عالم اسلام میں پسماندگی کا سبب سائنس سے دوری


خالقِ ارض و سما نے اپنی بنائی ہوئی کائنات کے پورے نظام پر غور و خوص کے لئے خلیفۂ الارض حضرت انسان کو حکم دیا ہے کہ وہ اس کے بنائے ہوئے

نظام پر اپنی تمام تر توجہ مرکوز کرے، فکر کے سمندر میں غوطہ زن ہو جائے اور حقائق کے موتی نکال کر اپنے اور اپنے ہم عصروں کے سامنے رکھ دے۔ علم سائنس بھی ایسی ہی تخلیق کا نام ہے جو غور و فکر اور تحقیق پر مبنی ہوتی ہے۔

اگر غور و فکر کرکے دیکھا، پرکھا، سوچا اور سمجھا جائے تو سائنس کا علم علوم الہٰیہ سے مختلف نہیں ہے فرق صرف کم نگاہی اور ذہنی تعصب کی وجہ سے سامنے آ جاتا ہے اور یقیناً انہی وجوہات کی بنا پر عالم اسلام میں کچھ لوگ ان سائنس دانوں کے نظریات کو مذہب سے متصادم سمجھتے ہوئے ان سے ٹکراؤ کا راستہ اختیار کرتے ہیں جبکہ ایک گروہ ایسا بھی ہے جو خدا کے وجود کا ہی منکر ہے۔ مسلم سکالرز، فلاسفرز، علماء محققین اور دانشوروں میں بھی ایسے صاحبان کی بہتات ہے جو سائنسی علوم کو مذہبی عقائد کے ساتھ متصادم قرار دیتے ہوئے ان کے فیوض و برکات کے حصول سے کنارہ کش ہو جاتے ہیں۔ اسی وجہ سے نسل درنسل عالم اسلام میں وسیع القلبی، ذہنی بلوغت، اعمال میں پختگی اور اقدامات میں جرأت پیدا نہیں ہوسکی جو عصر حاضر کی ضرورتوں کی تکمیل کے لئے اور اقوام عالم کے ساتھ فکری تقابل کے لئے ضروری عناصر ہیں۔

جدید اور سائنسی علوم سے دوری ہی مسلم ممالک کو عالمی ترقی کی دوڑ میں پیچھے رکھنے کا موجب بنی ہوئی ہے۔ یہاں اگر مذہب پر بحث کی جائے توسوال پیدا ہوتا ہے کہ مذہب کیا ہے؟ تو ہمیں اس سوال کا جواب یہ ملتا ہے کہ بس ایک ہی خدا ہے اور پوری کائنات کا مالک خالق وہی ہے اسی کے قبضہ قدرت میں کائنات کی ہر شے ہے اور بلاشبہ زمین و آسمان کے سارے نظام کو وہ خود چلاتا ہے کائنات میں ایک پتا بھی اس کی مرضی کے خلاف حرکت نہیں کرسکتا ہے اسی کی قدرت کاملہ نے قانون فطرت کے تحت ہر چیز کو اپنے کام پر معمو ر کررکھا ہے اور اس میں تغیر و تبدل کا رونما ہونا بھی انہی قوانین فطرت کے تحت ہے۔

اب یہاں یہ بھی سوال پیدا ہو رہا ہے کہ سائنس کیا ہے؟ تو جواب ملتا ہے کہ کائنات کے وہ تمام راز جو سر بستہ رکھے گئے ان کو کھول دینے کا نام، نظام حیات کے تمام اسرار و رموز جان لینے کا نام، زمین و آسمان کی تخلیق اور اس خلقت کے مقاصد کا نام، ہر شے پر عقلی اور منطقی انداز میں دلائل کے ساتھ غور وفکر کرکے اس کے آغاز و انجام تک کے رازوں کو جان لینے کا نام، بے لاگ تبصروں اور حقیقتوں کے بے رحمانہ انکشافات کا نام، سائنسی ارتقا سے گزر کر اکیسویں صدی کی دہلیز پر قدم رکھنے والا انسان ہر چیز کے نقطۂ آغاز سے انجام تک پرکب، کہاں، کیسے اور کیوں جیسے سوالات اٹھاتا ہے۔

سائنس انسان کے کمالات سے نظام کائنات میں اس کی حکمرانی کی فکر کو پروان چڑھانے کا نام ہے، سائنسی دنیا کا انسان نت نئی ایجادات اور حیران کن تخلیقات کے باوجود چارو ناچار موت کے سامنے بے بس نظر آتا ہے یقیناً یہی مذہب ہے۔ اب یہاں نتیجہ کیا نکلتا ہے کہ سائنس تو اسی علم، اسی فکر اور اسی کاوش کا نام ہے جو انسان کو خالق و مالک کائنات نے دی ہے یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ جدید دنیا کے انسان اور مذہبی رجحانات رکھنے والے انسان میں ٹکراؤ کہاں پیدا ہوا، خداکے نظام کے ساتھ بغاوت کو نسی فکر قرار پائی اور سب سے بڑھ کر اسلام کے بنیادی اصولوں کے درمیان ٹکراؤکیسے پیدا ہوا؟

صاحبان فکر و نظر اس عقدے کو یوں حل کرتے ہیں کہ سائنس اور مذہب کے درمیان تصادم کی روش مذہب کے ساتھ منسوب تنگ نظر پیروکاروں اور جدید علوم کے حامی مادر پدر آزادی کے خواہش مندوں نے پیدا کی۔ عالم اسلام نے ہمیشہ فضیلت اور برتری کا سبب علم کو ہی قرار دیا ہے جبکہ انتہائی مایوس کن پہلو یہ ہے کہ بیشتر علما جدید علوم سے یکسر بے بہرہ ہونے کے سبب سائنسی دور میں جنم لینے والے ترقی پسند انسان کی روحانی تشنگی بجھانے میں یکسر ناکام رہتے ہیں جس سے سائنسی انقلاب کے دور میں آنکھ کھولنے والا انسان مذہب سے دور ہوتا جا رہا ہے۔ اگر تاریخ کی ورق گردانی کی جائے تو یہ حقیقت آشکار ہوگی کہ سائنسی ایجادات کا سہرا بھی عالم اسلام کے اکابرین کے ہی سر ہے لیکن موجودہ دور کے خود ساختہ سکالرز نے اسلام اور سائنس کو دو متصادم نظریات بنا کر انسان کو فکری اضطراب میں مبتلا کردیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).