سندھ میں اقتدار سے باہر ذاتی ووٹ بینک بچانے کے خواہاں سیاستدان!


 یوں تو پاکستان بھر میں عوام کی اکثریت کو ووٹ کاسٹ کرنے سے قبل یہ سوال ضرور متاثر کرتا ہے کہ ہمارا منتخب امیدوار/ پسندیدہ پارٹی آئندہ اقتداری سیٹ اپ میں پہنچنے کے کتنے امکانات رکھتے ہیں مگر یہ سوال سندھ میں اپنی شدت کئی گنا بڑھا لیتا ہے۔ کیونکہ سندھ میں عام آدمی کی زندگی کے مسائل اور اقتداری سیاست کے اثرات آپس میں اتنے جڑے ہوئے ہیں کہ ایک عام ووٹر کے لیے اصولی بنیادوں پر ضمیر کا فیصلہ کرنا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔ خاص طور پر چھوٹے شہروں اور دور افتادہ بستیوں کے آس پاس نعروں اور جھنڈوں سے بھرپور گہما گہمی میں، سیاسی با اثر افراد اور ان کے مخبروں سے ووٹ کو خفیہ رکھنا نہایت ہی مشکل چیلنج ہے۔

وڈیرے اور دیگر با اثر افراد اقتداری حصول کے بعد سیاسی مخالفین کو انتقام کا نشانہ بناتے رہتے ہیں۔ شکست خوردہ اور حزب اختلاف کا حصہ بننے والوں کے حمایتی ووٹرز کے محلے اور بستیاں ترقیاتی کاموں سے محروم رہتے ہیں۔ سرکاری دفاتر سے منسلک ان کے چھوٹے موٹے مسائل حل ہونے کا نام نہیں لیتے۔ مزید برآں انہیں پولیس اور دیگر اثر انگیز محکموں سے وابستہ اپنے کارندوں کے ذریعے تنگ کیا جاتا ہے۔ لوگوں کے خود اپنے یا چھوٹے موٹے وڈیروں کی سازش کے ذریعے پیدا کردہ مسائل ہوتے ہیں مگر اپوزیشن میں رہتے ہوئے ان کی شدت بہت بڑھ جاتی ہے۔ ایسے حالات میں ایک عام آدمی، پانچ سال تک اپنے معمولات داؤ پر لگانے کی رسک کیسے لے سکتا ہے؟ چنانچہ کسی بھی سیاستدان کے لیے حزب اختلاف میں رہتے ہوئے اپنا ووٹ بینک بچانا بیحد مشکل چیلنج ہے۔

سندھ میں یوں تو بہت سے سیاسی خاندان ہیں، جو پارٹی وابستگی کے بغیر اپنا سیاسی اثر و رسوخ رکھتے ہیں مگر ان میں سے اکثر کو جماعتی، سرداری اور برادری وغیرہ کا سہارا بھی حاصل ہوتا ہے۔ تاہم ارباب، شیرازی اور مہر خاندان اپنے سیاسی طرز عمل کے بنیاد پر بھی اپنا نجی ووٹ بینک رکھتے ہیں۔ اسی حقیقت کو مد نظر رکھتے ہوئے، آصف زرداری نے گذشتہ الیکشن میں ایسے سیاسی خاندانوں کو اپنے ساتھ ملانے کی بھرپور کوشش کی تھی اور اس میں کسی حد تک کامیاب بھی ہوئے تھے۔ مگر ذوالفقار مرزا اور ارباب غلام رحیم اپنے سخت گیر اینٹی پیپلز پارٹی موقف کے باعث سیاسی مصلحتوں سے دور ہی رہے تھے۔

 آصف زرداری کی تجربہ کار سیاسی نظروں نے سندھ میں ایسی سیاسی شخصیات کو بھی تاڑا تھا جن کے پاس اپنا ذاتی ووٹ بینک موجود تھا۔ ایسی ہی کوششوں سے اسماعیل راہو سے ارباب لطف الاہ تک ذاتی ووٹ بینک رکھنے والے متعدد سیاستدان پیپلز پارٹی میں شامل ہوئے۔ ایسے سیاستدان جنہونے حزب اختلاف کے کٹھن دنوں میں، عوامی رابطہ کاری اور شخصی کشش کے بل بوتے پر اپنا ذاتی ووٹ بینک برقرار رکھا تھا۔ ان میں سے سب سے خطرناک جھٹکا جو پیپلز پارٹی مخالف اتحاد (جی ڈی اے ) کو لگا وہ ارباب لطف اللہ کے روپ میں تھا۔

جس نے نہ فقط تھرپارکر بلکہ بدین، میرپورخاص اور عمرکوٹ اضلاع میں اپنے ذاتی اثر و رسوخ سے پیپلز پارٹی کو فائدہ پہنچایا۔ اتنا بڑا سیاسی فائدہ پہنچانے والوں کو پیپلز پارٹی نے کیا فائدہ پہنچایا، اس کا تو کوئی پتہ نہیں مگر طویل عرصے تک بدترین حزب اختلاف برداشت کرنے والے ان کے حمایتی ووٹرز کو سندھ حکومت کے انتقام سے تھوڑی سی نجات ضرور مل گئی ہے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).