بہاول پور میں گردے کے امراض اور صاف پانی کا بحران


 بہاولپور وکٹوریہ ہسپتال کڈنی سنٹر کے ریکارڈ کے مطابق ایک لاکھ سے بھی زیادہ گردوں کی بیماریوں کے شکار مریض جنوری 2018 سے اکتوبر 2018 تک ہسپتال داخل ہوئے ہیں جبکہ 2017 میں ان گردوں کے مریضوں کی تعداد 97000 ہزار تھی جوکہ اس بات کی نشاہدہی کررہی ہے کہ مریضوں کی تعداد کم ہونے کی بجائے بڑھ رہی ہے۔ ادھر کروڑوں روپے کی لاگت سے بہاولپور کڈنی سنٹر بنایا گیا تھا لیکن ابھی تک بہاولپورکڈنی سنڑ میں مریضوں کے علاج معالج کی مناسب سہولتوں کے علاوہ کڈنی ٹرانسپلانٹ کی سہولت تک میسر نہیں ہے، یوں ایک طرف بہاولپوری عوام کے لئے صاف پانی نہیں ہے تو دوسری طرف علاج معالج کی سہولت کے لئے بنایا گیا کڈنی سنٹر بھی ان سہولتوں سے محروم ہے جوکہ کڈنی کے مریضوں کے علاج معالج کے لئے ہونا ضروری ہیں۔

بہاولپور میں گردوں کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ پر ہیلتھ ایکسپرٹس کا اس بھیانک صورتحال پر کہناہے کہ بہاولپور میں زیر زمین پانی میں سنکھیا اور دیگر زیرہلے مادوں کی موجودگی گردوں کی بیماریوں کی بڑی وجہ ہے۔ اوپر سے پانی کی مختلف کمپینوں کی طرف سے مارکیٹ میں بوتلوں میں غیر معیاری پانی کی فراہمی بھی شہریوں میں گردوں کی بیماری کی بڑھوتی کی وجہ قراردی جارہی ہے۔ بہاول وکٹوریہ ہسپتال بہاولپور کے یورلوجی شعبہ کے سربراہ ڈاکٹر شفققت علی تبسم نے اس رپورٹ کے بارے میں ایک انٹرویو میں کہاہے کہ گردوں کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ کی بڑی وجہ آلودہ اور غیر معیاری پانی ہے۔

اس بات کی اطلاعات بھی ہیں کہ بہاولپورمیں پانی کا سو فٹ تک نیچے چلا گیاہے اور ادھر سنکھیا کی مقدار پانی میں بڑھ گئی ہے۔ اس صورتحال میں خطرہ موجود ہے کہ بہاولپور کے شہریوں کوصاف پانی کی فراہمی کے لئے ابھی بھی اقدامات نہ اٹھائے گئے تو مستقبل قریب میں گردوں کی بیماریوں کاشکار مریضوں کی تعداد میں بڑے پیمانے پر اضافہ دیکھنے کو ملے گا۔ بہاولپور کو یوں بھی عذاب میں ڈالا گیاتھاکہ اس کے دریا ستلج کو بھارت کو فروخت کردیاگیاتھا، پھربہاولپور پر دھرا ظلم یوں کیاگیاکہ بہاولپور کے پانی کے ایشو کو تخت لہور اور اسلام آباد کے حکمرانوں نے کبھی سنجیدہ نہیں لیا ہے بلکہ اس پر بات کی جائے تو وہ میٹرو اور لہور اورنج ٹرین کی کہانیاں لے کر بیٹھ جاتے ہیں لیکن بہاولپور کے بیچے گئے دریا کے بعد کی صورتحال پر کوئی پیشرفت کی طرف نہیں آتے ہیں۔

دریا ستلج کا نوحہ بہاولپور کے سنیئر سیاستدان فاروق اعظم ملک قومی اسمبلی میں اکثر اس وقت سناتے رہتے ہیں، جب اسمبلی میں موجود ہوں لیکن ان کے علاوہ ایوان میں بہاولپور کے ارکان اسمبلی کی بڑی تعداد اس پرزیادہ وقت خاموش ہی رہتی ہے۔ ان کے لئے شاید دریائے ستلج کو ریت کے دریا میں بدلنے کے بعد بہاولپور کے عوام پر ٹوٹنے والی قیامت سے کوئی سروکار نہیں ہے، ان کا ایسا رویہ بہاولپور کے عوام کو مزید مشکل صورتحال کی طرف دھکیلتاجارہاہے۔

ابھی حالیہ ہیڈ راجکاں بہاولپور کا سانحہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اقتدار کے دنوں میں سب اپنے چکر میں پڑجاتے ہیں اور چولستان کی زمینوں پر قبضہ کرنے لگتے ہیں۔ ان کے لئے انسان اور انسانی زندگی سے جڑے المیے کوئی معنی نہیں رکھتے ہیں۔ پانی اور بہاولپور میں اس کا مدت سے جاری بحران کوئی معنی نہیں رکھتاہے۔ بہاولپور میں گردوں کے مریضوں کی اتنی بڑی تعداد کے انکشاف کے بعد بہاولپور کے معروف صحافی مجید گل صاحب کی 14 جولائی 2013 میں فائل کردہ ایک نیوز یاد آگئی جوکہ صاف پانی کے منصوبہ کے متعلق تھی لیکن صحافیوں کی بھلا کون سنتاہے؟

خاص طورپر ایسی خبریں جوکہ عوام کی زندگیوں کو بچانے کے لئے ہوں، وہ تو ویسے بھی لہور چھوڑیں مقامی سیاستدانوں کے لئے بھی کوئی خاص اہمیت کی حامل نہیں ہوتی ہیں، ان کو سب اچھاکی رپورٹ اور خوشامد بھلی لگتی ہے اور ادھر ان کی کوشش ہوتی ہے کہ تیار پھل ان کی جھولی میں گرتارہے۔ بہاولپور میں پینے کے پانی میں سنکھیا، آلودگی اور دیگر زہریلے ذرات کی موجودگی پر شہریوں کی صحت پر پڑنے والے مہلک اثرات اور گردوں کے مریضوں کی تعداد میں اتنے بڑے اضافہ پر ایشین ڈوپلیمنٹ بنک نے پتہ نہیں کس نے درخواست کی کہ انہوں بہاولپور کی عوام کو صاف پانی کے منصوبہ کے لئے غالبا 2001 فنڈنگ دینے کا فیصلہ کیا۔

بہاولپور کے صاف پانی منصوبہ کے لئے ایشین ڈوپلمنٹ بنک 70 فیصد فنڈز دیے جبکہ باقی ماندہ 30 فیصد پنجاب حکومت اور ٹی ایم اے بہاولپور نے دیے۔ اس طرح صاف پانی کی فراہمی کا منصوبہ ایک ارب ایک سے زیادہ پیسے خرچ کرکے بھی مجید گل صاحب کی طرف سے 2013 تک رپورٹ فائل کرنے تک سات گزرچکے تھے لیکن ابھی تک بہاولپور کے شہریوں کو صاف پانی پینا نصیب نہیں ہوا تھا۔ ادھر متعلقہ ذمہ دار افسران اس منصوبہ کو تباہی سے دوچارکرنے کی ذمہ داری اپنے کندھوں پر لینے کی بجائے اور کہانی سنارہے تھے۔

اس وقت کے بہاولپور شہر کے ٹی ایم اے ایگزیکیٹو انجئنیر شاہد کاظمی نے گل صاحب کو بتایا تھا کہ سیکم 2006 میں مکمل ہوگئی تھی لیکن میپکو کی طرف سے ٹیوب ویلوں کو چلانے کے لئے لگائے گئے ٹرانسفارمز بڑی تعداد میں چوری کر لیے گئے تھے۔ یوں ٹیوب ویلوں کے نہ چلنے پر پانی خاک لائنوں اور بہاولپوری عوام کے نصیب میں آنا تھا۔ ادھر شاہد کاظمی نے اور کہانی بھی بہاولپوری عوام تک پہنچانے کے لئے مجید گل کو سنا دی کہ اب ان صاف پانی کے منصوبہ کے لئے بچھائی گئی پائپوں لائنوں کو کئی سال سے استعمال میں نہ لانے کی وجہ سے زنگ لگ چکا ہے اور دیگر مسائل پیدا ہوچکے ہیں۔

مطلب یہ منصوبہ کھو کھاتے لگ چکاہے۔ بہاولپور کے عوام صاف پانی نہ ملنے پر گردوں کی بیماریوں کا شکار ہوں یا موت کے منہ میں جائیں حکومت کو اس بات سے کوئی غرض نہیں ہے۔ اب یہاں سوال یہ بھی ہے کہ بہاولپور صاف پانی منصوبہ کے ٹیوب ویلوں کے لئے ٹرانسفارمرز پر ہاتھ کیوں صاف کیے گئے؟ کہیں ایسا تو نہیں تھا کہ منصوبہ میں مال پانی اتنا کھا لیا گیا تھا کہ لائنوں میں اتنی گنجائش ہی نہیں تھی کہ وہ شہریوں کو صاف پانی فراہم کرنے کا فریضہ سرانجام دے سکتیں۔

ممکن ہوتو قومی احتساب بیورو بہاولپور کے اس اہم منصوبہ کے بارے تحقیقات کروائے اوران کرداروں کو سامنے لائے جوکہ اس منصوبہ کی فنڈنگ پر ہاتھ صاف کر گئے اور بہاولپور کے لوگ صاف پانی نہ ملنے پر گردوں کی بیماریوں کا بڑے پیمانے پر شکار ہو رہے ہیں۔ بہاولپور کی کہانی توجان لی ہے لیکن تھل کے اہم ضلع مظفرگڑھ کے بارے میں بھی کہانی برداشت کرلیں تاکہ سند رہے۔ تھل کے ضلع مظفرگڑھ کی کہانی قیام پاکستان کو 71 سال گزرنے کے بعد یہ ہے کہ رکن قومی اسمبلی مہر ارشاد احمد خان کے پوچھے گئے ایک سوال کہ آٰیا حکومت کے علم میں ہے کہ مظفرگڑھ کی آبادی 45 لاکھ سے زائد ہے نہ یہاں کوئی یونیورسٹی ہے اور نہ ہی کسی تسلیم شدہ/منظورشدہ یونیورسٹی کا کیمپس موجود ہے؟

اس سوال کے جواب میں کہ وزیربرائے وفاقی تعلیم وپیشہ وارانہ تربیت شفقت محمود نے بتایا ہے کہ جی یہ امرواقعہ ہے کہ مظفرگڑھ کے 45 لاکھ سے زیادہ آبادی ہونے کے باوجود نہ وہاں یونیورسٹی ہے اور نہ ہی کسی تسلیم شدہ یونیورسٹی کا ذیلی کیمپس ہے۔ رہے نام اللہ کا۔ تھل کے ایک اور ضلع لیہ میں یونیورسٹی کے سب کیمپس کے نام پر دس سال سے جاری ڈرامہ پر پھر لکھوں گا۔ خاص طورپر ویٹنری کالج کو بند کرنے کا دھندہ جوکہ اپنے آخری مراحل میں ہے۔ آخر ایسا کیوں کیا جا رہا ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).