درسگاہوں میں نظریات کی خونی جنگ۔


تین چار عشرے پہلے کے پرانے پاکستان میں شروع ہونے والی مذہبی شدت پسندی پروان چڑھ کر بہت جلد انتہا پسند نظریہ میں ڈھلنے کے بعد باضابطہ نظریہ حیات میں بدل گئی اور پھر نئے پاکستان تک پہنچتے پہنچتے یہ نظریہ حیات نہایت توانا اور مستحکم ہو گیا۔ اتنا مضبوط کہ اس کے مقابل کسی دوسرے نظریے کی بات سننا تو درکنار اس پر عمل پیرا افراد کا وجود ہی برداشت سے باہر ہو گیا۔ اور اگر ایسے نظریات تعلیمی اداروں میں گھس جائیں تو پھر چارسدہ اور مردان سے لے کر بہاولپور اور کراچی تک زندگی کو کبھی زمین پر گھسیٹ کر تو کبھی اس کے سینے میں چھریاں پیوست کرکے قاتل ا طمینان قلب پاتے ہیں۔

20 مارچ کو بہاولپورکے ایک کالج میں سربراہ شعبہ انگلش پروفیسرخا لد حمید کو ان ہی کے طالب علم خطیب حسین نے اپنے مذہبی نظریہ کے ہاتھوں مجبور ہو کر قتل کر دیا۔ مقتول نئے آنے والے طلبہ و طالبات کے اعزاز میں ویلکم پارٹی دینے کے حق میں تھے۔ قاتل کے خیال میں یہ اسلامی شعائر کے خلاف ہے، مخلوط پارٹی سے فحاشی پھیلے گی، اس لئے اسے روکنا عین شریعت کا تقاضا ہے۔ اگر نہ روکا تو بارگاہ الہٰی میں اس سے باز پرس ہو گی۔

خطیب حسین نے اپنے استاد پر چھریوں کے پے درپے وارکیے ، وہ موقع پر جاں بحق ہو گئے جبکہ خطیب حسین کو بھی موقع پر ہی گرفتار کر لیا گیا۔ واقعہ کے فوراً بعد بنائی گئی ایک ویڈیو میں خطیب اپنے جرم کا اعتراف کرتا نظر آرہا ہے۔ اسے اپنےکیے پر کوئی ندامت نہیں بلکہ کہہ رہا ہے کہ ’‘ بالکل مطمئن ہوں۔ اللہ کا شکر ہے ”۔ قاتل کے ہاتھوں پر لگا خون بھی دکھائی دے رہا ہے، وہ جرم کا اعتراف بھی کر رہا ہے مگر کل عدالت میں جب کیس جائے گا تو کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ فیصلہ کیا آئے گا۔

کسی تعلیمی ادارے میں مذہبی جنونیت کا یہ پہلا واقعہ نہیں۔ 13 اپریل 2017 کو مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغیات کے طالب علم مشال خان کو توہین مذہب کے الزام میں مجمعے نے تشدد کر کے ہلاک کر دیا۔ قتل کا مقدمہ درج ہوا، 61 افراد کو نامزد کیا گیا، 57 کو گرفتار کرکے انسداد دہشتگردی کی عدالت میں مقدمہ چلا، مرکزی ملزم عمران کو سزائے موت، 5 کو پچیس پچیس سال قید جبکہ 25 ملزمان کوچار چار سال قید کی سزا سنائی گئی، باقی 26 کو بری کر دیا گیا۔

تحفظ ختم نبوت، جمعیت علمائے اسلام، جماعت اسلامی اور دیگر جماعتوں اور تنظیموں کی طرف سے اس سزا کے خلاف احتجاجی مظاہرےکیے گئے جبکہ رہائی پانے والوں پر گل پاشی کی گئی، انہیں رہائی کی مبارکباد دی گئی۔ اس واقعہ پر جے آئی ٹی بنی جس کی رپورٹ کے مطابق مقتول پر توہین مذہب کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔ مشال خان کے والد اقبال لالہ نے کہا کہ میں نے تمام تر دباؤ اور مشکلات کے باوجوداس مقدمے کی اکیلے قانونی جنگ لڑی، مقصد یہ تھا کہ پاکستان کا چہرہ واضح اور روشن ہو جائے اور مستقبل کے مشالوں کو تحفظ ملے لیکن فیصلے سے لگتا ہے کہ انصاف متزلزل ہوا۔ اور پھر ہم دیکھ رہے ہیں کہ یہ بھی دیکھا کہ اپنے بیٹے کی قبر کو دس فٹ کے فاصلے پر کھڑا ہو کر سلیوٹ کرنے والا اقبال لالہ کہہ رہا ہے کہ اسے ابھی بھی دھمکیاں مل رہی ہیں جس کی وجہ سے اپنی بچیوں کو سکول اکیلے نہیں بھیج سکتے۔

