شطرنج کے کھلاڑی – اردو کے شاہکار افسانے


نواب واجد علی شاہ کا زمانہ تھا۔ لکھنؤ عیش و عشرت کے رنگ میں ڈوبا ہوا تھا۔ چھوٹے بڑے امیر و غریب سب رنگ رلیاں منارہے تھے کہیں نشاط کی محفلیں آراستہ تھیں۔ کوئی افیون کی پینک کے مزے لیتا تھا زندگی کے ہر ایک شعبہ میں رندی ومستی کا زور تھا۔ امور سیاست میں، شعر وسخن میں، طرز معاشرت میں، صنعت وحرفت میں، تجارت وتبادلہ میں سبھی جگہ نفس پرستی کی دہائی تھی۔ اراکین سلطنت سے مے خوری کے غلام ہورہے تھے۔ شعرأ بوسہ وکنار میں مست اہل حرفہ کلابتواور چکن بنانے میں، اہل سیف تیتر بازی میں، اہل روزگار سرمہ و مسی، عطر و تیل کی خریدو فروخت کا دلدادہ غرض ساراملک نفس پروری کی بیڑیوں میں جکڑا ہواتھا۔

سب کی آنکھوں میں ساغر وجام کا نشہ چھایا ہواتھا، دنیا میں کیا ہورہا ہے۔ علم وحکمت کے کن کن ایجادوں میں مصروف ہے۔ بحروبرپر مغربی اقوام کس طرح اوی ہوتی جاتی ہیں۔ اس کی کسی کو خبرنہ تھی۔ بٹیرلڑرہے ہیں تیتروں میں پالیاں ہورہی تھیں کہیں چوسرہورہی ہے۔ پوبارہ کا شور مچا ہوا ہے کہیں شطرنج کے معرکے چھڑے ہوئے ہیں۔ فوجیں زیروزبر ہورہی ہیں۔ نواب کا حال اس سے بد تر تھا۔ ہاں گتوں اور تالوں کی ایجاد ہوتی تھی۔

خط نفس کے لیے نئے لٹکے نئے نئے نسخے سوچے جاتے تھے۔ یہاں تک کہ فقر ا خیرات کے پیسے پاتے تو روٹیاں خریدنے کی بجائے مدک اور چنڈوکے مزے لیتے تھے۔ رئیس زادے حاضری جوابی اوربدلہ سنجی کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے ارباب نشاط سے قلم بند کرتے تھے۔ فکر کو جولاں، عقل کورسا اور ذہن کو تیزکرنے کے لیے شطرنج کیمیا سمجھا جاتا تھا۔ اب بھی اس قوم کے لوگ کہیں کہیں موجود ہیں۔ جو اس دلیل کو بڑے شدومد سے پیش کرتے ہیں۔ اس لیے اگر مرزاسجّاد علی اور میر روشن اپنی زندگی کا بیشتر حصّہ عقل کو تیز کرنے میں صرف کیا کرتے تھے۔

تو کسی ذی فہم کو اعتراض کرنے کا موقع نہ تھا۔ ہاں جہلا انھیں جو چاہیں سمجھیں۔ دونوں صاحبوں کے پاس موروثی جاگیر یں تھیں۔ فکر معاش سے آزاد تھے۔ آخر اورکرتے ہی کیا۔ طلوح سحر ہوتے ہی دونوں صاحب ناشتہ کرکے بساط پر بیٹھ جاتے۔ مہر ے بچھالیتے اور عقل کو تیز کرنا شروع کردیتے تھے پھر انھیں خبر نہ ہوتی تھی۔ کہ کب دوپہر ہوا کب سہ پہر اور کب شام۔ گھر سے باربار آدمی آکر کہتا تھاکھانا تیار ہے یہاں سے جواب ملتا تھاچلو آتے ہیں۔

دسترخوان بچھاؤ، مگر شطرنج کے سامنے قورمے اور پلاؤ کے مزے بھی پھیکے تھے۔ یہاں تک کہ باور چی مجبور ہوکر کھانا کمرے میں ہی رکھ جاتا تھا اور دونوں دوست دونوں کام ساتھ ساتھ کرکے اپنی باریک نظری کا ثبوت دیتے تھے۔ کبھی کبھی کھانا رکھا ہی رہ جاتا۔ اس کی یاد ہی نہ آتی تھی۔ مرزاسجّاد علی کے مکان میں کوئی بڑا بوڑھا نہ تھا اس لیے انہی کے دیوان خانے میں معر کہ آرائیاں ہوتی تھیں۔ مگر اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ مزراکے گھر کے اورلوگ اس مشغلہ سے خوش تھے۔

