑی رقم“ قومی خزانے میں جمع بھی ہوجائے گی۔ اور اگر یہ رقم سندھ حکومت کے حصے میں آجاتی ہے تو اور بھی اچھا ہے۔ نہیں بھئی ”بیگانے کی شادی میں عبداللہ دیوانہ“ والا معاملہ نہیں ہے۔ ہم تو اس لیے خوش ہیں کہ یہ رقم ہمارے صوبے میں آئے گی تو ہم عوام پر ہی خرچ ہوگی۔ چاہے اس کا ایک چوتھائی حصہ ہی عوام کے حصے میں کیوں نہ آئے لیکن عوام کے نصیب میں کچھ تو آئے گا۔

اچھا اب اپنے مطلب کی بات پر آجاتے ہیں جس کے لیے یہ طویل تمہید باندھی۔ ہمارے کچھ ساتھیوں کا مطالبہ ہے کہ اس ”بڑی رقم“ کو کراچی کے عوام کی بہبود پر خرچ ہونا چاہیے۔ یہ کراچی کا حق بھی ہے۔ بحریہ ٹاؤن کی زمین کراچی سے ہی تو ملحق ہے۔ پاکستان کے محروم صوبے اپنے وسائل کی رائلٹی نہ ملنے پر پہلے ہی متنفر ہیں، ایسے میں کراچی جیسا شہر جو پورے ملک کے عوام کو سمیٹے ہوئے ہے اسے محروم کرنا ”ناحق“ ہوگا۔ اس شہر کے ہمہ جہت مسائل کے حل میں وسائل کی کمی کا ہی رونا رویا جاتا ہے جب کہ یہی شہر ملک کی معیشت کا ایک بڑا بوجھ اپنے ناتواں کندھوں پر اٹھائے ہوئے ہے۔ شہر کی ڈیولپمنٹ کے لیے کام تو کیا جاتا ہے لیکن اس کے ثمرات عوام تک پہنچتے دکھائی نہیں دیتے۔ اب ایک خطیر رقم حصہ میں آرہی ہے تو اس شہر کی بہتری کے لیے بھی کچھ کیا جائے۔ امید ہے ارباب اختیار اس مطالبے کو ”دیوانے کی بڑ“ سمجھ کر نظر انداز نہیں کریں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).