سوشل میڈیا کا مثبت اور منفی استعمال


اسے آپ فیس بک کہیں کہ سوشل میڈیا، اس کو استعمال کرنے کے ہولناک نتائج برآمد ہورہے ہیں۔ گزشتہ دنوں کرائسٹ چرچ میں حملہ آور نے گولیاں چلاتے ہوئے سوشل میڈیا آن رکھا، پوری دنیا کے وہ لوگ جو سوشل میڈیا ہی کو زندگی، شوق اور مصروفیت سمجھتے ہیں، وہ سب لوگ حیران اور خوفزدہ ہونے کے باوجود، دنیا بھر میں اس دہشت گردی اور دو مساجد پر حملہ آور کو قابو کرنے کے لئے ایک حرف بھی نہ لکھ سکے۔

وہ پچاس نمازیوں کو گولی کھا کر گرتے اور پچاس زخمیوں کو خون میں لت پت دیکھتے رہے۔ جب خود نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم نے شور مچایا تو پھر ساری دنیا فوراً بول اٹھی کہ یہ سفید فام قوم پرستی کا سفاکانہ مظاہرہ ہے۔

دوسری طرف لوگ بولنے لگے کہ اسلاموفوبیا نے خلیج کے ملکوں کے باسیوں کو بے گھر، بے در اور یتیم بنا کر مغربی ملکوں کی جانب دھکیلنا شروع کیا ہوا ہے۔ پھر امریکی صدر کی آواز میں مرنے والوں کے لئے کوئی ہمدردی کا لفظ نہیں تھا، وہ پھر مسلمانوں میں ہلاکو خان اور چنگیز خاں تلاش کر کے، ان پر ہی لعنت بھیج رہے تھے۔

ادھر سوشل میڈیا کو استعمال کرتے ہوئے، سکھ، ہندو اور عیسائی بلاخوف و خطر لوگوں کو باہر نکل کر قبریں کھودنے کے لئے آوازیں دے رہے تھے۔ بوڑھی خواتین نے سوشل میڈیا پہ لکھا، جتنے لوگ بھی حلال کھانوں کے ڈبے بنا سکیں تو بنا کر، غم زدہ خاندانوں میں تقسیم کریں۔ کچھ لوگوں نے سوشل میڈیا پر یہ اپیل کی کہ مرنے والوں کو دفن کرنے کے انتظام کے لئے پیسے اکٹھے کئے جائیں۔ چند گھنٹوں میں پیسے اکٹھے ہو گئے۔

اس کے بعد جس نوجوان نے سفید فام سینیٹر کو زہر اگلتے دیکھ کر اس کے سر پر انڈا مار دیا تھا، اس کی مدد کے لئے اپیل سوشل میڈیا پر آئی تو ہزاروں ڈالر اکٹھے ہو گئے۔ شرمسار ٹرمپ نے بھی اپنا بیان تھوڑا سا بدلا اور پورے نیوزی لینڈ کے لوگوں نے اپنی وزیر اعظم کو غمزدہ خاندانوں سے گلے مل کر تسلی دیتے ہوئے دیکھا تو نوجوان بچوں نے مرنے والوں کو سیلوٹ کرتے ہوئے رقص پیش کیا۔

اسلام آباد میں مقیم ہماری دوست صبیحہ محمود نے کہا کہ ’’یہ لڑائی بندوقوں سے نہیں، دل و دماغ سے لڑنی ہے‘‘۔ یہ بیان اس پرعزم خاتون کا ہے جس نے اس ہولناک حادثے میں اپنا بیٹا کھو دیا۔ ویسے اس حملے میں نمازیوں کا تعلق پاکستان کے علاوہ، بنگلہ دیش، انڈونیشیا، افغانستان، کویت، شام، اردن، متحدہ عرب امارات اور انڈیا سے بھی تھا مگر ان کے غم میں شریک نیوزی لینڈ کی پوری قوم بمعہ بچے، ایسی مصروف ہوئی کہ لگتا تھا کہ جیسے یہ حادثہ ان کے اپنے گھر میں ہوا ہے۔