ہر گز نہیں۔ محلّہ کے گھر کے نوکر چاکروں میں، مہریوں ماماؤں میں بڑی حاسدانہ حرف گیریاں ہوتی رہتیں تھیں۔ بڑا منحوس کھیل ہے گھر کو تباہ کرکے چھوڑتا ہے۔ خدا نہ کرے کہ کسی کو اس کی چاٹ پڑے۔ آدمی نہ دین کے کام کار ہتا ہے۔ نہ دنیا کے کام کا بس اسے دھوبی کا کتّا سمجھوگھر کا نہ گھاٹ کا۔ بُرا مرض ہے۔ ستم یہ تھا کہ بیگم صاحبہ بھی آئے دن اس مشغلہ کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتی رہتی تھیں۔ حالانکہ انھیں اس کے موقع مشکل سے ملتے۔

وہ سوتی ہی رہتی تھیں کہ ادھر بازی جم جاتی تھی۔ رات کو سوجاتی تھیں۔ تب کہیں مرزا جی گھر میں آتے تھے۔ ہاں جولا ہے کاغصّہ داڑھی پر اتاراکرتی تھیں نوکروں کو جھڑکیاں دیا کرتیں کیا میاں نے پان مانگے ہیں۔ کہدو آکر لے جائیں۔ کیا پاؤں میں مہندی لگی ہوئی ہے۔ کیا کہا ابھی کھانے کی فرصت نہیں ہے؟ کھانے لے جاکر سر پر پٹک دو۔ کھائیں یا کتّوں کو کھلائیں یہاں ان کے انتظار میں کون بیٹھا رہے گا، مگر لطف یہ تھا کہ انھیں اپنے میاں سے اتنی شکایت نہ تھی جتنی میر صاحب سے وہ میر صاحب کونکھٹو۔ بگاڑو، ٹکڑے خور وغیرہ ناموں سے یاد کیا کرتی تھیں۔ شاید مرزا جی بھی اپنی بریت کے اظہار میں سارا الزام میر صاحب ہی کے سر ڈال دیتے تھے۔

ایک دن بیگم صاحبہ کے سر میں درد ہونے لگا۔ تو ماما سے کہا۔ جاکر مرزا جی کا بلالا۔

کسی حکیم کے یہاں سے دوالادیں۔ دوڑ جلدی کر سر پھٹا جاتاہے۔ ماما گئی تو مرزا جی نے کہا چل ابھی آتے ہیں۔ بیگم صاحبہ کو اتنی تاب کہاں کہ ان کے سر میں دردہوا ور میاں شطرنج کھیلنے میں مصروف ہوں۔ چہرہ سرخ ہوگیا اور ماما سے کہا جاکرکہہ ابھی چلیے ورنہ وہ خود حکیم صاحب کے پاس چلی جائیں گی۔ کچھ ان کے آنکھوں دیکھا راستہ نہیں ہے۔ مرزاجی بڑی دلچسپ بازی کھیل رہے تھے۔ دوہی کشتیوں میں میر صاحب کی مات ہوئی جاتی تھی۔ بولے کیا ایسا دم لبوں پر ہے۔ ذرا صبر نہیں آتا۔ حکیم صاحب چھومنتر کردیں گے کہ ان کے آتے ہی آتے دردِسر رفع ہوجائے گا۔

میر صاحب نے فرمایا۔ ”ارے جاکر سن ہی آئیے نہ۔ عورتیں نازک مزاج ہوتی ہی ہیں۔ مرزاجی، ہاں کیوں نہ چلا جاؤں دوکشتیوں میں میر صاحب کی مات ہوئی جاتی ہے۔

میر صاحب جی اس بھروسے نہ رہیے گا۔ وہ چال سوچی ہے کہ آپ کے مہرے دھرے کے دھرے رہ جائیں۔ اور مات ہوجائے۔ پر جائیے سن آئیے کیوں خواہ مخواہ ذرا سی بات کے لیے ان کا دل دکھائیے گا۔

مرزاجی۔ جی چاہتاہے اس بات پر مات کردوں۔
میر صاحب۔ میں کھیلوں گا ہی نہیں۔ آپ پہلے جاکر سن آئیں۔

مرزا جی۔ ارے یارجاناپڑے گا۔ حکیم کے یہاں درددردخاک نہیں ہے مجھے دق کرنے کا حیلہ ہے۔
میر صاحب۔ کچھ بھی ہو ان کی خاطر کرنی ہی پڑے گی۔

