آہ! نیوزی لینڈ تیری تاریخ بدل گئی


مسجد النور کی بیرونی دیوار کے ساتھ ساتھ پھولوں کے ڈھیر اس بات کی غمازی کر رہے تھے کہ مغرب کی طرف سے پھیلایا جانے والے اسلام دشمن پروپیگنڈے نے کتنے دلوں میں نفرت اور تعصب کی آگ کو ہوا دی تھی اور کتنے ذہنوں نے اسے قبول نہ کرتے ہوئے اپنے دامن کو اس مکروہ فلسفے سے آلودہ نہیں ہونے دیا تھا۔ یہاں پھول رکھنے والے صرف مسلمان ہی نہیں ان میں عیسائی، یہودی، ہندو اور بدھ مت کے ماننے والے بھی شامل تھے جب کہ ان میں زیادہ تعداد مقامی لوگوں کی تھی جو ایک ایسے ملک کے باشندے تھے جس کی تاریخ اپنے دامن میں صلح جوئی، انسانیت، محبت اور فکر و عمل کے سچے جذبوں سے مالا مال تھی۔

مسجد کے سامنے کھڑی عورتوں، بچوں نوجوان اور بوڑھے لوگوں میں کوئی ایک بھی ایسا نہیں تھاجس نے اپنے چہرے پہ دکھ اور افسوس کا مصنوعی نقاب اوڑھ رکھا ہو کچھ نوجوان عورتوں کی آنکھوں میں انسو بھی تھے اور کہیں پھولوں کے ڈھیر پہ ایک گتے کے ٹکڑے پہ لکھی ہوئی ایک بچے کی تحریر دلوں میں خنجر کی طرح اتر رہی تھی

” It is not New Zealand“

دلوں میں خنجر کی طرح اتر رہی تھی جی ہاں یہ وہ نیوزی لینڈ نہیں تھا جو اس سے ایک دن پہلے تھا اس کی تاریخ بدل چکی تھی ایک بدبخت نے اس کے دامن پہ اپنی نحوست، بربریت اور درندگی کے نہ مٹنے والے نشان چھوڑ دیے تھے۔ کتنے لوگوں نے مغرب کے اسلام فوبیا پروپیگنڈے کو قبول کیا اور کتنے لوگوں نے اسے اٹھا کر ان تنگ نظر، کج فہم اور نام نہاد دانشوروں کے منہ پہ دے مارا جو اسلام اور مسلمان کو دہشت گرد قرار دیتے ہوئے بڑھ چڑھ کر بولیاں لگا رہے تھے ایک جنونی اسٹریلین باشندے نے جس بربریت کا ارتکاب کیا ہے اپنے آپ کو مہذب کہلانے والے اس کو کیا نام دیں گے شاہد انہیں اس کے لئے بھی سوچنا پڑے کہ وہ کوئی ایسا نام تجویز کریں جس سے وحشت اور بربریت کی بوکم آئے اور

Enough

جیسے الفاظ موزوں دکھائی دیں یا پھر اسے ایک ذہنی مریض قرار دیں جس کی ذہنی کیفیت اس حد تک بگڑ چکی ہو کہ اس نے ہاتھوں میں ہتھیار اٹھالئے ہوں ہاں کچھ لوگوں کو اس سے ہمدردی بھی تو ہو سکتی ہے آخر بے چارہ ایک ذہنی مریض ہی تو تھا۔ دہشت گرد کون ہے اس کا فیصلہ تاریخ کرے گی اور بہت جلد کرے گی اس کی ابتداء ہو چکی ہے۔ ایک ایسی سرزمین جہاں خواب بھی اتنے حسین نہیں ہوتے کہ اس کے مرغزاروں، پہاڑوں، سمندروں، آبشاروں اور جھیلوں کا طلسم توڑ سکیں۔

اس کے سفید برستے بادلوں کی خاموشی میں چھپا ہوا راز اگر کسی کی سمجھ میں آ جائے تو وہ اپنے وقت کا نیوٹن کہلائے۔ یہاں امریکہ اور اسٹریلیا کی طرح جرائیم پیشہ افراد کو کالا پانی سمجھ کر نہیں بھیجا گیا تھا یہاں بسنے والے لوگ اس کے خوبصورت مناظر اور قدرتی حسن سے مرغوب ہو کر یہاں آئے تھے اسی لئے تو یہاں کسی کو تعصب کی تشریح سمجھ میں نہیں آتی۔ نیوزی لیند کی ایک شاعرہ نے کہا تھا ”مجھے ایسا لگ رہا تھا جیسے میں نہیں میرے سامنے کوئی اور سانس لے رہاہے میرے ہت قریب بہت قریب میں سن رہی ہوں دیکھ رہی ہوں ان نظاروں کو جیسے یہ میرا دوسرا جنم ہو“

ایک مفکر نے کہا تھا ”نیوزی لینڈ میں ایک حقیقی خالص پن اور سکوت ہے اور یہ ایک ایسی حقیقت ہے جسے سمجھنا مشکل ہے، یہ ایک یونیک سرزمین ہے جو دوسرے دنیاسے الگ تھلگ ہے یہاں ایک احساس تحفظ ہے جیسے ہم ہر بلا سے مھفوظ“

یہ زخم کریس چرچ کی مسجد پہ نہیں پورے نیوزی لینڈ کے سینے پہ لگے ہیں جو شاہد کبھی بھی مندمل نہ ہو سکیں یہاں جمع ہونے والے لوگ کسی کا برا چاہنے کے لئے مسجد میں نہیں آئے تھے اپنے اللہ کی عبادت کے لئے آئے تھے وہ اللہ جو سب کا ہے کوئی عیسائی ہو، یہودی ہو یا کافر ہو سب کا اللہ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).