اب آئیے واپس اپنے ملک پاکستان چلتے ہیں۔ یہاں 8؍مارچ کو پاکستان کے تمام شہروں میں عورتوں کے جلوس جس میں مرد بھی شریک تھے، خوب نکالے گئے۔ ہر جلوس میں نوجوان لڑکیاں اور لڑکے بھی بڑی تعداد میں شریک ہوئے۔ سلوگن میں کئی جگہ ایسی باتیں، الفاظ اور اشارے تھے کہ جن پر ہم جیسے بوڑھے لوگوں نے پھر سوشل میڈیا پر دھاوا بول دیا۔

خیر میری نظم ’’ہم گنہگار عورتوں‘‘ کا طعنہ دیتے ہوئے نوجوان نسل نے مجھے تہذیب کی بات کرنے کو اینٹی فیمنسٹ قرار دیتے ہوئے مجھ پر بہت لعن طعن کی۔ مجھے یہ برا اس لئے نہ لگا کہ وہ مجھ سے چالیس سال چھوٹی لڑکیاں ہیں اور میں جب چالیس سال کی تھی، میں نے اس وقت رجعت پسندوں کو للکارا تھا۔

اب یہ لڑکیاں اپنے اچھے اور برے سلوگنز کو تسلیم کئے جانے کی ضد پر ہیں اور میرا نام لے کر برا بھلا کہہ رہی ہیں۔ ادھر وہ قدامت پرست جو گزشتہ چالیس سال سے میرے پیچھے لٹھ لئے سوار رہتے تھے۔ اب انہیں بھی دھمکیاں دینے کا موقع مل گیا ہے۔ غلیظ گالیاں لکھنے سے، لکھنے والوں کا ضمیر ہی واضح ہوتا ہے۔

یہ ہماری بیٹیاں، چاہے دوپٹہ سر پر منڈاسہ باندھ کر لیں یا گٹوں سے اونچے پاجامے پہنیں یا سگریٹ پئیں۔ ایسے فیشن اور طریقے ہر زمانے کی نئی نسل نے استعمال کئے۔ البتہ جو میں نے اپنی بیٹیوں کو کہا کہ یہ ہماری تہذیب نہیں ہے۔ ہمارے پاس کچھ کم مسائل ہیں۔ روز چار پانچ بچے بچیاں جسمانی زیادتیوں کا شکار ہوتے اور مار دئیے جاتے ہیں۔

ہمیں وراثت میں حصہ، ہمارے اپنے بھائی اور باپ نہیں دیتے۔ ہماری سپریم کورٹ میں کوئی بھی خاتون جج نہیں ہے اس کے علاوہ مذہبیت، قومیت، اور تنگ نظری کے مظاہرے دیواروں تک پہ لکھے نظر آتے ہیں۔ میں تو امید کر رہی تھی کہ میری یہی بچیاں، اب اتنی بہادر ہو گئی ہیں کہ اپنا قلم اٹھا سکتی ہیں تو ہم پر ہونے والے جبر کے خلاف ایک دن نہیں بلکہ مسلسل آواز اٹھائیں گی۔

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سے ملیں گی۔ امل اور زینب جیسی بچیوں کے حق میں آواز بلند کریں گی۔ ہمیں تو اپنے بنیادی تعصبات دور کرنے ہیں۔ میں نے پہلے مثالیں نیوزی لینڈ میں سوشل میڈیا کے مثبت استعمال کے بارے میں دے کر یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ ہم نے تو اپنی ہمت اور حوصلے سے جتنا مقابلہ کرسکتے تھے، کیا۔ ’’زمیں اور بھی آسماں اور بھی ہیں‘‘۔

مجھ پر دوحرف بعد میں بھیجنا، پہلے اسلامو فوبیا کو پھیلنے سے روکو۔ ہر زیادتی کا جواز فراہم نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستان جیسے ملک میں کوہستانی لڑکے لڑکیاں کیسے مار دیئے جاتے ہیں۔ ذرا غور کرو!

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).