مذکورہ فیصلے کے ٹھیک دو ہفتے بعد چارسدہ کے علاقے شبقدر میں گزشتہ برس 22 جنوری کو نجی کالج کے طالب علم فہیم نے ا پنے پرنسپل سریر خان کو سر اور سینے میں گولیاں مار کر قتل کر دیا۔ قاتل بارہویں جماعت کا طالب علم تھا۔ ہوا یوں کہ طالب علم کچھ دن کلاس سے غائب رہا، پرنسل نے غیر حاضری کی وجہ پوچھی تو پتہ چلا کہ طالب علم خادم حسین رضوی کی طرف سے دیے گئے فیض آباد دھرنے میں شرکت کے لئے گیا ہوا تھا۔ پرنسپل کو یہ بات پسند نہ آئی اور دونوں میں تکرار ہو گئی۔ طالب علم کے نزدیک پرنسپل کی ڈانٹ توہین مذہب کے زمرے میں آتی ہے لہٰذا اس نے جوش ایمانی میں آ کر فائرنگ کر دی۔ ملزم گرفتاری کے وقت بلند نعرے لگارہا تھا کہ توہین رسالت کرنے والا اپنے انجام کو پہنچ گیا۔ مقتول سریر خان حافظ قرآن اور کالج میں اسلامیات کا مضمون پڑھاتے تھے۔

اسی طرح اپریل 2015 میں کراچی یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغیات کے اسسٹنٹ پروفیسر سید وحید الرحمان المعروف یاسر رضوی ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہوگئے۔ کہا یہ گیا کہ وہ شیعہ نظریات رکھتے تھے اور اس نظریے کی بنا پر مخالف مذہبی فرقہ کے ہاتھوں مارے گئے۔ حقیقت یہ تھی کہ وحید الرحمان اسنی العقیدہ مسلمان تھے۔ جامعہ کراچی ہی میں ڈاکٹر محمد شکیل اوج کو ایک مذہبی مدرسے کی طرف سے توہین رسالت کا مرتکب اور واجب القتل قرار دینے کا فتویٰ جاری ہوا۔ پھر کسی نے ثواب کمانے کی غرض سے انہیں 18 ستمبر 2014 کو گولی مار دی۔ مقتول اسلامیات میں پی ایچ ڈی، صحافت میں ایم اے اور قانون کی ڈگری بھی رکھتے تھے، 15 کتابوں، کتابچوں کے مصنف تھے۔ کیس کے ملزم کو عدم ثبوت کی بنا پر بری کر دیا گیا۔

ادھرمیانوالی میں ستمبر 2016 میں ایک طالب علم نے اپنے استاد ثمر عباس کو قتل کر دیا۔ کہا یہی گیا کہ شاگرد کے خیال میں شیعہ واجب القتل ہیں۔

قتل کے واقعات کے علاوہ نظریات کی بنیاد پرتعلیمی اداروں میں طالب علموں کی استادوں یا دیگر طلبہ تنظیموں کے ساتھ ہتک آمیز رویوں، لڑائیوں اور تصادم کی کئی مثالیں موجود ہیں۔ بعض واقعات میں انتظامیہ بھی ملوث تھی۔ یہ نظریے کا ٹکراؤ ہی تھاکہ پروفیسر ڈاکٹر ہو د بھائی کو 2012 میں لاہور کی لمز یونیورسٹی نے ملازمت سے نکال دیا۔ ہود بھائی کا شمار بائیں بازو کے دانشوروں میں ہوتا ہے۔ اس واقعہ پر اپنا ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے پولیٹیکل سائنس میں ایک نیا کورس ’سائنس اور زمانہ جدید کے تقاضے‘ شروع کیا تاکہ سائنس اور آرٹس کے طلبہ کو سائنس کے بارے میں معلومات مل سکیں۔ انہوں نے کہا کہ آرٹس اور سائنس کے طلبہ کے درمیان ایک بڑی خلیج بن چکی ہے جسے دور کرنا ضروری ہے۔ کہتے ہیں کہ لوگوں نے کہنا شروع کر دیا کہ میں ’سائنس اور مذہب‘ پڑھاتا ہوں۔ اس کورس کی وجہ سے ملازمت سے نکالا گیا ہوں۔

چلتے چلتے یہ بھی بیان کر دیں کہ نومبر 2007 میں پنجاب یونیورسٹی لاہور میں اسلامی جمعیت طلبہ نے ہمارے وزیر اعظم عمران خان پر تشدد کیا، انہیں گریبان سے پکڑکر کھینچتے ہوئے سنٹر فار ہائی انرجی فزکس کے ایک کمرے میں لگ بھگ ایک گھنٹہ کے لئے بند کر دیا۔ عمران خان وہاں پاکستان طلبہ محاذ کی دعوت پر ملک میں ایمرجنسی کے نفاذ کے خلاف احتجاج میں شرکت کے لئے مدعو تھے۔ عمران خان نے چند سال بعد اپنے ایک انٹرویو میں انکشاف کیا کہ وہاں ان کے قتل کا منصوبہ بنایا گیا تھا۔

