پچیس سو اساتذہ کا معاشی قتل اور طاقتور ادارے!


میرے ایک دوست کے بڑے بھائی سویڈش ایمبسی میں ملازمت کررہے ہیں۔ ملازمت کے دوران میں انہوں نے اپنے مکان کی تعمیر کا کام شروع کیا۔ تعمیراتی لاگت ان کے تخمینے سے بڑھ گئی۔ لہٰذا انہوں نے قبل از وقت ریٹائرمنٹ کے لیے اپلائی کر لیا تاکہ ریاٹئرمنٹ پر ملنے والی رقم سے مکان کی تعمیر کا کام مکمل کیا جا سکے۔ افسران بالا کو جب ریٹائرمنٹ کی اصل وجہ معلوم ہوئی توانہوں نے کمل مہربانی سے ریٹائرمنٹ کی درخواست قبول کر کے انہیں رقم دینے کے بعد ایڈہاک پر تقریباً اسی تنخواہ پر دوبارہ کام پر رکھ لیا تا کہ ان کا مکان بھی تعمیر ہو سکے، بچے بھی حصول تعلیم کا سلسلہ جاری رکھ سکیں اور ان کے گھر کا کچن بھی چلتا رہے۔

ایک ”کافر“ ملک کی ایمبسی نے اپنے ایک پاکستانی ملازم سے یہ مثالی سلوک اس لیے کیا کہ اس نے اسے بیس سال تک اپنی خدمات دی تھیں۔ مہذب، ترقی یافتہ اور خوشحال ملک اپنے لیے سرو کرنے والے لوگوں سے بلا امتیاز ایسا ہی قابل ستائش سلوک کرتے ہیں۔ سویڈن اور ان جیسے دوسرے ممالک کی ہوش ربا ترقی، امن و امان اور دیرپا خوش حالی کی بڑی وجہ ایسی ہی انسان دوست پا لیسیاں ہیں۔

اب ذرا تیسری دنیا کے ممالک میں شامل ”مملکت خداداد“ اور ”اسلام کے قلعے“ کے اداروں کی اپنے ملازمین سے روا رکھے جانے والے سلوک کی بھی ایک جھلک ملاحظہ فرمائیں۔ پروفیسر ابوذر ہمارے نہایت محنتی، تجربہ کار، ہر دل عزیز اور بے لوث استاد تھے۔ فوجی فاؤنڈیشن کالج میں پچیس سال پہلے انہوں نے گورنمنٹ کی ملازمت ترک کر کے کیرئیر جاب یہ سوچ کر شروع کی تھی کہ یہ پیشہء پیغمبری ہے۔ ان پچیس برسوں میں وہ سب سے شاندار نتائج دینے اور سب سے کم چھٹیاں کرنے والے پروفیسر تھے۔

آج ہزاروں کی تعداد میں طلبہ ان کے علم اور تربیت سے فیضیاب ہو کر اندرون اور بیرون ملک مختلف شعبوں میں اعلٰی خدمات انجام دے رہے ہیں مگ پھر ایک دن سال ہا سال تک اس ادارے کو اپنا خون جگر پیش کرنے والے ادھیڑ عمر پروفیسر جب کلاس لے کر کلاس روم سے باہر نکلا تو چڑاسی نے اس کے ہاتھ میں ”زمینی خداؤں“ کی طرف سے بغیر کوئی وجہ بتائے جبری ریٹائرمنٹ کا پروانہ تھما دیا۔ اکہتر سال کے آزادی کے سفر کے بعد بھی اگر ہمارا شمار تیسری دنیا کے پسماندہ ترین اور انسانی حقوق کی پائے مالی کے حوالے سے بد ترین ملکوں کی فہرست میں ہوتا ہے تو اس کے پس پردہ ایسی ہی انسان کش اور تعلیم و متعلم دشمن پالیسیاں کارفرما ہیں۔

فوجی فاؤنڈیشن ایشیا کی سب سے بڑی فاؤنڈیشن ہے جس کے ماتحت بے شمار منافع بخش ادارے کام کر رہے ہیں جب کہ 106 تعلیمی ادارے، ایک بڑا ہسپتال اور کئی ڈسپینسریاں ٹرسٹ کی ذیل میں بروئے کار ہیں۔ کسی بھی کارپوریشن میں ویلفئیر ٹرسٹ کے تحت چلنے والے اداروں کے اخراجات ہمیشہ منافع بخش ادارے ہی مہیا کرتے ہیں۔ اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ یہ کارپوریشنز ٹیکس کی مد میں سالانہ کروڑوں روپے بچاتی ہیں۔

