آصف زرداری کی عدالت میں پیشی کا احوال


معمول کے مطابق صبح ہائی کورٹ جانے کا قصد کیا میری اقامت چونکہ راولپنڈی ہے اس لیے ہائی کورٹ اور احتساب کورٹ جاتے ہوئے اسلام آباد اور راولپنڈی کے سنگم پر واقع میاں نواز شریف پارک کے ساتھ ڈبل روڈ والا روٹ استعمال کرتے ہوئے کشمیر ہائی وے سے ہوتا ہوا جی ایٹ کے سنگنل سے اندر کی جانب جاتے ہوئے بائیں طرف سروس روڈ جسے بیلا روڈ کہا جاتا ہے استعمال کرتا ہوں۔ جی ایٹ کے اشارے سے بائیں جانب مڑا تو گاڑیوں کی طویل قطار لگی ہوئی تھی گاڑیاں چیونٹی کی رفتار سے چل رہی تھیں۔

ہائی کورٹ کی طرف مڑنے والی روڈ سے ایک کلومیٹر پہلے پولیس کا ناکہ لگا ہوا تھا۔ پولیس اور رینجرز کی بھاری نفری تعینات تھی۔ گاڑی سے اتر کر سب انسپکٹر کے پاس گیا اور اسے بتایا کہ میرا تعلق چونکہ قلم قبیلے سے ہے اور ہائی کورٹ کو کور کرنا میری صحافتی ذمہ داریوں میں شامل ہے اس لیے آپ مجھے راستہ دیں تاکہ میں منزل پر پہنچ سکوں۔

کہا گیا کہ آپ یہاں سے واپس جائیں اور جی نائن سے ہوتے ہوئے واپس ہائی کورٹ جاہیں میرا پارہ ہائی ہو گیا اور دل نے کیا کہ سب انسپکٹر کے گریبان سے پکڑوں اور اس سے پوچھوں کہ کیا میں دہشتگرد ہوں جو مجھے آگے نہیں جانے دیتا۔ یہ سوچتے ہوئے واپس مڑا طویل سفر طے کرنے کے بعد ہائی کورٹ پہنچا۔ دیکھا ہائی کورٹ کے سامنے بازار بند تھا ہو کا عالم پولیس و رینجرز کی بھاری نفری تین چار قلعے لگا کے کھڑی ہے۔

ایک جگہ تعارف کروانے کے بعد دوسری پھر تیسری جگہ تعارف کروایا جب ہائی کورٹ کے داخلی دروازے پر پہنچا تو ڈیوٹی پر مامور سیکورٹی اہلکار نے یہ کہہ کر اندر جانے اے روک دیا کہ داخلہ بند ہو گیا۔ تھوڑی دور دیکھا کہ ڈپٹی کمشنر اسلام آباد حمزہ شفقات اور ایس ایس پی اسلام آباد کھڑے ہیں ان سے جا کر ملا انھیں اپنی کتھا سنائی ڈپٹی کمشنر نے کہا کہ ہماری مجبوری ہے ہم وہی کرتے ہیں جو ہمیں ہدایات ملتی ہیں۔ بہرحال انھوں نے اے سی اسلام آباد کی ڈیوٹی لگائی اور انھوں داخلی دروازے پر تعنیات سیکیورٹی اہلکار سے کہا تب جا کر مجھے احاطہ عدالت میں جانے کی اجازت ملی۔

سوچ رہا تھا کہ ملک میں وہی شخص حکمران ہے جس نے ایک سو چھبیس دن پارلیمنٹ کے باہر دھرنا دے رکھا جو روز کنٹینر پر گلا پھاڑ پھاڑ کے تقریر کرتا کہ حکومت اظہار رائے آزادی کا گلا گھونٹ رہی ہے۔ ہم پر پابندیاں لگائی جا رہی ہیں۔ کپتان صاحب آپ تو پورے چار ماہ طمطراق سے ڈی چوک جلوہ افروز رہے ناچ گانا ہوتا رہا مگر جو کچھ آج میں نے دیکھا ایسا تو آمریت کے دور میں ہوتا ہے۔ آمر بندوق کی نوک پر اظہار کو کچلتا ہے۔ وہ ایسا اس لیے کرتا ہے کہ عوام کی طاقت اُس کے ساتھ نہیں ہوتی آپ تو کہتے ہیں کہ میرے ساتھ عوامی قوت ہے پھر اتنا خوف کہ سڑکیں اور بازار بند کروا دیے عوامی تائید سے آنے والی حکومتیں اظہار کی آزادی دیتی ہیں نہ کہ کچلتی ہیں۔

کمرہ عدالت میں آصف زرداری ان کی ہمشیرہ فریال تالپور سمیت جیالوں کی بڑی تعداد موجود تھی۔ کیس کی سماعت جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل بینچ کر رہا تھا زرداری کے وکلاء فاروق ایچ نائیک اور لطیف کھوسہ نے دلائل دیے عدالت نے دس دس لاکھ مچلکوں کے عوض زرادری اور فریال تالپور کی دس اپریل تک عبوری ضمانت دے دی۔ آصف زرداری کمرہ عدالت سے باہر نکلے تو جیالوں نے احاطہ عدالت میں ہی جئے بھٹو کے نعرے لگانا شروع کر دیے۔ سیکیورٹی اہلکاروں نے جیالوں کو احاطہ عدالت میں نعرہ بازی سے روک دیا۔

بشارت راجہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بشارت راجہ

بشارت راجہ شہر اقتدار سے پچھلی ایک دہائی سے مختلف اداروں کے ساتھ بطور رپورٹر عدلیہ اور پارلیمنٹ کور کر رہے ہیں۔ یوں تو بشارت راجہ ایم فل سکالر ہیں مگر ان کا ماننا ہے کہ علم وسعت مطالعہ سے آتا ہے۔ صاحب مطالعہ کی تحریر تیغ آبدار کے جوہر دکھاتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ وسعت مطالعہ کے بغیر نہ لکھنے میں نکھار آتا ہے اور نہ بولنے میں سنوار اس لیے کتابیں پڑھنے کا جنون ہے۔

bisharat-siddiqui has 157 posts and counting.See all posts by bisharat-siddiqui