لا اکراہ فی الدین، حکم اللہ اور ہماری منافقت


مارچ 1936 کے ایک پر آشوب دن کا ذکر ہے کہ بنوں سے سولہ سالہ یتیم ہندو لڑکی کو سید امیر نور علی نامی ’غیور‘ جوان نے اغوا کیا۔ اسی روز وہ رام کوری سے اسلام بی بی بنی اور بنت اسلام بنتے ساتھ ہی اغوا کرنے والے نوجوان نے اس سے نکاح فی سبیل اللہ کرلیا۔ خبر پھیلی برطانوی سامراج حرکت میں آیا اور لڑکی کی تلاش شروع ہوئی تو غیور قبائل نے لڑکی کو اسلام کے سدا بہار قلعے افغانستان منتقل کرنا چاہا مگر چونکہ اُس وقت فرنگی حکومت کے لئے سب ہندوستانی برابر تھے لہذا سازش ناکام بنا کر لڑکی کو ماں کے حوالے کردیا گیا۔ یہی وہ واقعہ تھا جس پر فقیر آف ایپی اتنا مشتعل ہوا کہ اسے اسلام ’خطرے‘ میں نظر آنے لگا اور اس نے ’اعلان جہاد‘ کردیا اور قبائلی سرزمین انگریزوں کے ساتھ ہندوؤں پر بھی تنگ کردی۔

انہی سالوں میں بنوں سے ستائیس سو کلو میڑ دور جنوبی بھارت کے صوبہ کیرالا میں ایک امیر کبیر موپلا مسلم خاندان نے ترک اسلام کے بعد ہندو دھرم اختیار کیا تو کچھ دن بعد ہی کسی گمنام ’مجاہد‘ نے رات کے وقت گھر میں گھس کر پورے خاندان کو جس میں خواتین بھی شامل تھیں کو قتل کرڈالا۔ بی ایم کٹی اپنی آپ بیتی ”خود اختیار کردی جلاوطنی“ میں لکھتے ہیں اس دلسوز سانحے کے بعد جب قاتلوں کی تلاش شروع ہوئی تو ہزاروں مسلمان تھانے کے باہر جمع ہوگئے کہ اور نعرے لگانے لگے کہ قاتل ہم ہیں، ہم نے قتل کیا ہے۔ نتیجتاً کیس بند کردیا گیا۔

ان واقعات سے پتہ چلتا ہے کہ قبائلی علاقہ ہو یا خدا کی اپنی زمین کیرالا مسلم سماج کی ذہنیت ایک سی تھی اور پھر یہی سوچ ہمیں قیام پاکستان کے بعد وراثت میں ملی۔ زندہ قومیں اپنی وراثت کی قدر کیا کرتی ہیں اسی لئے پچھلے بہتر سالوں میں اقلیتی آبادی کا تناسب تئیس فیصد سے گھٹ کر صرف پانچ فیصد رہ گیا ہے۔ میاں آستانہ بھر چونڈی شریف و دیگر آستانے سلامت رہے تو قومی امکان ہے یہ پانچ فیصد بھی جلد مشرف با اسلام ہوجائیں گے۔

آخر رنکل کماری کے اغوا کے بعد کسی نے کیا کرلیا جو اب رینا و روینا کے بعد کریں گے۔ کیا کہا وزیر اعظم نے نوٹس لیا ہے؟ لو میاں کل ایک اور ہندو لڑکی سولہ سالہ مالا کماری بدین سے اغوا ہوئی اور خیر سے آج بھر چونڈی شریف سے قبول اسلام کی سند کے ساتھ ایک عدد مجازی خدا بھی مل گیا۔ اب کم ظرفوں نے کھلی نشانیوں کے بعد بھی شور مچایا تو کل تک اس کی بھی خاوند کے ساتھ ہنسنے کھیلنے کی ویڈیو آجائے گی۔ آخر عزت اسلام دوبارہ کفار کے حوالے تو نہیں کی جائیں گی نہ پھر چاہے وہ ان کے ماں باپ ہی کیوں نہ ہوں۔ مرتد کی سزا معلوم ہے نہ؟ ہاں اس سب کے بیچ چاک گریباں رینا روینا کے بوڑھے باپ کی آہ و بکا بے چین ضرور کرتی یے مگر ایمان کی حرارت سے دل کو تسلی دیتا ہوں کہ اس کی بیٹیاں ہوئی تو دین مبین میں داخل ہی ہیں نہ۔ مگر کیا یہ رویہ اسلامی ہے؟

رحمت العالمین نبی کریم (ص) کا دین تو نہیں ہوسکتا یہ کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے (سورہ البقرہ 256 ) دین میں جبر نہیں۔

تمام مسالک کے لئے قابل احترام امام فخر الدین رازی نے اپنی شہرہ آفاق کتاب تفسیر کبیر میں اس آیت کی تفسیر یوں بیان کی ہے کہ دنیا دارالامتحان ہے اگرجبر ہو توامتحان کامعنیٰ ہی ختم ہوجاتاہے۔ لہذا کس پر بھی دین کے معاملے میں زبردستی نہیں کی جاسکتی۔

اس کی نظیر اللہ پاک کا دوسرا ارشاد بھی ہے (جوچاہے ایمان لائے اورجوچاہے کفرکی راہ اختیارکرے ’) (الکہف 18 : 29 ) ۔