فوجی فاؤنڈیشن کالج برائے طللبا و طالبات پاکستان کے دو ایسے تعلیمی ادارے ہیں جو ہر سال فیڈرل بورڈ میں سب سے شاندار نتائج اور جی پی اے دیتے آئے ہیں۔ ان سے فارغ التحصیل طلبہ آج اندرون اور بیرون ملک دفاعی، طبی، ٹیکنیکی، سائنسی اور علمی و ادبی شعبوں میں نمایاں طور پر اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ ملک کے طول و عرض میں پھیلے یک سو چار سکولز فروغ تعلیم میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ یقیناً یہ سب کامیابیاں ان اداروں میں سال ہا سال سے اپنی خدمات پیش کرنے والے محنتی اساتذہ کی مرہون منت ہیں۔

مگر بد قسمتی سے گذشتہ کچھ سال سے فوجی فاؤنڈیشن کے ان مثالی اداروں کو کسی کی نظر کھائے جارہی ہے۔ پہلے تو مالی بحران کے نام پر تمام اساتذہ اور پروفیسروں کی ترقیاں روک کر تنخواہوں میں اضافہ ختم کر لیا گیا۔ یعنی جب مہنگائی سپر سانک رفتار سے بڑھتی اور افراط زر میں اضافہ ہوتا گیا تو اساتذہ کو بہ امر مجبوری اسی پرانی تنخواہ پر کام کرنے پر مجبور کیا گیا۔ دوسرا ظلم یہ ہوا کہ راتوں رات ہمارا تیس سال کا کانٹریکٹ ختم کرکے پچیس سال کر دیا گیا جس کی وجہ سے کالجز اور سکولوں سے اچانک سیکڑوں اساتذہ اور پروفیسرز ریٹائر کردیے گئے۔

اچانک ریٹائر منٹ کا فیصلہ اساتذہ پر تو بجلی بن کر گرا ہی مگر اس کا نقصان ان اداروں میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبا کو بھی اٹھانا پڑا جو تجربہ کار اساتذہ کے اچانک چلے جانے سے اس قدر بد دل ہوئے کہ ادارے چھوڑ کے جانے لگے۔ کسی بھی ادارے میں جب کوئی نئی پالیسی بنانا مقصود ہو تو اس کا اطلاق نئے بھرتی ہونے والے ملازمین پر کیا جاتا ہے۔ پرانے ملازمیں کو اسی پرانے کانٹریک کے مطابق سروس مکمل کرنے کا موقع دیا جاتا ہے جو آغاز کار میں ان کے ساتھ کیا جاتا ہے۔

ہمارے مستحکم سرکاری اداروں میں اس بات کا خاطر خواہ خیال رکھا جاتا ہے۔ کوئی ایسی پالیسی بنانے سے پہلے یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ کہیں ایسے ملازمین تو اس ظالمانہ پالیسی کی زد میں نہیں آئیں گے جو اب عمر کے اس حصے میں ہیں کہ جہاں کوئی دوسری ایسی ملازمت ملنا محال ہے اور ان کے بچوں کی تعلیم کا سلسلہ تو نہیں رک جائے گا۔ ایسے خطرات کے پیش نظر عام طور پر ایسے سفاکانہ فیصلوں سے ہر ممکن گریز کیا جاتا ہے مگر فوجی فاؤنڈیشن کے تعلیمی اداروں کے اساتذہ اور پروفیسروں پر مختلف حیلے بہانوں سے یہ چھری تواتر سے چل رہی ہے۔

معاملات یہیں تک رہتے تو بھی سویلین ملازمین اور اساتذہ اپنے نصیبوں کو رو کر تنگی ترشی سے گزر اوقات کر ہی لیتے مگر فوجی فاؤنڈیشن ہیڈ آفس نے زہر میں بجھا ہوا ایک ایسا تیر ِستم مارا کہ جس کی مثال ہماری پوری تاریخ میں نہیں ملتی۔ چند ماہ قبل مالی بحران کے نام پر ڈاکٹرز، پیرا میڈیکل سٹاف اور اساتذہ کی تنخواہوں کو چالیس سے پینتالیس فیصد تک کم کر کے ظلم و جور کی انتہا کردی گئی اور اب فوجی فاؤنڈیشن کالج برائے طلبا و طالبات کے مرد و خواتین پروفیسرز اس سفاک اور بے رحم فیصلے کی زد میں آنے والے ہیں۔

ستم بالائے ستم یہ کہ ظلم و ستم کا ہنر وہ لوگ آزما رہے ہیں جو اپنی کیرئیر جاب انجوائے کرنے کے بعد بونس جاب سے لطف اٹھا رہے ہیں اور صرف تین سال کی مدت ملازمت کے دوران میں ہوش ربا پیکجز اور مراعات سمیٹ کر ہم جیسے اساتذہ کے روزگار پر لات مار دیتے ہیں۔ یہ چھری ان اساتذہ کے گلے پر چلائی جارہی ہے جنہوں نے کئی سال قبل یہ سروس گورنمنٹ جاب پر ترجیح دے کر کیرئیر جاب کے طور پر شروع کی تھی۔

