چھ فٹ کا بیڈ اور میلوں کی دوری


ہلکی سی آہٹ پر ثانیہ کی آنکھ کھل گئی۔ ثاقب کمرے میں آیا تھا۔ ثانیہ نے دل ہی دل میں خود کو ملامت کی۔ اس کی آنکھ لگ گئی تھی۔ حالاں کہ وہ شام سات بجے سے کھانا بنا کر اپنے میاں کا انتظار کر رہی تھی۔ ایک دو بار سوچا کہ فون کر لے پھر یاد آیا کہ دو دن پہلے فون کرنے پر ثاقب بہت ناراض ہوا تھا۔ اس نے کہا تھا کہ اسے کام کے وقت ڈسٹرب کیا جانا بالکل بھی پسند نہیں۔ شاید اس کا کہنا ٹھیک بھی تھا۔ نیا نیا بزنس تھا اور وہ پوری تندہی سے بزنس میں قدم جمانے کی کوششیں کر رہا تھا۔

ثانیہ ایسا کوئی خطرہ مول نہیں لینا چاہتی تھی جس کی وجہ سے ثاقب کا موڈ خراب ہو اور پھر اگلا دن بھی پھیکا اور بور گزرے۔ گھر میں ملازم موجود تھا لیکن ثانیہ کی خواہش تھی کہ وہ اپنے ہاتھوں سے ثاقب کے لئے کھانا بنائے۔ شاید اس نے کہیں سے سنا تھا کہ مرد کے دل کا راستا معدے سے ہو کر گزرتا ہے۔ ابھی اس کی شادی کو دن ہی کتنے ہوئے تھے۔ ایک مہینہ ہی تو ہوا تھا۔ ابھی تو وہ ایک دوسرے کو ٹھیک سے جان بھی نہیں سکے تھے۔

ارینجڈ میرج بھی سسپنس سے بھرپور ہوتی ہے۔ خاص طور پر ایسی صورت میں جب دو انجان خاندانوں کے دو فرد شادی کے بندھن میں بندھ جائیں۔ ہر روز اپنے جیون ساتھی کے بارے میں نیا انکشاف ہوتا ہے۔ کبھی یہ انکشافات بڑے خوشگوار ہوتے ہیں اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ یہ انکشافات دل پر زخم لگاتے ہیں۔ خیر ثانیہ کا مسئلہ صرف ایک تھا اور وہ تھی دلدوز تنہائی۔ ثاقب کے گھر میں اس کے ماں باپ تھے لیکن ان کی اپنی الگ دنیا تھی۔ اس کے سسر کو پائپ پینے، کتابیں پڑھنے اور اپنے دوستوں کے ساتھ وقت گزارنے کے سوا کسی چیز میں دلچسپی نہیں تھی اور اس کی ساس ٹی وی سیریلز کی دنیا سے باہر آنے کو تیار نہیں تھی۔

سرِ شام یہ سلسلہ شروع ہو کر رات گئے کب ختم ہوتا تھا اس کا ثانیہ کو علم نہیں تھا۔ ایک دو بار جب وہ اپنی ساس کے پاس جا کر بیٹھی تو انہیں بہت خوشی ہوئی پھر انہوں نے ڈرامے کا مختصر تعارف کرا کے اسے ٹی وی کی طرف متوجہ کیا۔ درمیان میں ثانیہ نے کچھ بولنے کی کوشش کی تو انہوں نے فوراً ہونٹوں پر انگلی رکھ کر خاموش رہنے کا اشارہ کیا اور ڈرامے میں گم ہو گئیں۔ ثانیہ نے عافیت اسی میں سمجھی کہ وہ اپنے کمرے میں آ جائے۔ اسے ڈراموں میں رتی بھر دلچسپی نہیں تھی۔

آج بھی اس نے کھانا تیار کرنے کے بعد وقت گزارنے کی کوشش میں کئی تدابیر اختیار کیں۔ ایک دو رسائل کا مطالعہ کرنے کی کوشش کی، اپنی ساس کے پاس جا کر بیٹھی، اپنے سسر کو چائے دینے گئی تو وہ بھی پائپ سے دھواں اڑاتے ہوئے ایک موٹی سی کتاب کا مطالعہ کر رہے تھے۔ بمشکل انہوں نے نظر ہٹا کر اس کا شکریہ ادا کیا۔ ثانیہ اپنے کمرے میں آ کر ٹی وی آن کر کے بیٹھ گئی لیکن کچھ دیکھنے کے بجائے بس سوچتی رہی اور پھر نہ جانے کب اس کی آنکھ لگ گئی۔ اب آہٹ سنی تو ثاقب کو دیکھا۔