اسی آیت کی تفسیر امام ابن کثیر نے تفسیر ابن کثیر میں یوں کی ہے کسی کو جبراً اسلام میں داخل نہیں کیا جاسکتا۔ اسلام کی حقانیت واضح اور روشن ہوچکی ہے اس کے دلائل و براہین بیان ہوچکے ہیں۔ پھر کسی پر جبر اور زبردستی کیونکر کی جائے۔

کوئی اشکال اب بھی باقی ہو تو زمانہ قریب میں لکھی گئی

مولانا مودودی کی تفسیر تفہیم القرآن اٹھا کر دیکھئے۔

غیر مقلد ہیں تو

مشہور اہل حدیث عالم قاضی ثنا اللہ پانی پتی کی تفسیر مظہری پڑھ لیجیے۔

فقہ حنفی پر عمل پیرا (دیوبندی یا بریلوی ) ہیں تو

دیوبند کے مفتی اعظم مفتی شفیع کی تفسیر معارف القرآن

اور اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خان بریلوی کی تفسیر کنز الیمان میں دیکھ لیجیے۔ اس آیت کے مفہوم کا حاصل یہی ہے کہ دین برحق کے دلائل مکمل ہوگئے۔ اب اسلام کسی پر زبردستی مسلط نہیں کیا جاسکتا۔ جو چاہے ایمان لے آئے۔ مگر کیا کیجئے

خود بدلتے نہیں، قُرآں کو بدل دیتے ہیں

ہُوئے کس درجہ فقیہانِ حرم بے توفیق! (اقبال)

اس آیت مبارکہ کا شان نزول بھی انتہائی قابل غور ہے۔ قبل از اسلام جب یہودی قبائل عرب میں معزز تھے تو یثرب کی بے اولاد خواتین منتوں کے بر آنے پر اپنے لڑکوں کی پرورش یہودیوں سے کرواتی تھیں۔ ظہور اسلام کے بعد جب اہل مدینہ انصار بنے تو ان میں سے کئی خاندانوں کے بچے یہود کے ہاں پرورش پا کر جوان ہو چکے تھے۔ ۔ بنو نضیر کے معاہدہ توڑنے پر ان کے خروج کا حکم ہوا۔ تو کچھ انصاری صحابہ (رض) کا دل تڑپا کہ ان کے لخت جگر بنو نضیر کے ہاں پرورش پاکر یہودی بن چکے تھے اور ان کی خواہش تھی کہ اپنے بچوں کو یہود سے واپس لے کر مسلمان کرلیں۔

نبی کریم (ص) سے اجازت چاہی تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت مبارکہ نازل فرمائی دین کے معاملے میں زبردستی نہیں۔ ایسے وقت میں بھی نہیں جب اسلام کو ایک ایک توانا جوان کی ضرورت تھی۔ ایسے وقت میں بھی نہیں جب ریاست مدینہ خطرے میں تھی۔ ایک جانب غزوہ احد کے بعد کفار مک کے لاؤ لشکر پھر سے یلغار کرنے کے لئے تیار تھے تو دوسری جانب مدینہ میں منافقین کی موجودگی اور یہودی قبائل کی کی سازشیں عروج پر تھیں۔ اور ایسی صورت میں بھی نہیں جب کسی غیر کو نہیں اپنی اولاد کو اسلام میں داخل کرنا ہو۔ اور ایسا کرنے والے خود والدین ہی کیوں نہ ہوں۔

یہ ہے قرآن پاک کا معیار اور اصل ریاست مدینہ کا طرز حیات۔ مگر ہمیں کیا غرض ہم نے تو ریاست مدینہ ثانی میں میاں مٹھو کی بات ماننی یے، مظلوم غیر حربی اقلیتوں کی دوشیزاوں کو نہ صرف اغوا کرنا ہے بلکہ مسلم بنا کے اپنے حرم میں بھی لینا ہے۔ پاکستان میں بیس کروڑر مسلمان ہیں تو کیا۔ ابھی بھی دو فیصد تو کم ہیں نہ۔

مشرقی ذہنیت کو شاعر مشرق سے بہتر کون سمجھ سکتا تھا کسی ایسے ہی المیہ کے بعد انہوں نے کہا تھا کہ جانتا ہوں میں یہ امت حامل قرآں نہیں۔ اب ہم بھلا علامہ اقبال کو غلط ثابت کرنے کی گستاخی کیسے کرسکتے ہیں۔

حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔

”حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مشرق کی جانب سے کچھ لوگ نکلیں گے کہ وہ قرآن پاک پڑھیں گے مگر وہ ان کے گلوں سے نیچے نہیں اترے گا۔ وہ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے پار نکل جاتا ہے اور پھر وہ دین میں واپس نہیں آئیں گے“ (بخاری) ۔

تبلیغ کرنی ہے ضرور کیجئے مگر ساتھ اس حدیث مبارکہ کی روشنی میں خود پر بھی غور کرتے رہیے۔ اپنے گریبان میں بھی جھانکئے۔ غلبہ اسلام کی جدوجہد کا بھی حق ہے آپ کو مگر اس میں سے روح اسلام نہ نکالئے ورنہ غلبہ تو شاید پالیں مگر اس اسلام نہیں ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).