اب ذرا اس مسئلے کا سب سے تاریک، زہرناک اور مذموم پہلو ملاحظہ فرمائیے کہ جب نواز شریف اور ان کی حکومت کے خلاف آنے والے دھڑا دھڑ عدالتی فیصلوں سے جب عدلیہ کی آزادی اور خود مختاری کا تاثر مضبوط ترہو گیا تو ہم نے بھی ہائی کورٹ سمیت ملک کی بہت سی عدالتوں کے دروازے اس خوش فہمی پر کھٹکھٹانے شروع کر دیے کہ اب ملک واقعی بدل چکا ہے اور طاقتوروں کو سزائیں ملنے کے مستحسن کارخیر کا آغاز ہو چکا ہے۔ راولپنڈی ہائی کورٹ میں کیس کی شروع شروع کی سماعتوں کے دوران میں تو فریق ثانی اور اس کے وکلا کی گھگھی بندھی تھی اور ہمیں پورا یقین تھا کہ ایک آدھ مزید پیشیوں کے بعد ہمارے حق میں فیصلہ آ جائے گا۔

مگر نہ جانے ہیڈ آفس والوں کے پاس جادو کی کون سی ”چھڑی“ تھی کہ دو ماہ کے بعد فاضل جج صاحب نے محض ایک لفظ ڈس مس کہہ کر ہمارے معاشی قتل کے محضرنامے پر دستخط کردیے۔ کیس خارج ہونے کا قلق اپنی جگہ مگر اصل دکھ یہ تھا کہ معزز عدالت نے فریق ثانی کی یہ دلیل مان لی تھی کہ ان تعلیمی اداروں میں ہیڈ آفس اوراساتذہ کا تعلق مالک اور نوکر، آقا اور غلام اور دکاندار اور ملازم کا ہے۔ دکاندار اور مالک جب چاہیں اپنے نوکروں اور غلاموں کو کھڑے کھڑے فارغ کر سکتے ہیں۔

ہمیں تو خیر پہلے بھی استاد کے معمار قوم، روشنی کا استعارہ، مینارہء نور، مسیحائے بے بدل اور میر کارواں ہونے کی قطعی کوئی خوش فہمی نہیں تھی، جن کو یہ خوش گمانی تھی ان کے ارمان بھی آج مٹی میں مل گئے تھے۔ اس کیس کا حشر نشر بننے پر اکثر سوچتا ہوں کہ ہمارا ادارے فوجی فاؤنڈیشن کالجز و سکولز کے بجائے شریف فاؤنڈیشن کالجز و سکولز ہوتے تو بابا رحمت نہایت پھرتی اور چابک دستی سے ہیڈ آفس کے خلاف از خود نوٹس لے کر اسے تگنی کا ناچ نچاتا۔

رہے نئے پاکستان کے معمار تو وہ بڑے بڑے ایشوز میں ایسے الجھے تھے کہ ان کے پاس استاد کی فریاد پر کان دھرنے کا وقت ہی نہیں تھا۔ نئے وزیر اعظم نے آتے ہی چند کاسمیٹکس چینجز کے طور استاد کو عزت دینے کے لیے ناکوں، چوکیوں چوراہوں پر کھڑے باوردی سرکاری ملازمین کو حکم دیا تھا کہ وہ استاد کی گاڑی کو دیکھتے ہی اسے سلامی دیں۔ آزاد عدلیہ کی روداد تو آپ سن چکے اب ذرا آزاد، بے باک اور کبھی نہ جھکنے اور بکنے والے میڈیا کا مختصر احوال بھی سن لیجیے۔

ہم نے ہیڈ آفس کے رویے سے تنگ آکر پچھلے سال ستمبر میں فوجی فاؤنڈیشن ہیڈ آفس کے سامنے احتجاجی مظاہرے کیے تھے۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کو بھی اپنا مسئلہ بتا کر اپنے حق میں آواز اٹھانے کی دعوت دی تھی۔ تیسرے درجہ کے اخبارات نے تو مختصر خبریں لگائی تھیں مگر الیکٹرانک میڈیا والوں کی بلند پروازی یہاں آکر رک گئی تھی کیونکہ اس میں کچھ پردہ نشینوں کے نام آرہے تھے۔ آخر کار ہم نے بے شمار رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے بلند بانگ و بلند آہنگ اور ہر دل عزیز سپہ سالار کو بھی عرضی ڈالنے کی کوشش کی تھی مگر معلوم ہوا کہ یہاں تو بیمار ی کا سبب بننے والے عطار کے لونڈے سے دوا لینے والی مضحکہ صورت حال درپیش ہے۔ سو مجبور ہو کر ”ہم سب“ کے صفحات کا سہارا لیا جارہا ہے۔ بلا شبہ ”ہم سب“ کے قارئین کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ ان لاکھوں میں شاید کوئی ایک تو ایسا درد دل رکھنے والا استاد دوست مل جائے جو حکومت، عدل اور عسکری اداروں کے فیصلہ سازوں تک ہماری فریاد پہنچا سکے اور پچیس سو معماران قوم معاشی قتل سے بچ جائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).