مقامی سرمایہ کار بھاگ رہا ہو گا تو بیرونی سرمایہ کار کیوں آئے گا؟


تاریخ یہ بتاتی ہے کہ جب آپ اپنے ملک کے سرمایہ داروں اور ہنرمندوں کو ملک سے بھاگنے پر مجبور کر دیں تو آپ دوسرے ملکوں کے سرمایہ داروں اور ہنرمندوں کے آگے بھیک مانگنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ وہ آپ کے وطن میں آ کر معیشت چلائیں۔

سرمایہ دار اپنے ملک کے ہوں تو ملک کا سرمایہ ملک میں رہتا ہے۔ دوسری صورت میں بیرونی سرمایہ کار سب سمیٹ کر باہر لے جاتے ہیں۔ پہلی حماقت ہم نے 1970 کی دہائی میں 22 سرمایہ دار خاندانوں کو ختم کر کے اور ہنرمندوں کو مشرق وسطی جانے پر مجبور کر کے کی تھی۔ دوسری اب کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔

فارن انویسٹ منٹ لانے سے پہلے مقامی سرمایہ کار کو تو روکنے کی سبیل کریں جسے 1973 سے ملک سے بھاگنے ہر مجبور کیا جا رہا ہے۔ پہلے نیشنلائزیشن کے نام پر مضبوط صنعتی بنیاد کو ڈھا دیا گیا۔ اب سیاسی وابستگیوں کے نام پر کرپشن، ٹیکس، انرجی اور صنعت کی عجیب و غریب پالیسیوں، وغیرہ کے ذریعے انہیں بھگایا جا رہا ہے۔

صنعت نہیں ہو گی تو پھر برین ڈرین ہو گی۔ یہاں ملازمت اور عزت کی زندگی نہیں ہو گی تو تربیت یافتہ اور تعلیم یافتہ شہری ان دو کی تلاش میں باہر جانے پر مجبور ہوں گے۔ پہلے ملکی سرمائے اور افراد کو تو باہر جانے سے روکنے کا سبب کریں اس کے بعد باہر کی سرمایہ کاری لانے کا سوچیں۔ باہر کی سرمایہ کاری لانے کا اسی وقت فائدہ ہوتا ہے جب وہ ملک میں نئی ٹیکنالوجی متعارف کروائے اور مقامی لوگوں کو اس قابل کرے کہ وہ اس سے سیکھ کر خود صنعت لگائیں۔ ورنہ میکڈانلڈ ٹائپ سرمایہ کاری لانے سے الٹا مقامی سرمایہ ہی باہر جاتا ہے۔

یہ چیز بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ اگر ہم مائکروسافٹ یا ایپل جیسی بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں پر نظر ڈالیں تو دیکھتے ہیں کہ ان کے بانی کالج کی تعلیم پوری نہیں کر پائے تھے۔ وہ اپنی فیلڈ میں چھوٹا موٹا کام شروع کرنے کے بعد کالج چھوڑ گئے تھے۔ معیشت کی جان یہی چھوٹا موٹا کام ہوتا ہے جو ایک کمرے سے شروع ہوتا ہے اور دنیا بھر میں مائیکروسافٹ اور ایپل بن کر پھیل جاتا ہے۔

ہمارے ہاں بھی ایسی مثالیں تھیں جو نیشنلائزیشن کی نذر ہو گئیں۔ ابھی بھی سیالکوٹ، گجرانوالہ اور گجرات جیسے کاٹیج انڈسٹری والے شہر ہمارے پاس ہیں۔ ہم یہ ماڈل پھیلائیں گے تو ہمارے پاس بھی ملٹی نیشنل کمپنیاں بنیں گی۔

معتوب و مغضوب معاشی ماہر عاطف میاں کا بھی یہی منصوبہ تھا کہ کاٹیج انڈسٹری کو فروغ دیا جائے۔ عاطف میاں ہو یا نہ ہو، لیکن اس آئیڈیے پر کام کرنا چاہیے۔ اس کے لیے ضروری ہے پانچ سو سرکاری محکموں کے چکر سے بزنس کو نجات دلائی جائے۔ ٹیکس کو فلیٹ ریٹ پر ایک فیصد کر دیا جائے یا دبئی ماڈل کی طرح ختم کر دیا جائے۔ ان ڈائریکٹ ٹیکس لگائے جائیں کہ سالانہ اتنی ٹرانزیکشن پر اتنا ٹیکس کٹے گا۔ ٹیکس ماہرین اس پر زیادہ بہتر بات کر سکتے ہیں۔ لیکن اہم چیز یہ ہے کہ ٹیکس کی وجہ سے بزنس بند نہیں ہونا چاہیے۔ اب حال یہ ہے کہ جو ٹیکس دینا چاہتا ہے اسی کو مزید مصائب میں مبتلا کیا جاتا ہے۔ دیانت دار آدمی کے لئے کاروبار کرنا ناممکن ہے۔ اس چیز کو بدلا جائے۔

