تمغہ امتیاز اور مہوش حیات


بلاشبہ یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان تمام افراد کی خدمات اور کوششوں کا اعتراف کرے جو اس کی فلاح و بہبود کے لئے ہر وقت کوشاں رہتے ہیں۔ اور اپنی ذاتی خواہشات کو پس پشت ڈال کر ریاست کی بہتری اور ترقی کا سوچتے ہیں۔

تاریخ گواہ ہے کہ جب سے دنیا میں ریاستی طریقہ کار رائج ہوا ہے، مختلف وقتوں میں ریاستی عناصر ریاست کی فلاح کے لئے عملی کوشش کرنے والوں کی مختلف صورتوں میں اعتراف کرتے رہے ہیں۔

مملکت خداداد پاکستان بھی ایک ریاست کی حیثیت سے اپنے شہریوں کے ہر اچھے عمل کو سراہتی ہے۔ اس ضمن میں مختلف شعبوں میں مختلف خدمات انجام دینے والوں کی حوصلہ افزائی کے لئے مختلف انعامات اور ایواڑذ سے بھی نوازتی ہے۔ تمغہ امتیاز کا تعلق بھی ایسے ہی ایوارڈز سے ہے جو ریاست پاکستان کا چوتھا بڑا سول ایوارڈ ہے۔ تمغہ امتیاز مختلف شعبوں مثلاً سائنس، فلسفہ، ماحولیات، ٹیکنالوجی، کھیل، کاروبار، شوبز وغیرہ میں نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والوں کو عطا کیا جاتا ہے۔

نمایاں کارگردگی کی تعریف یوں کرسکتے ہیں کہ اگر ایک شخص ملک و قوم کی خاطر اپنے ذمہ داریوں سے کئی گنا بڑھ کر کام کرے۔ یعنی ملک کی فلاح و بہبود کے لئے اپنے فرائض سے بڑھ کر خدمات انجام دینے کا نام نمایاں کارکردگی ہے۔ تمغہ امتیاز کوئی عام ایواڑ نہیں لہذا اس کی اہمیت اور وقعت کو برقرار رکھنے کے لئے ان خواتین و حضرات کا انتخاب بڑی ہوشیاری اور ایمانداری سے کیا جاتا ہے، جن کو یہ تمغہ عطا کیا جاتا ہے۔ ایسے خواتین و حضرات کے انتخاب کے لئے ایک باقاعدہ عمل ہے، جو ان کے ناموں کی جانچ پڑتال کے مختلف مراحل سے گزارتا ہے۔

سب سے پہلے پارلیمنٹ کی کمیٹی برائے ایوارڈذ ان تمام ناموں کا انتخاب کرتی ہے، جن کو وہ اس ایوارڈ کا حقدار قرار دیتی ہے۔ ناموں کے انتخاب کے بعد یہ فہرست وزیراعظم پاکستان کی خدمت میں بھیجی جاتی ہے جہاں وہ ان ناموں پر غور و خوض کرتے ہیں۔ وزیر اعظم کو اگر کسی نام یا کسی کی خدمات سے اعتراض ہو تو وہ ان ناموں کو دوبارہ کمیٹی میں بھیج دیتے ہیں۔ اور ہاں اگر انہیں کمیٹی کی طرف سے بھیجے گئے ناموں سے اتفاق ہو تو وزیراعظم یہ فہرست صدر مملکت کی خدمت میں ارسال کرتے ہیں اور ساتھ یہ بھی سفارش کرتے ہیں کہ ان تمام قومی محسنوں کو انعامات و ایواڑذ سے نوازنے کے لئے ایک تقریب کا اہتمام کیا جائے۔ صدر مملکت وزیراعظم پاکستان کی سفارش پر ایک پروقار تقریب کا انعقاد کرتے ہیں جہاں ان تمام منتخب شدہ افراد کی کامیابیوں اور کارگردگی کا اعلان بھی ہوتا اور ساتھ ساتھ انہیں تمغے سے بھی نوازا جاتا ہے۔

اگرچہ تمغہ امتیاز سول ایوارڈ ہے۔ مگر یہ ایواڑ افواج پاکستان کے ان بہادر جوانوں کو بھی عطا کیا جات ہے جو ملک و قوم کی بہتری کے لئے ناقابل فراموش کارنامے انجام دیتے ہیں۔ جو شہروں میں یا سرحدوں میں پہرے دیتے ہیں تاکہ قوم آرام کی نیند سو سکے۔ اس کے علاوہ تمغہ امتیاز ان غیر ملکی باشندوں کو بھی عطا کیا جاتا ہے جو مختلف حوالوں سے مملکت پاکستان کے لئے نفع کا باعث بنتے ہیں۔

