چھ ہفتے کا ریلیف


سپریم کورٹ کی جانب سے منگل کے روز آئے فیصلے سے ’’ڈیل یا ڈھیل‘‘کا تاثر اجاگر نہیں کرسکتا۔ خالصتاََ طبی بنیادوں پر مہیا ہوئی چھ ہفتوں تک محدود مہلت ہے۔اس مہلت میں اضافہ اگر ضروری قرار پایا تو فقط ہائی کورٹ کا وہ بنچ ہی فراہم کرپائے گا جس کے روبرو سابق وزیراعظم کو احتساب عدالت کی جانب سے سنائی سزا کے خلاف اپیل زیرسماعت ہے۔

تلخ حقیت مگر یہ ہے کہ ہمارے ہاں تاریخی اعتبارسے جائز وجوہات کی بنا پر عدالتی فیصلوں کو As it isلینے کی روایت قائم نہیں ہوپائی۔ ان کی ’’سیاسی‘‘ وجوہات تلاش کرنے کی عادت لاحق ہوچکی ہے۔

اگرچہ یہ حقیقت بھی تسلیم کرنا ہوگی کہ خالصتاََ قانونی بنیادوں پر ہوئے فیصلوں کے بھی سیاسی اثرات ہوتے ہیں۔منگل کے روز آئے فیصلے کے سیاسی اثرات پر غور کرتے ہوئے چند معلومات کی بناء پر میں فوری طورپر یہ سوچنے کو مجبور ہوگیا کہ شہباز شریف کی ’’غیر جارحانہ‘‘ حکمت عملی کامیاب رہی۔

فقط قانونی راہ نکلنے پر اصرار نے ان کے بھائی کو وہ ریلیف فراہم کردیا جو ان کی صحت کی بحالی کے لئے ضروری تھا۔پاکستان مسلم لیگ (نون) کے انتخابی سیاست پر تکیہ کرنے والے رہ نمائوں کی اکثریت شہباز شریف کی ’’کامیاب‘‘ٹھہری حکمت عملی خود کو اب مزید “Pragmatic”بنانے کے لئے استعمال کرے گی۔

’’تخت یا تختہ‘‘ والے معرکوں سے اجتناب کو ترجیح دی جائے گی۔ سیاسی اعتبار سے منگل کے روز آیا فیصلہ نواز شریف کو ذاتی طورپر مہیا ہوئے ریلیف کے مقابلے میں پاکستان مسلم لیگ (نون) کے روایتی رہ نمائوں کے لئے کہیں زیادہ تسکین کا باعث ہوگا۔گزشتہ چند ہفتوں سے نواز شریف کے جواں سال حمایتیوں کے ذہن میں یہ سوچ اُبلنا شروع ہوگئی تھی کہ اپنے ’’قائد کی قربانیوں کی بدولت‘‘ حاصل ہوئے ووٹوں کی مدد سے کئی مسلم لیگی رہ نما تمام تر مشکلات کے باوجود اسمبلیوں تک پہنچ پائے۔

قومی اور پنجاب اسمبلی میں ایک مؤثر تعداد کے ساتھ موجودگی کے باوجود مگر وہ حکومت کے لئے چیلنج کی صورت اختیار نہ کر پائے۔ ’’اسی تنخواہ‘‘ پر خاموشی سے نوکری کرتے دکھائی دئیے۔ اس تناظر میں نواز شریف منگل کے روز میسر ہوئی مہلت کے بغیر طبی اعتبار سے ایک بہت ہی کڑی سزا کاٹتے ہوئے تنہا نظر آتے۔

یہ پیغام جاتا کہ ’’ان کی وجہ سے‘‘ اسمبلیوں تک پہنچنے والوں نے انہیں بھلادیا ہے۔مسلم لیگی رہ نمائوں کے غیر جارحانہ رویوں سے شاکی جواں سال افراد نے اپنے جذبات کے اظہار کے لئے سوشل میڈیا استعمال کرنا شروع کردیا۔ بات چل نکلی تو کوٹ لکھپت جیل کے سامنے ’’دھرنا‘‘ دینے کا ارادہ پروان چڑھنے لگا۔

پاکستان مسلم لیگ (نون) کے کئی رہ نما نجی محفلوں میں ’’آف دی ریکارڈ‘‘ اس شبے کا اظہار کرتے رہے کہ سوشل میڈیا پر اُبلتے جذبات ’’بے ساختہ‘‘ نہیں ہیں۔ غالباََ یہ شوروغوغامحترمہ مریم نواز Wink or Nodکا نتیجہ ہے۔ایک ریٹائرڈ رپورٹر ہوتے ہوئے بھی میں نے ان کے دلوں میں موجود شکوک وشبہات کا ثبوت ڈھونڈنے کی کوشش کی۔ ناکام رہا۔