ہمارے دور میں سب سے بڑے معاشی معجزے دو ہیں۔ پہلا چین جس نے کاٹیج انڈسٹری اور بزنس فرینڈلی پالیسیز کے بل پر معاشی دنیا کو تہ و بالا کر دیا ہے، اور دوسرا دبئی جو اپنی آزاد معیشت کے سبب دنیا بھر کا سرمایہ اور سیاح اپنے پاس کھینچ کر لا رہا ہے۔ ہمیں ان دونوں ماڈلز سے راہنمائی لینی چاہیے۔ چین کی پالیسی یہ رہی ہے کہ انڈسٹری پر سے حکومتی کنٹرول کم سے کم کیا جائے اور بزنس کو سرخ فیتے سے بچایا جائے۔

اس وقت ویت نام بھی اسی چینی ماڈل پر کام کر کے ایک نیا معجزہ تخلیق کر رہا ہے۔ تیس برس قبل ویت نام دنیا کے غریب ترین ملکوں میں سے ایک تھا۔ اب اس کی معیشت 6 سے 7 فیصد سالانہ کی شرح سے بڑھ رہی ہے اور چین کا مقابلہ کر رہی ہے۔ ورلڈ اکنامک فورم کے مطابق اس کی ایکسپورٹس کی مالیت اس کی ٹوٹل جی ڈی پی جتنی ہے۔ اس کی ایکسپورٹ سنہ 2017 میں 214 ارب ڈالر تھیں یعنی پاکستان سے دس گنا زیادہ۔ اس کی آبادی پونے دس کروڑ ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ ویت نام میں پاکستانی سفارت کاروں کو ویت نام ماڈل کے بارے میں تحقیق کے لئے کہے۔

ایک تیسرا ماڈل بھی ہے۔ وہ ہے امریکہ۔ اب دنیا صنعتی دور سے انفارمیشن کے دور میں داخل ہو چکی ہے۔ آپ نے کچھ عرصے پہلے سوشل میڈیا پر چلنے والا وہ فقرہ دیکھا ہو گا کہ سب سے بڑی ٹرانسپورٹ کمپنی اوبر کے پاس اپنی ٹیکسی نہیں، سب سے بڑی ہوٹلنگ کمپنی بی این بی کے پاس اپنے ہوٹل نہیں، وغیرہ وغیرہ۔ وہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ذریعے یہ سب کچھ کر رہے ہیں۔ ہمیں نالج جنریشن پر فوکس کرنا ہو گا جو ہمیں ایسی ٹیکنالوجی بھی دے اور آئیڈیاز بھی۔

نالج جنریشن کے معاملے میں یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ معاشرے کے ذہین ترین افراد جو کسی بھی فیلڈ میں ایجاد و جدت کا باعث بنتے ہیں، وہ باغیانہ سوچ رکھتے ہیں۔ وہ طے شدہ امور سے ہٹ کر کچھ نیا سوچتے ہیں۔ نقل مارنے والا مکھی پر مکھی تو مار سکتا ہے، مگر خود سے کچھ نیا تخلیق کرنے سے قاصر ہوتا ہے۔

جب باغی سوچ رکھنا جرم بن جائے تو پھر ملک میں پی ایچ ڈی تو بہت ہوتے ہیں لیکن پیٹنٹ اور علوم میں توسیع کے نام پر اس قوم کے پاس دھیلہ بھی نہیں ہوتا۔ علوم میں ترقی کرنی ہے تو یونیورسٹی کو فکری بغاوت کا گڑھ بنانا ہو گا۔ یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ ملک کی معیشت اور طاقت کو یہ فکری آزادی ہی نمو دیتی ہے۔ ہمیں آزادی اظہار اور روایت شکن سوچ کو نہ صرف تحفظ دینا ہو گا بلکہ اس کی حوصلہ افزائی اور ترویج کرنی ہو گی۔ اب وہ دور گزر گیا جب استاد کے احترام میں اس کے دعوے کو چیلنج کرنا بدعت ہوتی تھی۔ اب استاد سے مباحثے کا دور ہے۔ اس مباحثے کو فروغ دیں گے تو انفارمیشن ایج میں طاقت بنیں گے، ورنہ پھر ٹیکنالوجی میں امریکہ اور ثقافت میں انڈیا کا مقلد بن کر ہی جئیں گے۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar