دہلوی اردو کی کتنی قسمیں ہیں؟


کہتے ہیں کہ صاحب عالم مرزا فخرالدین عرف مرزا فخرو الملّقب بہ مرزا چپاتی دلّی کے آخری تاج دارظفر کے بھانجے تھے۔ ان کا اشرف صبوحی سے مکالمہ ہوا جس میں انہوں نے دہلی کی اردو کی نہایت دلچسپ اقسام بتائیں۔

مرزا: توبہ توبہ تم نے تو دلّی کو دم توڑتے بھی نہیں دیکھا۔ اس کا مردہ دیکھا ہے۔ مردہ۔ وہ بھی لاوارث! میاں شہر آبادی کی باتیں قلعے والوں کے صدقے میں تھیں۔ جیسے جیسے وہ اٹھتے گئے دلّی میں اصلیت کا اندھیرا ہوتا گیا۔ اب تو نئی روشنی ہے نئی باتیں۔ اور تو خدا بخشے دلّی کی صفتیں تم کیا جانو۔ پڑھے لکھے ہو۔ شاعری کا بھی شوق ہے۔ بھلا بتاؤ تو سہی اردو کی کتنی قسمیں ہیں؟ میں نے حیران ہوکر پوچھا ”صاحب عالم اردو کی قسمیں کیسی؟“

یہ بھی ایک کہی۔ مجھ پر بھی داؤں کرنے لگے۔ واہ بھئی معلوم ہوا کہ تم دلّی والے نہیں۔ کہیں باہر سے آکر بس گئے ہو۔
میں شرمندہ تھا کہ کیا جواب دوں۔ میرے نزدیک تو صرف ایک ہی قسم کی اردو تھی۔ زیادہ سے زیادہ عوام و خواص کا فرق سمجھ لو۔ مگر یہ قسمیں کیا معنی؟

مجھے چپ دیکھ کر مرزا مسکرائے اور کہنے لگے ”سید پریشان نہ ہو۔ مجھ سے سن اور یاد رکھ۔ بھولیو نہیں پھر پوچھے گا تو نہیں بتاؤں گا۔ “
میں بڑے شوق سے متوجہ ہوا اور انھوں نے انگر کھے کے دامن سے منہ پونچھ کر کہنا شروع کیا۔

دیکھ اوّل نمبر پر تو اردوے معلّٰی ہے جس کو ماموں حضرت اور ان کے پاس اٹھنے بیٹھنے والے بولتے تھے۔ وہاں سے شہر میں آئی اور قدیم شرفا کے گھروں میں آچھپی۔ دوسرا نمبر قل آعوذی اردو کا ہے جو مولویوں، واعظوں اور عالموں کا گلا گھونٹتی رہتی ہے۔ تیسرے خود رنگی اردو۔ یہ ماں ٹینی باپ کلنگ والوں نے رنگ برنگ کے بچے نکالے ہیں۔ اخبار اور رسالوں میں اِسی قسم کی اردو، ادب کا اچھوتا نمونہ کہلاتا ہے۔ چوتھے ہڑونگی اردو، مسخروں اور آج کل کے قومی بلّم ٹیروں کی منہ پھٹ زبان ہے۔

پانچویں لفنگی اردو ہے جسے آکا بھائیوں کی لٹھ مار، کڑاکے دار بولی کہو یا پہلوانوں، کرخن داروں، ضلع جگت کے ماہروں، پھبتی بازوں اور گلیروں کا روز مرّہ۔ چھٹے نمبر پر فرنگی اردو ہے جو تازہ ولایت انگریز، ہندوستانیوں عیسائی ٹوپ لگائے ہوئے کرانی، دفتر کے بابو، چھاونیوں کے سوداگر وغیرہ بولتے ہیں۔ پھر ایک سربھنگی اردو ہے یعنی چرسیوں، بھنگڑوں بینواؤں اور تکیے داروں کی زبان۔

مکمل مضمون: مرزا چپاتی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).