اس کیس میں الٹا عمران خان کے خلاف انسداد دہشت گردی، 16 ایم پی او اور دیگر قانونی دفعات کے تحت مقدمہ درج ہوا اور انہیں گرفتار کر کے کچھ دیر تھانے میں بند کیا گیا۔ اسی یونیورسٹی میں کوئی طلبہ تنظیم کلچرل شو کرنا چاہے تواسلامی جمعیت طلبہ طوفان کھڑا کر دیتی ہے۔ اسی یونیورسٹی میں جہاں کلاسیں مخلوط ہیں مگر لڑکا اور لڑکی اکٹھے کیفے میں بیٹھ کر چائے نہیں پی سکتے۔ اگر کوئی ایسا کرنے کی کوشش کرے تو اس کی قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔ اسلامی جمعیت طلبہ کی نظریاتی ساخت پرداخت جماعت اسلامی کرتی ہے اور اب اگر کوئی یہ کہے کہ مولانا مودودی صاحب نے تو تشدد اور انتہاپسندی کا درس نہیں دیا تھا تو پوچھا جا سکتا ہے کہ پھر پی ایس ایف ثقافتی شو کی مخالفت کیوں نہیں کرتی؟

تو گویا معاملہ محض ناپسندیدگی، عدم رواداری یاعدم برداشت کا نہیں بلکہ اپنا نظریہ ٹھونسنے کے لئے ہر طرح کی رکاوٹ کو دور کرنا ضروری گردان لیا گیا ہے۔ اور اس کے لئے کسی مخالف انسان کی جان بھی لینا پڑے تو تامل نہ کیا جائے۔

سماج میں ہونے والی مذہبی انتہا پسندی اوردہشت گردی کی وجوہات کو سمجھنا کوئی مشکل نہیں رہا تاہم تعلیمی اداروں میں شروع ہونے والی اس خونی جنگ نے نئے سوالات کو جنم دے دیا ہے جن کے جواب ملنا ضروری ہیں۔ تعلیمی ادارے تو بچوں کو تعلیم دیتے ہیں، ان کی تربیت کے ذمہ دار ہوتے ہیں اور اگر طالب علم کسی مسئلے پر مکالمہ کرنے کے بجائے اپنے استاد کو قتل کرنے پر اتر آئے تو نظام تعلیم پر سوال تو اٹھیں گے۔ گویا اگر کوئی یہ کہے کہ درسگاہوں میں انتہا پسندی اور دہشتگردی کا براہ راست ذمہ دار ہمارا نظام تعلیم ہے تواس سوال کو آسانی سے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ جو نظام تعلیم اور جو نصاب تعلیم رواداری اور برداشت نہ سکھائے اور تنقیدی نقطہ نظر پیدا کرنے کی صلاحیت سلب کر لے وہ کئی نسلوں کی تباہی کا ذمہ دار ہے۔ ہمارے ہاں تعلیم (education) کم اور تلقین (indoctrination) زیادہ ہے۔ ان دونوں کے درمیان فرق کو سمجھنا انتہائی ضروری ہے۔

ادھرگورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہورمیں ڈیپارٹمنٹ آف فلاسفی اینڈ وانٹر ڈسپلنری سٹڈیزکے سابق سربراہ، ڈرامہ نگار اور ناول نگارمرزا اطہر بیگ نے بہاولپور میں پروفیسرکے قتل جیسے واقعات کو سامنے ر کھ کر اپنی رائے زنی کرتے ہوئے انوکھی تجویز دیدی ہے۔ کہتے ہیں کہ تمام پروفیسرز اور ہر طرح کی تعلیم دینے والے اساتذہ کو معلوم ہوجانا چاہیے کہ ایک ایسا معاشرہ جہاں تعلیم کے بجائے تلقین عصرحاضر کی حقیقت بن چکی ہو وہاں پڑھانا زندگی کو خطرے میں ڈالنے والاپیشہ بن کر رہ گیا ہے، کیوں نہ ہم اپنی جان کی حفاظت کے لئے اپنے منہ بند رکھیں اور درسگاہوں میں آتے ہوئے ’سیفٹی رولز کٹ‘ بھی ساتھ لایا کریں، بہر حال جسم کا بچاؤ ذہن بچانے سے زیادہ مقدم ہے۔ آؤ، ہم یہ بھی مان لیں کہ ہم اپنے بچوں کے اصل استاد ہیں ہی نہیں۔

آپ خود ہی بتائیں کہ اس تجویز پر ہنسا جائے یا رویا جائے۔ ہم جو بھی کریں یہ بہرحال طے ہے کہ درسگاہوں میں نظریات کی خونی جنگ داخل ہو چکی ہے جسے کسی نہ کسی طرح ہمیں روکنا ہوگا۔

مکانوں میں نئے روزن بنا لو

ہوا کا رخ بدلتا جا رہا ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).