خود پسند معاشرہ


خود پسندی کو تمام ترقی یافتہ ممالک میں شدید ترین ناپسند کیا جاتا ہے۔ اس نفسیاتی مسئلہ پہ بہت زیادہ تحقیق ہو چکی ہے۔ نیلسن مینڈیلا کی بڑی اصطلاحات میں سے ایک خود پسندی کا خاتمہ بھی شامل تھا۔ اسی بنیاد پہ جنوبی افریقہ سمیت تمام ترقی یافتہ ممالک میں خود پسندی پہ سخت قوانین بنائے گے ہیں تا کہ عوام الناس ایسے نفسیاتی مریضوں سے دور رہ سکے اورکسی بھی ایسے ایکشن کا بروقت تدارک ہو سکے۔ ویسے تو اس کی بنیاد ابلیس نے رکھی تھی جب اس نے خود پسندی کی بنیاد پہ آدم کو سجدہ نہیں کیا۔

(سورہ البقرہ 34۔ اور جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو تو انھوں نے سجدہ کیا، مگر ابلیس نے نہ کیا۔ اس نے انکار کیا اور گھمنڈ کیا اور منکروں میں سے ہوگیا) ہم میں سے اکثریت نا آشنا ہے کہ ابلیس نے شرک نہیں کیا ہے، مگر خود پسندی پہ دھتکارا گیا ہے۔ المتکبر رب کی صفت ہے، یہ صفت رب کو ہی جچتی ہے۔ خالق اور مخلوق میں واضح فرق کی بنیاد پر یہ خود پسندی بدترین معاشرتی گناہوں، جرموں کی ماں ہے۔ قرآن پاک میں قوموں کی تباہی میں خود پسندی، تکبر بنیادی جزو تھا۔ آقا صلعم کے آخری خطبہ حجتہ الوداع کے موقع پر چند بڑے الفاظ میں یہ بہت نمایاں تھا ’کسی عربی کو کسی عجمی پر، کسی گورے کو کسی کالے پر کوئی برتری حاصل نہیں‘ ۔

بد قسمتی سے یہ گناہ ہمارے معاشرے کا بنیادی حصہ ہے۔ ہماری محفلوں میں ہم اپنے مخلص دوستوں کی عزت نفس کی تذلیل ان کے رنگ، نسل، زبان کی بنیاد کرتے ہیں۔ ہماری نوے فیصد مزاحیہ باتیں کسی چہرے کے خطوط، رنگ، جسم، علاقائی زبان پہ ہوتی ہیں۔ اگر کوئی تھوڑا سا رد عمل دے دے، تو باقی سب مل کے کہتے ہیں ’یار مذاق پہ تم برا منا جاتے ہو‘ ۔ ایسی حرکتوں سے نہ صرف ہم بہت سے لوگوں کی عزت کا جنازہ نکالتے ہیں، بلکہ بہت سے خوبصورت رشتے کھو دیتے ہیں۔

ہم بحثیت قوم کسی کی اچھائی برداشت کرنے کی ہمت نہیں رکھتے۔ ہم خود پسندی کی نفسیاتی بیماری میں اس قدر پاگل ہو چکے ہیں، کہ زہین بندہ دیکھ کے، ہم پہ عجیب سا خوف طاری ہو جاتا ہے۔ اپنے خوف کو ختم کرنے کے لیے ہم اس کی عزت نفس سے کھلواڑ کر کے اپنے خود پسندی کے خوف کو ختم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کرکٹ ٹیم کے کپتان سرفراز سے جب مخالف کھلاڑی کا ٹیلنٹ برداشت نہیں ہوا تو محترم نے اس پہ خود پسند جملہ جڑ دیا۔ سرفراز نے پاکستان میں آکے کہہ دیا، میرے لفظ کو اپنے لوگوں نے ہوا دی۔

آپ یقین کریں جسطرح ہم اپنے پیاروں کی خود پسند الفاظ میں تذلیل کرتے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں ایک معاشرتی جرم ہے۔ جس رشتے میں عزت احترام، قربانی شامل ہوتی ہے، وہ رشتہ کبھی نہیں ٹوٹتا۔ دنیا میں تین بڑے لازوال رشتے ہمیشہ قائم رہتے ہیں، ایک رشتہ اللہ کی ذات اور باقی اللہ کے فضل والدین اور استاد ہیں۔ ان تینوں میں محبت شفقت اور بانٹنے کی فطرت ہوتی ہے۔ اگر ہم رشتوں کے تقدس کے لیے یہ تین باتیں اپنا لیں عزت، قربانی، محبت تو ہم بہت سے خوبصورت رشتے ٹوٹنے سے بچا سکتے۔ اللہ ہم سب کو ہدایت دے۔ سب سے اچھا عمل اپنی ذات سے شروع ہوتا ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).