اس کے پیکج میں خیرات شامل نہیں تھی


”یہ بی بی سی لندن ہے“
یہ آواز جیسے زندگی کا تحفہ لے کر آئی تھی، اندھیرا تو پانچ بجے ہی ہوگیا تھا۔ صبح گیارہ بجے میں نے گاڑی سے اُتر کر دو کمبل اور تقریباً پانچ کلو چاول اپنے کاندھے پر رکھا، پانی کی بوتل اور دوسرے ضروری سامان کے ساتھ ان پہاڑیوں پر چڑھنا شروع کردیاتھا۔ پہاڑوں کو سر کرنا میرا بہترین مشغلہ تھا۔ سرحد اور کشمیر کے پہاڑی سلسلوں کو عبور کرتے ہوئے نہ جانے کتنی دفعہ ان پہاڑوں کی بھول بھلیوں میں کھویا، راستے ڈھونڈے اور پھر دوبارہ ساتھیوں سے ملا تھا۔ عام طور پر موسم بہار کے زمانے میں جب نیچے زمین پر گرمی پڑرہی ہوتی تو ہم لوگ پہاڑوں کو سر کرنے نکل کھڑے ہوتے۔ عام طور پر گرمی میں ٹھنڈے پہاڑوں پر چڑھنے کا مزا ہی کچھ اور ہوتا ہے۔

پہاڑوں پر بسنے والے گاؤں دیہات کے لوگوں کی اپنی ہی زندگی تھی۔ ان کے لئے ہمارے جیسے پہاڑوں پر چڑھنے والے لوگ ایک طرح سے عجوبہ ہی ہوتے تھے۔ ان کی زندگی کا تو معمول تھا۔ ایک پگڈنڈی سے اُتر کر درختوں، جھاڑیوں کو پھلانگتے ہوئے، کسی چشمے سے پانی پینا ہے تو کسی آبشار، جھرنا، ندی نالے کے ساتھ ساتھ اپنے بھیڑ بکری چرانی ہے۔ پہاڑیاں جنگل، کھائیاں، غار، آبشار، دراڑیں ان کے لئے ایسا ہی ہی ہیں جیسے ہمارے لئے صدر کا گھنٹہ گھر، گھنٹہ گھر کے سامنے کا چوک، چوک کے ساتھ پوسٹ آفس، پوسٹ آفس کے پیچھے اسکول، اسکول سے آگے پولیس اسٹیشن اور پولیس اسٹیشن کے ساتھ ہسپتال۔

زیادہ تر دیہاتی ہمیں حیرت سے دیکھتے تھے۔ حیرت کے باوجو ایک خاص قسم کی دوستی بھی ہوگئی تھی ان سے۔ بعض بعض گاؤں اوردیہاتوں کے جوانوں اور بزرگوں سے گپّیں بھی لگتی تھیں، وہ محبتوں سے چائے بھی پلاتے اور کھانا بھی کھلاتے۔ یہ پہاڑی لوگ عجیب لوگ ہیں۔ ان کی باتیں جدا، ان کے ڈھنگ الگ، ان کے راستے مختلف اور ان کی زندگی کا فلسفہ شہریوں کی سمجھ میں آبھی نہیں سکتا تھا۔

ان پہاڑوں پر رہنے والوں کی زندگی، زندگی نہیں ہے بلکہ زندہ رہنے کی سزا ہے۔ ایک مستقل جنگ ہے، زندہ رہنے کی جنگ ہے، پہاڑوں کی ڈھلان اور اونچائی سے جنگ ہے، اُگتے ہوئے درختوں سے جنگ ہے، کٹتے ہوئے درختوں کے بعد پھیلتی ہوئی زمینوں سے جنگ ہے، وقت بے وقت ہونے والی موسلا دھار بارش سے جنگ ہے، گرتی ہوئی برف اور پھر پگھلتی ہوئی برف سے جنگ ہے۔ یہ جنگ پیدا ہونے کے ساتھ ہی شروع ہوجاتی ہے۔ بچوں کو، ماؤں کو، لڑکیوں کو، لڑکوں کو، مردوں کو، عورتوں کو، بوڑھوں کو، جوانوں کو، ہر ایک کو یہ جنگ لڑنا پڑتی ہے۔