مرزاجی۔ اچھا۔ ایک چال اور چل لوں۔
میر صاحب۔ ہر گز نہیں۔ جب تک آپ سن نہ آئیں گے مہروں کا ہاتھ نہ لگاؤں گا۔

مرزا صاحب مجبور ہوکر اندر گئے تو بیگم صاحبہ نے کراہتے ہوئے کہا، تمھیں نگوڑا شطرنج اتنا پیارا ہے کہ چاہے کوئی مربھی جائے۔ پر اٹھنے کا نام نہیں، شطرنج ہے کہ میری سوتن ہے۔ نوج کوئی تم جیسا نرموہیا ہو۔

مرزا۔ کیا کروں۔ میر صاحب مانتے ہی نہ تھے۔ بڑی مشکلوں سے گلا چھڑاکر آیا ہوں۔
بیگم۔ کیا جیسا خود نکھٹو ہیں ویسے ہی دوسروں کو سمجھتے ہیں۔ ان کے بھی تو بال بچے ہیں کہ سب کا صفایا کردیا۔

مرزا۔ بڑالتّی آدمی ہے۔ جب آکر سر پر سوار ہوجاتا ہے تو مجبورہو کر مجھے بھی کھیلنا ہی پڑتا ہے۔
بیگم۔ دھتکار کیوں نہیں دیتے کتّے کی طرح۔

مرزا۔ سبحان اللہ برابر کے آدمی ہیں۔ عمر میں، رتبہ میں مجھ سے دوانگل اونچے ملا حظہ کرنا ہی پڑتا ہے۔
بیگم۔ تومیں ہی دھتکار ے دیتی ہوں۔ ناراض ہوجائیں گے۔ کون میری روٹیاں چلاتے ہیں۔ رانی روٹھیں گی اپنا سہاگ لیں گی (ماماسے ) عباسی، شطرنج اٹھالا۔ میر صاحب سے کہہ دینا۔ میاں اب نہ کھیلیں گے۔ آپ تشریف لے جائیں۔ اب پھر منہ نہ دکھائیے گا۔

مرزا۔ ہائیں ہائیں کہیں ایسا غضب نہ کرنا۔ کیاذلیل کراؤگی۔ ٹھہر عبّاسی۔ کمبخت کہاں دوڑی جاتی ہے۔

بیگم:۔ جانے کیوں نہیں دیتے۔ میراجو خون پئے جو روکے۔ اچھا اسے روک لیا۔ مجھے روک لو تو جانوں۔ یہ کہہ کر بیگم صاحبہ خود جھلّائی ہوئی دیوان خانے کی طرف چلیں۔ مرزاجی کا چہرہ فق ہوگیا۔ ہوائیاں اڑنے لگیں۔ بیوی کی منتّیں کرنے لگے۔ خدا کے لیے تمھیں شہیدِ کربلا کی قسم۔ میری میّت دیکھے جو ادھر قدم رکھے لیکن بیگم صاحبہ نے ایک نہ مانی، دیوان خانے کے دروازے تک گئیں۔ یکایک نامحرم کے روبرو بے نقاب جاتے ہوئے پیر رک گئے۔

وہیں سے اندر کی طرف جھانکاحسنِ اتفاق سے کمرہ خالی تھا۔ میر صاحب نے حسبِ ضرورت دو چار مہرے تبدیل کردیے تھے اس وقت اپنی صفائی جتانے کے لیے باہر چبوترہ پر چہل قدمی کررہے تھے پھر کیا تھا بیگم صاحبہ کو منہ مانگی مراد ملی۔ اندر پہنچ کر بازی الٹ دی۔ مہرے کچھ تخت کے نیچے پھینکے کچھ باہر تب دروازہ اندر سے بند کرکے کنڈی لگادی۔ میر صاحب دروازے پر توتھے ہی مہرے باہر پھینکے جاتے دیکھے۔ پھر چوڑیوں کی جھنکار سنی تو سمجھ گئے بیگم صاحبہ بگڑ گئیں۔ چپکے سے گھر کی راہ لی۔

مرزا نے بیگم صاحبہ سے کہا تم نے غضب کردیا۔
بیگم۔ اب موا ادھر آئے تو کھڑے کھڑے نکال دوں۔ گھر نہیں چکلا سمجھ لیا ہے۔ اتنی لو اگر خدا سے ہو تو ولی ہو جاتے۔ آپ لوگ تو شطرنج کھیلیں، میں یہاں چولھے چکی میں سر کھپاؤں، لونڈی سمجھ رکھا ہے جاتے ہو حکیم صاحب کے یہاں کہ اب بھی تامل ہے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3