انسپیکٹروں کو تحائف دے کر ڈیزائن پاس کروانے والے بوئنگ جہازوں کی تباہی


یہ تیسری دنیا میں تو سُنا جاتا تھا لیکن ترقی یافتہ ممالک میں ایسی مثالیں کم ہی ملتی تھیں۔ کرپشن کی چہ میگوئیاں بھی ہو رہی ہیں لیکن وہاں عمومی طور پر پہلے چیز کو نا اہلی کے زُمرے میں ڈالا جاتا ہے چہ جائیکہ کرپشن کا کوئی ٹھوس ثبوت نہ مل جائے، گو ہمارے ہاں تو پہلا شک ہی کرپشن کا جاتا ہے۔ پھر یہ رپورٹ بھی آئی کہ اس سسٹم میں نقص ہونے پر ایک الارم سسٹم بھی بنایا گیا تھا جو کہ لازمی کی بجائے اختیاری قرار دے کر علیحدہ پیسوں پر بحیثیت اضافی چیز آفر کیا گیا جو کہ امریکی آئر لائنوں نے تو اپنے جہازوں میں لگوا لیا لیکن سستی ائرلائنز جیسے لائن اور ایتھوپین نے بچت کی خاطر نہیں خریدا۔

اب اسے لازمی قرار دے کر ہر جہاز میں فٹ کیا جائے گا اور سوفٹ ویر میں بھی تبدیلی کی جا رہی ہے کہ وہ پائلٹ کے ساتھ بار بار کُشتی نہ کرے اور ایک کی بجائے دونوں سینسروں سے ڈیٹا لے (سوالات یہ اُٹھائے جا رہے ہیں کہ پہلے کیوں نہ کیا گیا اور خطرات کا تجزیہ جو سسٹمز انجینئرنگ کا ایک لازمی جُزو ہے، میں صرف ایک سنسر ہر انحصار کو کیوں نظرانداز کر کے جہاز کو اڑنے کا سرٹیفیکیٹ دے دیا گیا) ۔ مجھے اس پر سوزوکی مہران کا ایک بروشر یاد آ گیا جس میں سیٹ بیلٹس کو ایکسٹرا قرار دے کر صرف مہنگی والی VXR ماڈل میں اگلی دو سیٹوں پر لگایا گیا تھا۔

اب بظاہر تو لوگ اُمید رکھتے ہیں کہ امریکی بوئنگ کمپنی پاکستان کی سوزوکی سے بہتر ہو گی لیکن شاید پیسوں کی بچت جب ترجیح بن جائے تو بڑی بڑی کمپنیاں ایسی حرکات شروع کر دیتی ہیں۔ اب معلوم ہو رہا ہے کہ ایف اے اے کے اہلکار بوئنگ کے دفتر میں ہی بیٹھتے تھے اور ان کے بوئنگ کے ساتھ بڑے زبردست اور دوستانہ تعلقات بن چکے تھے اور بوئنگ ان کے اخراجات بھی اُٹھا رہی تھی اور تحفے تحائف اور سیروتفریح بھی کروا رہی تھی۔ کچھ پاکستان جیسا ہی ماحول بن رہا تھا ریگولیٹر اور کمپنیوں کے بیچ میں۔ لگتا ہے کہ بجائے ہم ان سے کچھ سیکھیں، وہ ہم سے سیکھ رہے ہیں۔ بقول فہمیدہ ریاض کے ؛ تم بالکل ہم جیسے نکلے، اب تک کہاں چھپے تھے بھائی؟

لائن ائیر اور بوئنگ پھر خبروں میں آ گئیں، جب لائن ائر نے متاثرین کو معاوضہ دینے کی شرط پر ان سے قانونی کاغذات پر دستخط کروا لیے کہ وہ نہ صرف لائن ائیر بلکہ بوئنگ اور اس سے متعلقہ کمپنیوں پر کوئی ہرجانے کا دعویٰ نہیں کریں گے جو کہ انڈونیشیا کے قانون کے مطابق غیر قانونی عمل تھا اور معاوضے کی رقم بھی بین الاقوامی قوانین کے مطابق کم سے کم تھی۔ اس بات پر کافی شوروغل برپا ہوا کہ بوئنگ کمپنی لائن آئر کے ساتھ گٹھ جوڑ کر کے معاملہ رفع دفع کرنا چاہتی ہے اور صرف وقت کے انتظار میں ہے کہ لوگوں کی توجہ دوسری طرف مبذول ہو۔

شاید سانحہ ساہیوال کہ طرح اب یہ پوری دنیا کے طاقتور لوگوں کا وتیرہ بن چکا ہے کہ مشکل وقت پر سر نیچا کر کے خاموشی اختیار کر لی جائے اور جب لوگوں کی توجہ بدل جائے تو معاملہ کو احسن طریقے سے نبٹا لیا جائے۔ بوئنگ کی ان حرکات کی وجہ سے لوگوں کو دال میں کالا دکھائی دے رہا ہے لیکن اتنی بڑی اور طاقتور کمپنی یقیناً سی ٹی ڈی کی طرح بچ کر نکل جائے گی کیونکہ شاید یہی اصل حقیقت ہے کہ جس کی لاٹھی، اس کی بھینس۔

