مسئلہ معیشت کا نہیں، توسیع پسندی کا ہے


ملکی معیشت زبوں حالی کا شکار ہے، تیل کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں، سرمایہ کار ملک سے بھاگ رہا ہے، روپیہ تیزی سے تنزلی کی طرف جا رہا ہے، بے روزگاری کا اژدھا پھن پھیلائے کھڑا ہے، افلاس نے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں، بھوک سے لوگ خودکشیاں کر رہے ہیں، تاجر پریشان حال ہیں، نیب کی پکڑ دھکڑ جاری ہے، بنکوں سے پیسہ تیزی سے نکل رہا ہے، ملک میں جمود کی کیفیت ہے۔ کشتی بیچ بھنور پھنسی ہوئی ہے۔ ناخدا کشتی کو بھنور سے نکالنے کی تدابیر اختیار کرنے کی بجائے انتقامی کارروائیوں پر اترا ہوا ہے

یہاں مجھے راؤ رشید یاد آ رہے ہیں جو اپنی کتاب “جو میں نے دیکھا ” میں رقمطراز ہیں

“مشرقی پاکستان کا فال ہو رہا تھا کہ فوجی حکمران یحییٰ خان پشاور میں تھے پتہ نہیں رات کو وہ سوئے یا نہیں لیکن چار بجے صرف انڈرویر میں باہر نکل آئے نشہ میں بالکل دھت تھے انھوں نے کہا گاڑی تیار کرو میں اسی وقت راولپنڈی جاؤں گا۔ متعلقہ سٹاف کے لوگ بڑے پریشان ہوئے انھوں نے کہا جی ابھی گاڑی منگواتے ہیں۔ انھوں نے ایس پی کو کال کی۔ ایس پی نے ڈی آئی جی کو کال کی کہ صدر صاحب راولپنڈی جانا چاہتے ہیں اور برآمدے میں آدھے ننگے کھڑے ہیں۔ یحیی خان کے کمرے میں ایک محترمہ کھڑی تھی اور انھوں نے تھوڑا تھوڑا دروازہ کھول کر انھیں واپس بلانے کی کوشش کی لیکن وہ بھپرے ہوئے شیر کی طرح تھے۔ پتہ نہیں کہ اس محترمہ سے کس بات پر ناراض ہوئے تھے۔

یحییٰ خان کے گھر کی کوئی محترمہ وہاں نہیں آئی ہوئی تھی۔ ابھی تو گھر کی افتتاحی تقریب ہونا باقی تھی۔ اس محترمہ نے کوشش کی کہ جنرل صاحب واپس کمرے میں آ جاہیں مگر وہ بضد تھے کہ ابھی اور اسی وقت راولپنڈی جانا ہے۔ پھر یحییٰ خان کے ایک اور منظور نظر کو کال کی گئی وہ آئیں اور بڑی منت سماجت کر کے انھیں کمرے میں لے گئی اس طرح سے بحران جو تھا وہ ٹلا۔ مشرقی پاکستان کا فال کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ اصل مسئلہ یہ تھا کہ ننگے دھڑنگے صدر صاحب کو واپس کس طرح کمرے میں لے جایا جائے۔”

بالکل اسی طرح ملکی معیشت ڈانواں ڈول ہے یہ کوئی مسئلہ نہیں۔ اصل مسئلہ تو یہ ہے کہ نومبر میں توسیع ہو سکے گی یا نہیں۔ ملک میں انتقامی کارروائیوں ہو رہی ہیں، ہونے دو۔ پیسہ تیزی سے ملک سے باہر جا رہا ہے، جانے دو۔ بے روزگاری کا اژدھا پھن پھیلائے کھڑا ہے۔ اس سے ہمیں کیا غرض۔ ہمیں تو یہ سوچنا ہے کہ اگر لطف شاہی میں تین برس بڑھ جائیں تو کیا خوب ہے۔ اگر موقع ملا ہے اس کو کیوں ضائع کریں۔

ہفتہ عشرہ قبل تین ستاروں والے ایک افسر سے ملکی معاملات ڈسکس کر رہا تھا۔ کہنے لگے اضطراب تو پایا جاتا ہے کہ سویلین حکومت کی ترجیحات کچھ اور ہیں مگر نومبر تک حکومت برقرار رہے گی۔ کون نہیں چاہتا کہ پروٹوکول نہ ملے۔ خواہش ہے کہ مدت ملازمت میں توسیع مل جائے۔ پوچھا کہ سر اگر نہ ملے تو پھر کون آرمی چیف بنے گا؟ بولے جنرل بلال اکبر اور جنرل سرفراز مضبوط ترین امیدوار ہیں مگر جنرل بلال اکبر کے زیادہ چانسز ہیں۔

ایک اور ذریعے نے یہ بھی انکشاف کیا کہ اسد عمر نے سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار سے جو مدد مانگی ہے، اس میں راولپنڈی کی تائید بھی شامل تھی۔

سو پیارے ہم وطنو، نومبر تک اس حکومت کو برداشت کرنا پڑے گا۔ جیسے تیسے گزارہ کرو اور تبدیلی کے ذائقہ سے لطف اندوز ہوں۔

بشارت راجہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بشارت راجہ

بشارت راجہ شہر اقتدار سے پچھلی ایک دہائی سے مختلف اداروں کے ساتھ بطور رپورٹر عدلیہ اور پارلیمنٹ کور کر رہے ہیں۔ یوں تو بشارت راجہ ایم فل سکالر ہیں مگر ان کا ماننا ہے کہ علم وسعت مطالعہ سے آتا ہے۔ صاحب مطالعہ کی تحریر تیغ آبدار کے جوہر دکھاتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ وسعت مطالعہ کے بغیر نہ لکھنے میں نکھار آتا ہے اور نہ بولنے میں سنوار اس لیے کتابیں پڑھنے کا جنون ہے۔

bisharat-siddiqui has 157 posts and counting.See all posts by bisharat-siddiqui