ہر سال کی طرح اس سال ( 2019 میں ) بھی ایوان صدر اسلام آباد میں زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی شخصیات کو مختلف ایوارڈز سے نوازنے کی تقریب ہوئی۔ جس میں خوب رو اداکارہ مہوش حیات سمت 172 افراد کو تمغہ امتیاز سے نوازا گیا۔

اس تقریب کے بعد رائے عامہ میں مہوش حیات کے نام کے حوالے سے ایک بھونچال سا آگیا ہے۔ جہان ایک طبقہ مہوش حیات کو تمغہ دیے جانے کی حمایت کر رہا ہے تو دوسرا مخالف طبقہ حکومتی اس فعل کے خلاف مذمت بھرے جملے کس رہا ہے۔ دوسرے طبقے کی جانب سے تمغہ امتیاز کی اہمیت اور ساخت پر بھی سوال اٹھائے جارہے ہیں اور کہا جارہا ہے کہ مہوش حیات کو دیے جانے کے بعد اب اس تمغہ کی کوئی اہمیت نہیں رہی۔ بقول ان کے کیا اچھا ہوتا اگر مہوش حیات کی جگہ یہ ایوارڈ ایک ڈاکٹر کو یا ایک قابل سائنسدان کو یا ایک قابل عالم دین کو دیا جاتا۔

ایسے تمام جذباتی خواتین و حضرات کے جذبات اور خدشات اپنی جگہ مگر میں ان کے خیالات سے اتفاق نہیں کرنے کی جسارت کروں گا اور اس ضمن میں اپنا موقف بھی بیان کرنے کی کوشش کروں گا۔

اگر ہم اپنی روزمرہ زندگی میں دیکھیں تو ہم اس بات سے انکار نہیں کرسکتے کہ زندگی کے ہر شعبے اور پہلو کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے۔ طب، فلسفہ، طبعیات، علم فلکیات، کھیل کود، تفریح، غرض کہ ہر شعبے کی اپنی جگہ اہمیت ہے اور کوئی بھی شعبہ یا پہلو نہ دوسرے شعبوں سے بالاتر ہے نہ بد تر۔ ہر ایک کی اپنی ضرورت و اہمیت ہے۔ خاص اسی طرح ریاست کی نظر میں ان تمام شعبوں کی اہمیت برابر ہے۔ اور وہ بلا امتیاز ان تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔

مہوش حیات کا تعلق بھی زندگی کے ایک اہم شعبہ شوبز یا اداکاری سے ہے۔ اس بات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا ہے سنیما ان کی تفریح کا بہت بڑا ذریعہ ہے اور تفریح انسان کو خوش و خرم رکھتی ہے۔ مہوش حیات کی اداکاری نے (خاص کر ان کی حالیہ فلم پنجاب نہیں جاوں گی ) پاکستانی فلم انڈسٹری کی گرتی عمارت کو ستون کا کام کیا ہے۔ ان کی اداکاری بلا شبہ دیگر اداکاروں سے بہتر ہے اور ان کو تمغہ دیا جانا بھی مناسب ہے۔ دوسری بات یہ ہے ہر شعبے کو تمغہ امتیاز عطا کیا جاتا ہے اور اس شعبے کے افراد میں سے ہی کسی کو چنا جاتا ہے۔

اب شوبز کا ایوارڈ کسی محترم مولانا صاحب کو ملتا تو کتنی عجیب بات ہوتی۔ یا اداکاری کا بہترین ایوارڈ کسی جج کو یا فوجی افسر کو ملتا تو کتنی نامناسب بات ہوتی۔ لہذا میں یہ کہنا چاہ رہا ہوں کہ شوبز کا ایوارڈ کسی اداکار یا اداکارہ کو ہی ملنا تھا جس نے اداکاری کے میدان میں اپنا لوہا منوایا ہو۔ اگر یہ ایواڑ مہوش حیات کے بجائے عائشہ عمر یا صبا قمر یا کسی اور اداکارہ کو ملتا تو بھی لوگوں نے ویسی ہی باتیں کرنی تھی۔

وہ تمغہ ایک شوبز کا تھا اور شوبز سے ہی تعلق رکھنے والی اداکارہ کو ملا۔ اس تمغے کے ساتھ اس سے زیادہ انصاف اور کیا ہوتا۔ ہاں آپ اس رائے سے اختلاف کرسکتے ہیں کہ مہوش حیات کے بجائے کوئی اس اور اس کا حقدار تھا یا تھی مگر اس بات سے اختلاف بالکل نہیں کرسکتے کہ یہ ایوارڈ شوبز کو کیوں گیا۔ اور آپ بالکل یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ ایوارڈ ایک اداکارہ کے بجائے کسی اور شخصیت مثلاً کسی جج، ڈاکٹر، یا کسی کھلاڑی کو کیوں نہ ملا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).