افغان طالبان کی سفارت کاری


حُر ثقلین

\"hurماہ جولائی کے آخری دنوں میں عالمی ذرائع ابلاغ میں افغان طالبان سے متعلق ایک خبر نمایاں طور پر سامنے آئی ہے۔ اس خبر کے مطابق افغان طالبان کے ایک وفد نے ایک بار پھر جولائی کے وسط میں چین کا دورہ کیا ہے۔ نیوز ایجنسی روئیٹرز کے مطابق چین کی حکومت کی دعوت پر عباس ستانگزئی کی قیادت میں افغان طالبان کے ایک وفد نے چینی حکام سے ملاقاتیں کی ہیں۔ عباس قطر میں قائم طالبان کے سیاسی دفتر کے سربراہ بھی ہیں۔ اس وفد کے ارکان کے مطابق طالبان کا کئی ممالک کے ساتھ رابطہ بھی ہے اور ان کی حکومتوں کے ساتھ اچھے تعلقات بھی قائم ہیں۔ چین ان ممالک میں سے ایک ہے۔ اس وفد نے چینی حکام کو افغانستان میں موجود غیر ملکی افواج کے مظالم سے آگاہ کیا اور ان قابض فوجوں سے آزادی حاصل کرنے کے لیے چین سے مدد بھی مانگی گئی ہے۔ وفد نے چین سے کہا ہے کہ وہ ان فوجوں کے انخلا کے لیے عالمی رائے عامہ ان کے حق میں نہ صرف ہموار کرے بلکہ اپنا سفارتی اثر رسوخ بھی استعمال کرے۔ چین اس چار فریقی گروپ کا بھی حصہ ہے جس میں پاکستان امریکہ اور افغانستان شامل ہیں۔ اس گروپ کا مقصد مذاکرات کے ذریعے افغانستان میں امن قائم کرنا ہے۔ یہ گروپ بھی ماضی قریب میں طالبان کے ساتھ مذاکرات کرتا رہا ہے مگر پاکستانی علاقے میں سابق طالبان رہنما ملا منصور کی ڈرون حملے میں ہلاکت کے بعد سے یہ سلسلہ اب بند ہے۔

افغانستان ایک طویل عرصے سے بد امنی کا شکار ملک ہے۔ دسمبر 1979 میں روسی فوجیں یہاں داخل ہوئی تھیں۔ اس وقت امن کی فاختہ یہاں سے ایسے روٹھ کر گئی کہ اب تک واپس نہیں آئی۔ صرف روسی فوجوں کو اس ملک سے نکالنے کے لیے 1989 تک دس سالوں میں دس لاکھ افراد لقمہ اجل بنے اور اس سے کئی زیادہ بے وطن ہوئے۔ افغانستان میں کوئی بھی پُر اثر حکومت قائم نہ ہو سکی۔ مختلف گروہ آپس میں بر سرِ پیکار رہے۔ 9/11کے بعد ایک بار پھر افغانوں پر قیامت ٹوٹی اور ایسی تباہی ان کا مقدر بنی جو اب تک ان کا ساتھ دے رہی ہے۔ افغانوں کے بارے میں تصور کیا جاتا ہے کہ وہ جنگجو قوم ہیں۔ لڑائیاں ان کے مزاج کا حصہ ہیں۔ مگر حالیہ عشروں میں بیرونی طاقتوں نے ان کے ساتھ کھلواڑ کیا ہے۔ کبھی روس کی مداخلت کبھی امریکہ کی جارحیت اور کبھی نیٹو افواج کی یلغار نے یہاں کے عوام کو پر تشدد بنا دیا ہے۔

ایران، بھارت اور پاکستان نے بھی اپنے مخصوص مقاصد کے لیے ان افغانوں کو نہ صرف استعمال کیا بلکہ اپنی بساط انہیں کی سر زمین پر بچھا رکھی ہے۔ ناخواندگی کی شرح کم ہونے کی بدولت عالمی طاقتوں نے افغانوں کو خوب استعمال کیا ہے۔ پراکسی وار روایتی جنگ اور غیر روایتی جنگ سے زیادہ خطرناک ہوتی ہے۔ پراکسی وار میں اصل لڑنے والا نظر نہیں آتا ہے۔ مختلف گروپوں، قبیلوں، فرقوں اور قوموں کے جذبات کے ساتھ کھلواڑ کر کے انہیں متشدد بنا کر اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ افغانستان کی سرزمین بھی پراکسی وار کے لیے خوب استعمال کی گئی ہے۔ یہ عام خیال کیا جاتا ہے کہ اس وقت اکثر غیر ریاستی عسکری گروہوں کی پشت پناہی پر کوئی نہ کوئی ریاست یا اس کا کوئی ادارہ لازمی طور پر موجود ہے۔ امریکہ، یورپ اور ان کے اتحادی افغان طالبان کو دہشت گرد سمجھتے ہیں۔ وہ ان کے خلاف طاقت کا استعمال بھی کرتے ہیں۔ ان کی قیادت کو ڈرون حملوں کے ذریعے ہلاک بھی کرتے ہیں۔ مگر انہیں قطر میں اپنا دفتر قائم کرنے کی بھی اجازت ہے۔ اب وہ سفارت کاری بھی کرنے لگے ہیں۔

چین اپنی تجارت کا حجم بڑھانے اور یورپی منڈیوں تک سستی رسائی حاصل کرنے کے لیے اقتصادی راہداری منصوبہ جلد ازجلد مکمل کرنا چاہتا ہے۔ اس منصوبے کے مخالفین خطے میں بدامنی پھیلا کر اس منصوبے کو متاثر کرنا چاہتے ہیں۔ چین جو ہمیشہ عدم تشدد کا قائل رہا ہے اب اسے بھی پراکسی وار کا حصہ بننا پڑ رہا ہے۔ اپنے مقاصد کے حصول کے لیے طالبان سے رابطے قائم کرنا اس کی مجبوری بن گیا ہے۔ دنیا اس بات کو تسلیم نہیں کرتی ہے مگر یہ امر اب طے ہے کہ اس خطے میں امن کی ضمانت طالبان ہی دے سکتے ہیں۔ وہ جس ریاستی اتحاد کے ساتھ ہوں گے اس کے ہی مفادات محفوظ ہوں گے۔ جن ریاستوں نے پراکسی وار کے لیے غیر ریاستی عناصر کو تقویت بخشی تھی یہ عناصر اب ان کے لیے بھی مشکلات کا سبب بن رہے ہیں۔ فرانس اور جرمنی میں پھیلتے ہوئے دہشت گردی کے سائے بہت سے سوالوں کا جواب دے رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments