اپنوں کو فول مت بنائیں!


کسی بھی قوم کی جداگانہ حیثیت اور امتیازی شان اس کے عقائد و نظریات اور تہذیب و تمدن میں پوشیدہ ہے۔ جب کوئی قوم ان میں سے کسی ایک سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے تو اس کی امتیازی شان ختم ہو جاتی ہے۔ اس تناظر میں اگر ہم اپنے معاشرے پر غور کریں تو ہمارا حال یہ ہے کہ ہم میں سے اکثر کی نظریں غیروں کی تہذیب اور تمدن کی جانب بڑے مرغوبانہ انداز میں اُٹھتی ہیں۔ اس کا اجتماعی مظاہرہ بسنت ’نیو ایئر نائٹ اورویلنٹائنز ڈے وغیرہ کے مواقع پر عام طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔ افسوس کہ ہم مسلمان‘ غیر وں کی تہذیب اور تمدن پر مرے مٹے جا رہے ہیں ’حالانکہ مسلمانوں کے پاس تہذیب و تمدن کے ایسے روشن اور درخشندہ نمونے موجود ہیں جن کی مثال پیش کرنے سے دنیا قاصر ہے لیکن:

مانگتے پھرتے ہیں اغیار سے مٹی کے چراغ

اپنے خورشید پہ پھیلا دیے سائے ہم نے!

ان میں ایک تہوار ”اپریل فول“ ہے۔ اپریل کی آمد آمد ہے اور دنیا بھر میں جھوٹ کے نت نئے ریکارڈ قائم کرنے اورجھوٹ بول کر اپنے مذاق کا نشانہ بنانے اور اس مذاق میں اپنے پیاروں کو نقصان پہنچانے کی تیاریاں عروج پر ہیں۔ اگر اپریل فول کی تاریخ اور ابتدا پر نظر ڈالی جائے تو اس بارے میں مورخین کے بیانات مختلف ہیں :

( 1 ) بعض مصنفین کا کہنا ہے کہ فرانس میں سترہویں صدی سے پہلے سال کا آغاز جنوری کے بجائے اپریل سے ہوا کرتا تھا اور اس مہینے کو رومی لوگ اپنی دیوی وینس کی طرف منسوب کرکے مقدس سمجھتے تھے۔ چنانچہ یکم اپریل کو لوگ جشن منایا کرتے تھے اور اسی جشن کا ایک حصہ ہنسی مذاق بھی تھا جورفتہ رفتہ ترقی کرکے اپریل فول کی شکل اختیار کر گیا۔

( 2 ) انسائیکلوپیڈیا آف برٹانیکا کے مطابق 21 مارچ سے موسم میں تبدیلیاں آنی شروع ہوجاتی ہیں۔ ان تبدیلیوں کو بعض لوگوں نے اس طرح تعبیر کیا کہ (معاذ اللہ) قدرت ہمارے ساتھ مذاق کرکے ہمیں بے وقوف بنارہی ہے ’لہٰذا لوگوں نے بھی ان دنوں میں ایک دوسرے کوبے وقوف بنانا شرو ع کردیا۔

( 3 ) انسائیکلوپیڈیا آ ف لاروس کے مطابق یکم اپریل وہ تاریخ ہے جس میں رومیوں اور یہودیوں کی طرف سے حضرت عیسیٰ ؑ کو تمسخر اور استہزاکا نشانہ بنایا گیا۔ اناجیل میں یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ حضرت مسیح کو فیصلے کے لیے مختلف عدالتوں میں لے جایا گیا اور اس کا مقصد اُن کے ساتھ مذاق کرنا اور انہیں تکلیف پہنچانا تھا۔ چونکہ یہ واقعہ یکم اپریل کوپیش آیا تھا اس لیے اپریل فول کی رسم درحقیقت اسی شرمناک واقعے کی یاد گارہے۔

اس تہوار کے حوالے سے یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ اپریل فول کا لفظی معنی ”اپریل کا دھوکہ“ ہے۔ اس کا پس منظریہ ہے کہ آج سے تقریباً ہزار سال پہلے جب مسلمان سپین میں برسراقتدار تھے تو وہ ایک ایسی طاقت تھے جس کا توڑنا ناممکن تھا۔ اہل مغرب نے اس قوت کے خاتمے کے لیے سپین میں سگریٹ اورشراب کو مفت بھیجنا شروع کردیا۔ (محترم، ایک ہزار برس قبل یورپ میں سیگرٹ کا نام و نشان نہیں تھا۔ سیگرٹ انیسویں صدی میں فرانس کے راستے یورپ پہنچا: مدیر) اس طریقہ نے مغرب کو اچھے نتائج دیے اورسپین میں مسلمانوں بالخصوص نوجوان نسل کا عقیدہ کمزورہونے لگا اوراس طرح اہل مغرب نے دھوکے سے سارے سپین کو اپنے ماتحت کرلیا اور یکم اپریل کومسلمانوں کا آخری قلعہ غرناطہ کا سقوط ہوا۔ اہل مغرب اس ماہ کو اپریل فول یعنی اپریل کے دھوکے کے نام سے یاد کرتے ہیں اوراسی کے جشن کے طور پر ہرسال اِس دن کومناتے ہیں۔

دوسری طرف اگر اس تہوار کا اسلامی تعلیمات سے موازنہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اپریل فول کئی گناہوں اوربے بہا معاشرتی خرابیوں کا مجموعہ ہے۔ اس تہوار کی بنیاد ہی جھوٹ اور غلط بیانی پر مبنی ہے ’جبکہ شریعت اسلامی میں جھوٹ کے بارے میں سخت ممانعت اور وعیدآئی ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جھوٹ کو منافق کی نشانی قرار دیا اور اس کے بارے میں فرمایا: ”آدمی جھوٹ بولتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ دھبہ لگ جاتا ہے (وہ جھوٹ بولتا رہتا ہے ) یہاں تک کہ اس کا دل بالکل سیاہ ہو جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے ہاں وہ جھوٹوں میں لکھ دیا جاتا ہے“ (موطا امام مالک) ۔

اس حوالے سے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ مزاح کے طور پرجھوٹ بولنا جائز ہے اور اسی کو نام نہاد اور جدت پسندی کے قائل مسلمان دلیل بنا کر یکم اپریل یا دیگرایام میں تفریحاً جھوٹ بولنے کو جائز سمجھتے ہیں حتیٰ کہ وہ کسی کو خوش کرنے کو عبادت خیال کرتے ہیں چاہے خوش کرنا جھوٹ بول کر ہی کیوں نہ ہو۔ حالانکہ یہ سراسرغلط ہے۔ جھوٹ بولنا چاہے مذاق کے طورپر ہویا کسی اور وجہ سے ’ہرصورت میں حرام ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزاح کے طور پر جھوٹ بولنے والے شخص پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا: ”ہلاکت ہے ایسے شخص کے لیے جو لوگوں کو ہنسانے کے لیے جھوٹ بولے! “ (سنن ترمذی)

اس تہوار میں دوسری برائی یہ ہے کہ اس سے معاشرے میں ذہنی وجسمانی اذیت کو فروغ ملتا ہے۔ اخبارات میں اکثریہ پڑھا گیا ہے کہ اپریل فول کی وجہ سے فلاں شخص کو دل کا دورہ پڑگیا ’فلاں کی موت واقع ہو گئی اور فلاں کو فالج کا اٹیک ہو گیا۔ ان واقعات سے واضح ہوتا ہے کہ یہ تہوار خوشی کے بجائے ذہنی و جسمانی اذیت کا باعث ہے‘ جبکہ اسلام میں تو کسی انسان حتیٰ کہ جانور کو بھی اذیت دینے کی ممانعت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو مسلمان کی تعریف ہی ان الفاظ میں کی ہے : ”مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرا مسلمان محفوظ رہے“ (متفق علیہ)۔ اس کے علاوہ اس تہوار میں کفار کی مشابہت بھی پائی جاتی ہے جس سے شریعت اسلامیہ نے نہایت سختی سے منع کیا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو یہاں تک فرمایا: ”جو غیروں کی مشابہت اختیار کرے وہ ہم میں سے نہیں۔ نہ مشابہت اختیار کرو یہود کی اور نہ نصاریٰ کی۔ “ (سنن ترمذی)

اپریل فول کے بارے میں مندرجہ بالاتفصیل سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ یہ تہواربے شمار گناہوں اور معاشرتی برائیوں کا مجموعہ ہے۔ اب مسلمانوں کو خود یہ فیصلہ کرلینا چاہیے کہ آیا یہ تہواراس لائق ہے کہ اسے مسلمان معاشروں میں فروغ دیا جائے؟ اس کا جواب سچے مسلمانوں اور محب وطن پاکستانیوں کے ہاں یقینا نفی کی صورت میں ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).