کیا فیصل کے جرم پر اس کی بہن کو ناچنے کی سزا ملے گی؟


لڑکی لاہور شہر کی تھی شاید اس ہی لیے اتنی ہمت کرگئی کہ شوہر کے ہاتھوں بدترین تشدد کے بعد پہلے گھر سے بھاگی پھر پولیس اسٹیشن پہنچی۔ پولیس والوں نے مقدمہ درج کرنے کے لیے رشوت طلب کی تو بھی نہ رکی۔ وہ اس مقام پر بھی ٹوٹ سکتی، شکست تسلیم کرسکتی تھی اور رو دھو کر واپس اس ہی مکان میں جا سکتی تھی۔ جہاں اس کو نہ صرف اپنے خاوند کے دوستوں کے سامنے رقص کرنا پڑتا بلکہ ان کی طرح طرح کی خواہشات بھی پوری کرنا پڑتیں۔ وہی گھر جہاں پچھلی رات ناچنے سے انکار پر اس کے شوہر نے نہ صرف دوستوں اور ملازموں کے سامنے برہنہ کرکے اس پر تشدد کیا بلکہ اس کے بال بھی کاٹ دیے۔ یہ وہی شوہر ہے جس سے اس نے پسند کی شادی کی تھی۔

اسما نے پہلے شوہر اور پھر پولیس کے سامنے ہار ماننے سے انکار کردیا اور یوں ویڈیو کی صورت میں مدد کی اپیل فیسبک پر اپلوڈ کردی۔ جس کو دیکھنے کے بعد مزید شواہد کی کنجائش نہیں تھی۔ ویڈیو دیکھتے ہی دیکھتے وائرل ہوگئی اور یوں نیوز چینلز نے بھی اسے نشر کردیا۔ جس کے بعد ارباب اختیار نے نوٹس لے لیا اور طرح طرح کے بیانات آنے لگے۔ کچھ ہی دیر میں اسما کا شوہر فیصل گرفتار ہوگیا۔ اس گرفتاری کی خبر دیکھی تو ایک دوست میرے ساتھ ہی موجود تھا اور بے انتہا جذباتی انداز میں بولا۔ اب اس فیصل کی بہن کو بھی نچوانا چاہیے۔

اس نے یہ مطالبہ کیا اور آگے بڑھ گیا میں مگر وہیں اس ہی خیال میں پھنس گیا۔ یہ آخر ایک مرد کے کیے گئے گناہ کی سزا اس کی بہین کو کیوں دینا چاہتا تھا؟

اس کے خیال میں جس نے کسی خاتون پر تشدد کیا ہے سزا کے طور پر اس مرد کی کسی خاتون رشتے دار کے ساتھ وہی فعل دہرایا جائے تو یہ سزا اس مرد کے لیے ہوگی۔ یہ مطالبہ صرف میرے ایک دوست ہی کا نہیں تھا بلکہ خاتون کو سزا دینے کے اس نظریے سے ہمارا ملک بھرا پڑا ہے۔ سندھ پو یا پنجاب بلوچستان ہو یا خیبر پختونخوا۔ ذرا سی تحقیق کرکے دیکھ لیں۔ لڑکا محبوبہ کو لے کر بھاگ جائے گا اور جرگہ اس لڑکے کی سزا اس کی بہن کے نام سنا دے گا۔ لڑکا کسی خاتون کو چھیڑ دے تو پنچایت اس لڑکے کی بہن کے نام سزا سنا دی گی۔

آئے روز اس طرح کی خبریں دیکھنے کو ملتی ہیں اور پھر ماضی کا حصہ بن جاتی ہیں۔ حکومت اور این جی اوز کو اس سے نظریے کے خلاف تیزی سے کام کرنا ہوگا۔ آگہی عام کرنا ہوگی اور قوانین بناکر اس پر عملدرآمد بھی کرنا ہوگا۔

اسما پر تشدد کی ویڈیو سامنے آنے پر وزیراعلیٰ پنجاب اور وزیرمملکت برائے داخلہ نے نوٹس لے لیا اور اپنا فرض پورا کردیا۔ سوال تو یہ ہے کہ نوٹس لینے کی نوبت ہی کیوں آئی؟ پولیس اصلاحات کا راگ الاپتی حکومت مقدمہ درج نہ کرنے والے افسران کے خلاف کارروائی کیوں نہ کر پائی؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).