اب ساری نظریں بوئنگ کمپنی پر جُڑی ہیں کیونکہ اگر تو صرف سافٹ ویئر اپ گریڈ کرنے سے مسئلہ حل ہو جائے گا تو شاید بوئنگ کمپنی کا نقصان ایک ارب ڈالر سے تجاوز نہ کرے لیکن اگر اس کے ڈیزائن کا پہلا مسئلہ (جس کے لئے سافٹ ویئر بنایا گیا تھا) پھر نمودار ہو گیا اور اس جہاز کو ختم کرنا پڑا تو نہ صرف بوئنگ بلکہ اس سے جڑی وسیع تر امریکی معیشت تک اس کے اثرات جائیں گے۔

یہ سارا معاملہ دو چیزوں کا واضح سبق دیتا ہے۔ پہلا یہ کہ گورنمنٹ ریگولیٹر اور پرائیویٹ کمپنیوں میں دوستانہ تعلقات نظام کو خراب کر دیتے ہیں۔ جب انسپکشن ٹیم تحفے تحائف لینے میں مصروف ہو جائے تو پھر چیکنگ ثانوی ہو جاتی ہے اور پرائیویٹ کمپنیاں تو موقع کی تلاش میں ہوتی ہیں کہ وہ انسپکٹرز کو احسان مند کر سکیں۔ امریکہ کے باہر جب برٹش پٹرولیم کی آئل رگ تباہ ہوئی اور سمندر میں بے تحاشا تیل پھیلا تو انکوائری میں ایسی ہی دوستیوں کا پتہ چلا۔

گورنمنٹ نے آرڈر دیا کہ آیندہ سے دورہ کرنے والے انسپکٹرز اپنا پانی بھی ساتھ لے کر جائیں گے اور گرم تپتی دوپہر میں کمپنیوں سے ٹھنڈا پانی کا گلاس لے کر پینا بھی جُرم قرار دے دیا گیا۔ دوسرا یہ کہ جب تکنیکی فیصلے تجارتی یا سیاسی مجبوریوں کے باعث کیے جائیں تو پھر چیزیں بعد میں مسائل پیدا کر دیتی ہیں۔ گورنمنٹ میں ایک فقرہ مشہور ہے کہ senior is engineer یعنی کہ سینیر کا کہا ہی انجینئرنگ ہے اور جونیئر انجینئر چاہے اختلاف بھی کرے، سینئر کی بات غلط ہونے کے باوجود مستند ہو گی۔ یا جونیئر نوکری کر لے یا درست بات۔

پشاور بی آر ٹی کی بھی خبریں آرہی ہیں، کہ نکاسی کا نظام سرے سے موجود ہی نہیں یا ڈیزائن تعمیر شروع ہونے کے بعد بار بار تبدیل کیا جاتا رہا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ الیکشن سے پہلے مسلم لیگ کے مقابلے میں اپنا میگا پراجیکٹ لانے کی جلدی میں ڈیزائن میں جلدبازی سے کام لیا گیا اور یقیناً انجینئرز کے اعتراضات کو نظرانداز کر کے کام شروع کر دیا گیا اور اب اس کا خمیازہ بھگتنا پڑ رہا ہے اور یہ پراجیکٹ پی ٹی آئی کے لئے بجائے کریڈٹ کے، تضحیک کا باعث بن رہا ہے۔

یہی کام نندی پور پراجیکٹ میں ہوا اور اسلام آباد ائرپورٹ میں ہوا اور نتیجہ آپ کے سامنے ہے کہ دو رن وے اتنے نزدیک بنا دیے گئے کہ وہ بیک وقت استعمال نہیں کیے جا سکتے جو اس تعمیر کا مقصد تھا۔ جو کام سکھلائی کے طریقے کے مطابق جتنا وقت مانگتا ہے اسے تجارتی یا سیاسی مجبوریوں کے باعث جلد بازی میں نہیں کرنا چاہیے۔ اگر مسئلہ بنیادی ڈیزائن میں آ جائے تو پیوند کاریوں سے اکثر مکمل طور پر ختم نہیں کیا جا سکتا، جیسا کہ اس جہاز میں ہو رہا ہے۔

کیونکہ یہ تعمیراتی پراجیکٹ کم پیچیدہ ہوتے ہیں لہذا شاید اور پیسہ لگانے سے بی آر ٹی یا اسلام آباد ائرپورٹ کے مسائل حل ہو جائیں لیکن شاید کوئی فرق نہ پڑتا اگر پی ٹی آئی کی اگلی گورنمنٹ کا انتظار کر لیا جاتا اور انجینئرز کو بی آر ٹی ڈیزائن مکمل کرنے کا پورا وقت دے دیا جاتا۔ سچ کہاوت ہے کہ جلدی کام شیطان کا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2