اگر یہ جنگ نہیں لڑیں گے تو مرجائیں گے اور اب تو یہ جنگ بڑھ گئی تھی۔ پہلے یہ جنگ صرف فطرت کے خلاف تھی، اس موسم اور اس ماحول کے خلاف تھی جس پر کسی کا زور نہیں ہے، مگر اب جنگ نیچے بہت نیچے پنڈی اسلام آباد لاہور کراچی میں رہنے والے انسان نما ان بھیڑیوں سے بھی ہے جو ان کی پہاڑیاں، چڑھائیاں، دریا، ندی نالے، موسم، درخت اور ان کا سب کچھ، مالک نہ ہوتے ہوئے بھی بیچ دینا چاہتے ہیں۔

پھر یہ زلزلہ آگیا۔ پہاڑ اپنی جگہوں سے حرکت کرگئے۔ چٹانیں اور چٹانوں کے اوپر رکھے ہوئے بڑے بڑے پتھر اوپر سے اس طرح سے گرے جیسے کنکریاں گرتی چلی آرہی ہیں۔ اپنے ساتھ اونچے اونچے درختوں کو روندتی ہوئی، جھاڑیوں، پہاڑیوں کو کچلتی ہوئی، انسانی آبادیوں کو نیست و نابود کرتی ہوئی، جھرنوں، چشموں، نالوں کا راستہ بدلتی ہوئی، ان غریب انسانوں کو تخت و تاراج کردیا تھا اس زلزلے نے، برستے ہوئے پہاڑوں نے اور بہتے ہوئے چٹانوں نے۔

مجھے یاد آرہے تھے چتھاری کی چوٹی پر رہنے والے محمد حسن، محمد نواز کے خاندان۔ کموٹی کے جنگلوں میں بسنے والے ممتاز، ذوالفقار، غفور والے۔ غان کی ڈھلوانوں پر بسی ہوئی رب نواز کی بستی۔ نوچنگی کے درے کے ساتھ رحیم کا خاندان اور نیلم ندی کے ساتھ ساتھ رہنے والے شانکی لوگ۔ وہ سب لوگ تتّر بتّر ہوگئے۔ نہ جانے کتنے مرگئے تھے اور نہ جانے کتنے اور مریں گے۔

مجھے پتہ چلا تھا کہ مظفرآباد کے اوپر، بہت اوپر نیلم وادی سے ہوتے ہوئے اونچے پہاڑوں میں نتھاما گاؤں میں زلزلے کے سترہ دن کے بعد بھی امداد نہیں پہنچی ہے۔ لوگ پھنسے ہوئے ہیں، چھوٹے چھوٹے دیہاتوں میں اکیلے، دوکیلے ٹوٹے ہوئے گھروں میں۔

میں نے سوچا کہ ان پہاڑوں، وادیوں میں رہنے والوں کا قرض ہے مجھ پر جو مجھے ادا کرنا ہوگا۔ مجھے گزرے برسوں کے وہ دن یاد آئے جو ہم لوگو نے ان پہاڑوں پر ان لوگوں کے ساتھ گزارے تھے۔ ان کی محبتیں، ان کا پیار، ان کا خلوص اور ان کا اخلاق۔ مجھے کچھ نہ کچھ کرنا تھا، پھنسے ہوئے ان لوگوں کے لئے جو اوپر کہیں پہاڑوں میں اپنے ٹوٹے پھوٹے گھروندوں میں پھنسے ہوئے تھے۔ میں ضروری سامان لے کرنتھاما کے لئے نکل کھڑا ہوا۔

مگر میرا حساب غلط ثابت ہوا، زلزلے نے علاقے کا جغرافیہ ہی بدل دیا تھا۔ جہاں پر میرے خیال میں چھوٹی پہاڑی تھی وہاں صرف کچی زمین ملی تھی۔ جس جھرنے کے ٹھنڈے پانی میں کئی دفعہ میں نے منھ دھویا تھا وہ جھرنا نہیں تھا وہاں پر۔ جس کھائی میں اُترنے کی کئی دفعہ خواہش کی تھی وہ کھائی نہیں ملی تھی مجھے۔ گھر، مکان اور درختوں کا تو کوئی حساب ہی نہیں رہا تھا۔ جو سفر میرے خیال میں چار گھنٹے میں طے ہوجانا چاہیے تھا اب آٹھ گھنٹے گزرجانے کے باوجو ختم ہونے کو نہیں آرہا تھا۔ راستے بدل گئے تھے، نشان ختم ہوگئے تھے، آبادیاں مٹ گئی تھیں، میں راستہ بھول چکا تھا۔

