استاد کا کردار نہ ہو تو مراعات کا مطالبہ کیسا


استاد، معلم معاشرے کا وہ مہذب انسان ہے جس کے کردار اور گفتار سے تہذیب کے پھول جھڑتے ہیں۔

معلم کی شان بڑھانے کے لئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا
مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے۔

پیارے، استاد وہ تھے جو بے غرضی سے قوم کی خدمت کرتے تھے۔ ان کی نظر قصر شاہی پر نہ تھی وہ کبھی صفہ میں تو کبھی درخت کی چھاؤں کے نیچے بیٹھ کر شاہین بچوں کو پرواز سکھاتے تھے۔

استاد سے مجھے یاد آتے ہیں مولوی عبدالرزاق پھوڑ جو اسلامیہ اسکول کے بانی تھے، اپنی تنخواہ بچوں پر لٹاتے تھے انہیں کپڑے دلاتے پردیسی بچوں کو گھر کا کرایہ دیتے تھے حتیٰ کہ بیمار بچوں کے کپڑے بھی خود ہی دھوتے تھے۔

مجھے یاد آتے ہیں استاد عبداللہ میراثی، ؛ جنہوں نے ایک دن بھی چھٹی نہیں کی، دھوپ ہو بارش ہو اسکول میں حاضر رہتے اور کبھی بھی اسکول مالکان کا کھانا نہیں کھایا پانی چائے نہیں پی۔ کہتے ہمیں سرکار وظیفہ کس لیے دیتی ہے۔

علامہ عبدالحلیم کا ذکر نہ کرنا بھی زیادتی ہوگی آپ فجر کے بعد گاؤں کے بچوں کو مفت تعلیم دیتے تین کلومیٹر کا فاصلہ طئھ کرکے اسکول جاتے، شام میں عصر سے عشاء تک مفت پڑھاتے، اِس وقت علامہ صاحب کی ایک لاکھ تیس ہزار تنخواہ ہوگی ہر ماہ ستر ہزار غریب بچوں کے لیے مختص کیے ہوئے ہیں باقی 60 ہزار اپنے گھر پر خرچہ کرتے ہیں۔

استاد عبد الواحد درس بھی کسی تعارف کے محتاج نہیں، ان کی بچی کا انتقال ہوگیا، شام میں تدفین تھی دوسرے روز اپنے والد کو تعزیت وصول کرنے کے لئے بٹھا کر خود اسکول پہنچ گئے۔

سائیں جمن گجو صاحب جو فارغ بیٹھنا عیب سمجھتے تھے اپنے فری پیریڈ میں کلاسز کا چکر لگاتے جو کلاس خالی دیکھتے پڑھانے لگ جاتے۔

ایسے گِنے چُنے انسان ہیں جو آج بھی اس پیشے کا نام روشن کیے آ رہے ہیں ورنہ ننانوے فیصد گھوسٹ اور کیریکٹر لیس ہیں۔

جو اولاد مثل، بچوں کو بائیک پر لے کر ہوٹلنگ کروائیں، اپنا نمبر دے کر Sexting کریں، بچوں پر بری نظر رکھیں، ڈیوٹی کے دوران نیٹ کا استعمال کریں، اگر کوئی ان حرکتوں سے بچا ہوا ہے تو کلاس میں نہیں پڑھائے گا شام کو اپنے کوچنگ سینٹر پر داخلہ کا مشورہ دیگا اور یوں ڈیڑھ لاکھ ملکی خزانے سے حرام کے لے کر شام میں اک لاکھ کمائے گا اور رات دوستوں کے ساتھ بیٹھ کر حکمرانوں کی کرپشن پر تبصرہ کریگا۔

کچھ تو ایسے ہیرے ہیں جو مارک شیٹس، ایڈمیشن سلپ، پاس سرثیفکیٹ یا اٹیسٹ کے دس بیس پچاس سو روپے بچوں سے لے کر گٹکا پان خریدیں گے۔ بخدا آپ کو ہر طرف ایسے ہی کردار نظر آئیں گے سواء چند افراد کے۔

اور مطالبے ہماری تنخواہ بڑھاؤ، فلاں فلاں مراعات دو، اس صوبے میں زیادہ پیکج ہمارا کم ہے، فلاں محکمہ کے Peon کی تنخواہ ہمارے برابر یے۔

جناب اعلی، بھلا دوسرے صوبوں کے برابر کام بھی کر کے دکھائیں، کبھی یہ مطالبہ کیا کہ ہم اس ملک کے باشندے ہیں ہم بھی ملک کا دفاع کرنا چاہتے ہیں، موسم گرما کی چھٹیوں میں ہمیں ٹریننگ دے کر ایل او سی پر بھیجا جائے، ہم وطن کا دفاع کریں گے۔ بیس سال کا زوہیب سترہ ہزار کی سیلری پر سیاچن جا سکتا ہے آپ گھر بیٹھے ایک لاکھ سترہ ہزار لینے کے باوجود بھی رو رہے ہو۔

ڈاکٹر اسٹرائیک کریں، ہاتھ ڈالا جائے تو فوراً کہا جاتا ہے مسیحاؤں پر ظلم۔

نرسز کے بیجا مطالبات نہ مانے جائیں تو کہا جائے صحابیات کی سنت پر عمل کر کے مریضوں کی دیکھ بھال کرنے والیوں کے ساتھ نا انصافی ہو رہی ہے۔

استاد بلیک میل کریں روکا جائے تو کہا جاتا ہے پیغمبری پیشہ والوں پر ظلم کے پہاڑ گرائے گئے۔

بھئی اساتذہ کو اسکول ٹائمنگ میں کلاس میں ہونا چاہیے یا کراچی کی سڑکوں پر؟

اور جو ایماندار استاد ہیں وہ سڑکوں پر نہیں، کلاسز میں پڑھاتے نظر آئیں گے۔

یہ جو یونین کے لیڈران ہیں یہ سب سے بڑی بیماری ہیں، کیا حکومت ہمیشہ ایسے گھٹنے ٹیکتی رہے گی؟

ارباب غلام رحیم آج یاد آ رہے ہیں مجال تھی کوئی باہر نکلے، کوئی مطالبہ کرے سڑکیں بند کرے،

افسوس کے ساتھ لکھنا پڑتا کہ کچھ انسان واقعی باتوں سے نہیں مانتے ہیں جو سوا لاکھ تنخواہ پر راضی نہیں وہ احتجاجاً استعیفا دے دیں۔

پرائیویٹ اسکولز میں دس ہزار پر بھی پڑھا رہے ہیں ان کے گھر کا چولہا بھی جل رہا ہے ان اساتذہ کی پرسنیلٹی اور اخلاق کو دیکھیں، ان سے سو گنا بہتر ہیں

سید مراد علی شاہ صاحب خدارا اب بہت ہوچکا، یہ خزانہ قوم کی امانت ہے کسی کی بلیک میلنگ پر قوم کے خزانے کو نقصان مت پہنچانا۔

ہمارا تعلیمی نظام اسی کی دہائی سے مسلسل زوال کا شکار ہے، اگر اصلاح نہیں لاسکتے ہو تو ان مگرمچھوں کا پیٹ بھرنے کے لئے ننگی بھوکی عوام کا پیٹ مت چیریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).