میرا قاتل میرا دلدار


کہنے والے کہہ رہے ہیں کہ پسند کی شادی کا یہی انجام ہوتا ہے، اور یہ بھی سننے کو ملا صرف مارا ہی تو ہے، عورت کے حسن میں اس کے گیسو یعنی بال ہی اس کی شخصیت کو مزید پر اثر بناتے ہیں، ارے جائیں عورت ہی کیا کسی سرمنڈے مرد کو دیکھ کر سوال ضرور ہوتا ہے کہ ہائے اچھا بھلا ہے بیچارے کے بال نہیں افسوس تو ہوتا ہوگا ایسے اس جیسے کئی اور جملے اور باتیں ہیں جو لکھی جا سکتی ہیں۔

کئی  پسند کی شادی کرتے ہیں، عورت کے معصوم دل کو اپنی لچھے دار باتوں میں پھانستے ہیں اور جب اس سے مطلب پورا ہوجائے تو اس کا ایسا ہی حشر کرتے ہیں جو لاہور ڈیفینس کی رہاشی اسماء کے ساتھ آج ہوا، دل تو چاہ رہا ہے کہ اس آدمی کے ساتھ بھی وہی کچھ کیا جائے جو اس نے ایک عورت کے ساتھ کیا۔ عورت کو اپنی جاگیر سمجھ رکھا ہے، شرم اور حیا کو بیچ کھایا ہے۔ میں غصے میں ہوں لیکن اس سے زیادہ فکرمند ہوں، عورتوں کو اس ظلم کا نشانہ بنانے والے ایک عورت مہوش حیات کے ایوارڈ پر اپنے پیٹ کا ددر کا اظہار کہیں نہ کہیں کررہے ہیں، کب تک بھائی کب تک؟

کیا مسئلہ ہے عورت سے، یہی تو پیدا کرتی ہے۔ اتنا خود پر کیوں نازاں ہو۔ آج ہی ایک لڑکی نے کہا کہ میں اسی ڈر سے شادی نہیں کرنا چاہتی کہیں یہی سب میرے ساتھ نا ہو، میں اس کو دلاسا تو دے رہے تھی۔ لیکن مجھے پتا تھا کہ میرے لفظ کمزور ہیں اور مرد طاقتور، کہا کی طاقت کس کی طاقت۔ شہروں سے لے کر دیہات اور دیہات سے لے کر شہر ہر جگہ یہی پٹ رہی ہے میرے گھر کام میرے ہاتھ بٹانے والی رضیہ بھی جب کبھی تین روز کے بعد آتی ہے تویہی کہتی ہے باجی میرے مرد نے مارا تھا نہیں آسکی۔ پٹتی بھی ہے اور کماتی بھی۔ بے شرموں کا پیٹ بھی بھرو اور بقول اسماء کے ناچو بھی کیونکہ اس کے شوہر نے اس کو یہی عمل کرنے کا کہا۔

ہر جگہ یہی نشانے پر ہے عورت کے کے لئے آواز اٹھاؤ تو سننے کو ملتا ہے بھائی بچ کے رہنا عورتوں کی علمبردار ہیں۔ جب مارتے ہو گالیاں دیتے ہو تو اس وقت ڈرا کرو، کیوں کہ کمزور شاید بدلہ نا لے سکے لیکن اس کا صبر عرش ہلا دیتا ہے۔ وہ تو بھلا ہو اس موبائل فون اور سوشل میڈیا کا جس کی مدد سے اس عورت کی آواز متعلقہ لوگوں تو پہنچ گئی ورنہ، کون اسماء کون سا ظلم، یہ تو سب روز ہی ہوتا ہے۔

کس طرح اس عورت کی روح کو ماراہے اس ظالم نے خدا غارت کرے۔ اپنی بیوی پر ایسا ظلم، یہ میری مرضی سے ہنسے میری مرض کے کپڑے پہنے اور جو میں کہو۔ ایک روبوٹ کی طرح بس وہی کرے خدا کا واسط ہے عورت کو انسان مان لو مت کرو ایسا ظلم۔ یہ وحشت اور نہیں سہی جارہی اتنا مت ڈراؤ کے خوف سے خوف ہی نہ رہے۔ مہوش حیات کا تمغہ ہضم نہیں ہو رہا اسماء پر ظلم ہونا ہمارا کلچر ہے۔ واہ رے واہ حضرات آپ کی کی کون سی کل سیدھی، مجھے نہیں اندازہ کے میرے لفظ بامعنی ہیں بھی یا نہیں۔ لیکن مجھے یہ ضرور پتہ پے کہ اسماء جیسی اور کئی آوازیں ہیں جو کہیں نہ کہیں سسک رہی ہیں اور ان کی سسکیاں آہیں بن رہی ہیں اور ورک پلیس ہراسمنٹ بل سے لے کر گھریلو تششد د کے قوانین شاید مجھے اتنی تقویت تو دیتے ہیں کہ میں اپنے حق کہ لئے آواز اٹھاؤں لیکن اس کے بعد کیا ہوگا اس کی ضمانت نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).