ثاقب نے رسمی سے انداز میں اس کا حال پوچھا۔
”میں آپ کے لئے کھانا لگاؤں؟ “ اس نے جلدی سے کہا۔

”نہیں میں کھانا کھا کر آیا ہوں۔ ویسے تم نے کھانا ہو تو کھا لو اور پلیز میری فکر مت کیا کرو۔ آج کل کام زیادہ ہے میں دیر سے آیا کروں گا۔ ابھی وقت دیکھو ساڑھے گیارہ بجے ہیں۔ “ ثاقب نے نرمی سے کہا۔

ثانیہ کی بھوک مر چکی تھی۔ کپڑے بدل کر ثاقب بیڈ کے کنارے پر لیٹ گیا۔ دوسرے کنارے پر لیٹی ثانیہ سوچ رہی تھی کہ شاید ثاقب اس سے کوئی بات کرے گا لیکن ان دونوں کے درمیان خاموشی سانس لیتی رہی۔ پھر جب ثانیہ نے ثاقب کو آواز دی تو جواب نہ پاکر وہ سمجھ گئی کہ آج بھی وہ گہری نیند میں ڈوب چکا ہے۔ ثانیہ ایک گہری سانس لے کر رہ گئی۔ وہ سوچنے لگی۔ سوچنے کے لئے اس کے پاس وقت کی کوئی کمی نہ تھی۔

ایسا نہیں تھا کہ ثاقب کا سلوک اس کے ساتھ اچھا نہ ہو۔ وہ ہمیشہ اس سے اچھے انداز میں بات کرتا تھا۔ وہ کسی چیز کی فرمائش کرتی تو وہ اس کے لئے وہ چیز بھی فوراً خرید لیتا تھا۔ وہ جب کہتی تھی اسے میکے بھی چھوڑ آتا تھا۔ اس کے بعد کبھی جد واپس آنے کے لئے فون تک نہیں کرتا تھا۔ ثانیہ کا خیال تھا کہ اگر وہ برسوں بھی میکے میں بیٹھی رہے تو شاید ثاقب کو پھر بھی کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ وہ تو یہ سوچا کرتی تھی کہ ثاقب نے اس سے شادی کی کیوں تھی؟ بظاہر ایسی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی تھی۔

وقت میں بھی ایک خاصیت بہت اچھی ہے کہ یہ رکتا نہیں ہے۔ سو وقت گزرا۔ دن مہینے سال گزرتے چلے گئے۔ پانچ سال میں کئی تبدیلیاں آ گئی تھیں۔ اس کے سسر یہ فانی دنیا چھوڑ گئے۔ وہ ایک کنال کے گھر سے دو کنال کی کوٹھی میں منتقل ہو گئے جو شہر کے بہترین علاقے میں تھی۔ ساس جو پہلے شام ہی سے ٹی وی دیکھنا شروع کرتی تھیں اب صبح کے مارننگ شو سے رات گئے تک ٹی وی میں ہی گم رہنے لگی تھیں۔ اگر کوئی چیز نہیں بدلی تھی تو وہ تھی چھ فٹ کے بیڈ پر ثاقب اور ثانیہ کے درمیان میلوں کی دوری۔

وہ آج بھی ایک دوسرے کے لئے اتنے ہی اجنبی تھے جتنے شادی کے پہلے روز۔ ہاں کبھی کبھی ثاقب کسی جذبے سے مغلوب ہو کر یا کسی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے اس کے قریب ضرور آتا تھا لیکن قربت کے ان لمحات میں ثانیہ ہر پل اور ہرلمحے یہی محسوس کرتی تھی جیسے وہ ایک اجنبی شخص ہے۔

قدرت کی طرف سے ایک اور کمی اس کی قسمت میں لکھی تھی۔ وہ برسوں بیت جانے کے باوجود اولاد سے محروم تھی۔ اسے اس کمی کا بارہا احساس ہوتا تھا لیکن دوسری طرف ثاقب نے کبھی کسی حسرت، پریشانی یا آرزو کا اظہار نہیں کیا تھا۔ البتہ کئی بار اس نے اپنے بزنس کی کامیابیوں سے اسے ضرور آگاہ کیا تھا مگر ثانیہ کو اس میں کوئی دلچسپی نہ تھی۔