میں ایک ذرا صاف سی جگہ پر بیٹھ کر سستایا اور تھرماس سے تھوڑی سی گرم چائے لے کر پی کہ اب ذرا تازہ دم ہوکر نکلوں گا۔ دوبارہ راستوں کو سمجھنے کی کوشش کروں گا۔ پرانے نشان تلاش کرکے نئے نشان بنا کر شاید نیا راستہ بناسکوں، نیا راستہ بنانا اسان نہیں ہوتا ہے۔ زندگی گزرجاتی ہے اور نیا راستہ نہیں بن پاتا ہے۔ میں سوچتا رہا تھا۔ تھوڑی تشویش کے ساتھ کہ اگر وہ گاؤں نہیں ملا تو رات خراب ہی گزرے گی۔ انتظامات تو پورے تھے میرے پاس لیکن پھر بھی اس اندھیرے گھنے جنگل میں اکیلی بیاباں رات کوئی اچھا خیال نہیں تھا۔

ایسی راتیں تو میں نے پہلے بھی گزاری تھیں لیکن ہر دفعہ کم از کم دو تین دوست ضرور ساتھ ہوتے تھے۔ اکیلی رات کبھی نہیں کاٹی تھی میں نے۔ ان جنگلوں اور پہاڑیوں میں، راتوں کا اپنا حسن ہوتا ہے۔ فطرت کے بالکل قریب رات کو حکمرانی کرنے والے جانوروں کی آوازیں اور چھوٹے چھوٹے حشرات الارض کی سرگرمیوں کے ساتھ گزرے ہوئے لمحے بہت یادگار تھے لیکن اس وقت تو مجھے جلدی تھی کہ کسی طرح سے اس گاؤں پہنچ جاؤں جہاں مجھے جانا تھا۔ دوسری مشکل یہ تھی کہ پتہ نہیں کس زاویے پر آکر پھنسا تھا کہ اب موبائل فون کے سگنل بھی نہیں آرہے تھے۔ ویسے میں نے اپنے آپ کو رات کے لئے تیار کرلیا تھا کہ اگر رہنا پڑا تو رہنا پڑا۔

سستانے کے بعد دوبارہ جیسے ہی پہاڑی موڑ کاٹ کر اوپر بڑھا تو مجھے بی بی سی لندن کی آواز آنی شروع ہوگئی۔ مجھے ایسا لگا جیسے تیزی سے ڈوبتے ہوئے کسی نے ڈور تھمادی ہے اور اب ڈور پکڑ کر میں آہستہ آہستہ باہر آرہا تھا، میں نے تیزی سے آواز کی سمت بڑھنا شروع کردیا اور تھوڑی دیر میں ہی روشنی کی جھلمل جھلمل نے آنکھ مچولی کھیلنا شروع کردی۔ میں تیزی سے روشنی کی سمت بڑھتا چلا گیا تھا۔

ذوالفقار بابے کا ہی گاؤں تھا وہ۔ پہاڑی کی چوٹی سے ذرا نیچے۔ دامن کوہ میں بنا ہوا چھوٹا سا گاؤں۔ پھیلی ہوئی چاندنی میں منظر دلکش نہیں بلکہ ہولناک تھا۔ میں نے دیکھ لیا تھا کہ سارے گاؤں کا ہر گھر زمین پر گرا ہوا ہے، کوئی بھی مکان سلامت نہیں بچا تھا۔

ذوالفقار بابے کے گھر کے ساتھ ہی تازہ بنی ہوئی قبریں بتارہی تھیں کہ چھوٹے سے گاؤں میں بڑی تباہی آکر گزرگئی ہے۔

میں آہستہ آہستہ بی بی سی کی آواز کے پیچھے پیچھے گھرکے ٹوٹے ہوئے حصے تک پہنچ گیا۔ ایک درخت کی لکڑی اور ٹین کی بنی ہوئی عارضی چھت کے نیچے ذوالفقار اور اس کا بیٹا احمد بیٹھے ہوئے تھے۔ مجھے دیکھ کر پہلے تو وہ لوگ جیسے ڈرگئے مگر فوراً ہی مجھے پہچان کر ذوالفقار میرے گلے لگ گیا تھا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2