سوشل میڈیا پر اُمڈے جذبات بے ساختہ ہی نظر آئے۔ ان کی منظم سرپرستی دریافت نہ کرپایا۔ اگرچہ حقیقت اس کے برعکس بھی ہوسکتی ہے۔

سیاسی تحاریک کا ادنیٰ طالب علم ہوتے ہوئے البتہ مجھے یہ خیال ضرور لاحق رہا کہ سوشل میڈیا کے ذریعے کوٹ لکھپت جیل کے باہر دھرنے کی خواہش پرخلوص ہوتے ہوئے بھی خالصتاََ جذباتی اور ٹھوس وجوہات کی بنا پر بہت قبل ازوقت تھی۔سوشل میڈیا پر متحرک ہوئے نواز شریف کے جواں سال حمایتی اس حقیقت کا ادراک نہیں کر پائے ہیں کہ پاکستان مسلم لیگ (نون) اپنی سرشت میں ایک تحریکی جماعت نہیں۔

اس جماعت کا ووٹ بینک اگرچہ بہت تگڑا ہے جو حالیہ انتخابات میں خاص طورپر وسطی پنجاب کے شہروں اور قصبا ت میں مستقل مزاج ثابت ہوا۔ووٹر اور سیاسی کارکن مگر دوقطعاََ جدا رویوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ووٹ بینک کی سیاست کے مقابلے میں کسی سیاسی نظریے کی بنیاد پر چلائی تحریک کو بہت ہی منظم اور ثابت قدم سیاسی کارکنوں کی ضرورت ہوتی ہے۔

1980ء کی دہائی کے وسط سے ہماری سیاست مگر ’’غیر نظریاتی‘‘ ہونا شروع ہوگئی۔ پے در پے انتخابات نے سیاسی جماعتوں کو توانا تر بنانے کے بجائے نام نہاد Electablesاور ان کے ووٹ بینک کو مضبوط تر بنانا شروع کردیا۔ سیاسی نظریات کی بنیاد پر کوئی تحریک چلانے سے قبل ملک بھر میں سیاسی کارکنوں کے احیاء کی ضرورت ہے۔ فی الوقت ایسے کارکن ہماری سیاسی جماعتوں کو میسر نہیں۔

مذہبی بنیادوں پر سیاست کرنے والوں کے پاس ’’مدرسہ نیٹ ورک‘‘ ہے۔ سیاسی تنظیم نہیں۔سوشل میڈیا کے ذریعے پرخلوص جذبات کی بنیاد پر کوٹ لکھپت جیل کے سامنے دھرنا دینے کی بے ساختہ نظر آنے والی خواہش بیک فائر بھی کرسکتی تھی۔ فرض کیا اس کی بدولت کارکنوں کی مؤثر تعداد دیکھنے کو نہ ملتی تو نواز شریف کے مخالفین اسے ان کی مقبولیت میں ’’کمی‘‘ثابت کرنے کو استعمال کرسکتے تھے۔

شاید اسی خدشے کو نگاہ میں رکھتے ہوئے میری اطلاع کے مطابق شہباز شریف صاحب نے 23مارچ سے چند دن قبل جیل میں اپنے بھائی سے ملاقات کی۔عمومی طورپر میرے لئے مستند ثابت ہوئے ایک ’’ذریعہ‘‘نے یہ دعوی بھی کیا ہے کہ مذکورہ ملاقات میں خواجہ آصف بھی ان کے ہمراہ تھے۔ اس ملاقات کی بدولت نواز شریف نے واضح الفاظ میں اپنے چاہنے والوں کو کوٹ لکھپت جیل کے باہر دھرنے کی صورت جمع ہوجانے سے روک دیا۔

منگل کے روز نواز شریف کو مہیا ہوا ریلیف ان کے جواں سال حمایتوں کے دلوں میں جمع ہوئی Steamکے اخراج میں آسانی پیدا کرے گا۔ مسلم لیگ کے Electablesاور جواں سال حمایتوں کے لئے Win-Winہوگیا ہے۔ چھ ہفتے گزرجانے کے بعد کوئی نئی صورت ابھرے گی جسے فی الوقت میرا ذہن Imagineکرنے سے قاصر ہے۔

بشکریہ روزنامہ نوائے وقت


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).