پھر ثانیہ نے ایک فیصلہ کیا کہ وہ ان فاصلوں کو مٹا کر رہے گی۔ ثاقب چاہے یا نہ چاہے لیکن وہ اسے اپنی طرف متوجہ کر کے رہے گی۔ آخر اس میں کیا کمی تھی۔ پانچ سال گزرنے کے باوجود وہ آج بھی متناسب جسم کی مالک تھی۔ رنگت گوری تھی اور خدو خال دلکش تھے۔ دنیا کے معیار کے مطابق اے خوبصورت کہا جا سکتا تھا پھر ثاقب اس سے دور کیوں تھا۔

ثانیہ کی گرم جوشی نے پہلے پہل تو ثاقب کو حیران کیا لیکن چند ہفتوں کے بعد بیزاری نے اسے لپیٹ میں لے لیا۔ دو تین بار اس نے ثانیہ کو جھڑک بھی دیا۔ ہتک کے احساس نے ثانیہ کو پسپائی پر مجبور کر دیا۔ وہ اس محاذ پر ایک بار پھر ناکام ہو چکی تھی۔ ایک بار پھر پرانی صورتِ حال لوٹ آئی یعنی ان دونوں کے درمیان میلوں کے فاصلے۔

پھر یوں ہوا کہ ثاقب نے راتوں کو غائب رہنا بھی شروع کر دیا۔ ثانیہ نے پوچھا تو اس نے بتایا کہ بزنس بڑھ رہا ہے اور اب کام بہت زیادہ ہوتا ہے۔ اسے اکثر باہر رہنا پڑے گا۔ ثانیہ کو زیادہ فرق محسوس نہ ہوا وہ گھر میں رہ کر کب اس کے پاس ہوتا تھا۔ لیکن پھر ایک عجیب واقعہ ہوا۔

ثانیہ کی طبیعت کچھ ٹھیک نہیں تھی۔ سہ پہر کا وقت تھا۔ اس نے سوچا بہتر ہے ڈاکٹر سے مشورہ کر لیا جائے۔ چناں چہ وہ ڈرائیور کے ساتھ ہاسپٹل پہنچی اور ڈاکٹر ثمینہ کے کمرے میں چلی گئی۔ وہ شادی سے پہلے بھی ضرورت کے وقت ڈاکٹر ثمینہ کے پاس ہی آیا کرتی تھی۔ وہ اچھی طرح اسے جانتی تھیں۔ ڈاکٹر کے پاس ایک اور لڑکی موجود تھی۔ جب ثانیہ کمرے میں داخل ہوئی اس وقت ڈاکٹر ثمینہ اس لڑکی کو مبارکباد دے رہی تھیں۔

لڑکی کی خوشی دیدنی تھی۔ ”ڈاکٹر صاحبہ میرے شوہر کو مت بتائیے گا۔ میں یہ خوشی کی خبر انہیں خود دوں گی۔ “ لڑکی نے درخواست کی۔

”آپ فکر نہ کریں۔ میں انہیں کچھ نہیں بتاؤں گی۔ “ ڈاکٹر نے ہنستے ہوئے کہا۔ پھر ان کی نظر ثانیہ پر پڑی۔ ”آؤ ثانیہ بڑی مدت بعد آئی ہو، کیا حال ہے؟ “ ڈاکٹر ثمینہ نے خوشگوار لہجے میں پوچھا۔ بس آپ سے کچھ مشورہ کرنا تھا۔ ثانیہ نے ان کے سامنے بیٹھتے ہوئے کہا پھر اس لڑکی کی طرف دیکھا شاید وہ اس کے سامنے بات نہیں کرنا چاہتی تھی۔ اس لڑکی نے بھی یہ بات محسوس کر لی تھی۔

”میں باہر بیٹھتی ہوں ویسے بھی میرے میاں آنے والے ہیں۔ “ اس لڑکی نے فوراً کہا۔ اس سے پہلے کہ وہ اٹھتی کسی کے قدموں کی چاپ سنائی دی۔ ”لیجئیے وہ آ گئے۔ “ لڑکی نے خوش ہو کر کہا۔ نہ جانے کیوں ثانیہ کا دل دھڑکا اس نے مڑ کر دیکھا۔ ثاقب اس کے سامنے کھڑا تھا۔ وہ جیسے پانچوں حواس کھو بیٹھی۔ وہ لڑکی ثاقب سے خوشی میں نہ جانے کیا کہہ رہی تھی مگر ثانیہ کو کچھ سنائی نہیں دے رہا تھا۔ وہ پتھر کے بت کی طرح ساکت تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).