بکریاں، کٹے، طوطے اور بطخیں


ایک بس میں ایک عورت اپنے ننھے منے سے بیٹے کے ساتھ سفر کر رہی تھی، اس کے پاس ایک چھوٹی سی کٹوری میں حلوہ تھا۔ وہ تھوڑا سا حلوہ ایک چمچ پر نکالتی اور اپنے بیٹے سے کہتی، کھا لے بیٹا کھا لے، نہی تو وہ دیکھو جو پیچھے والی سیٹ پر مولوی صاحب بیٹھے ہیں، میں یہ حلوہ ان کو کھلا دوں گی۔ بچہ ماں کی بات ان سنی کر کے کھڑکی سے گزرنے والے نظاروں کی طرف متوجہ ہو جاتا۔ جب چار پانچ بار وہ خاتون یہ دھمکی دے چکیں، تو آخر کار مولوی صاحب سے رہا نہ گیا، وہ خفا ہو کر بولے، مائی حلوہ دینا ہے تو اب دے دو، نہی تو میں نے تو دو سٹاپ پیچھے ہی اتر جانا تھا۔

ہم بھی حلوے کی آس میں نئے پاکستان کی ٹرک کی بتی کے پیچے لگ کر یہاں تو چلے آئے ہیں، اگر پتا ہوتا کہ یہ حلوہ ہمارے نصیب میں نہی تو ہم بھی دو سٹاپ پہلے ہی اس وقت رک جاتے جب آپ نے کٹے کی رسی پکڑائی تھی، اور انڈوں کی ٹوکری سر پر رکھ ہم شیخ چلی کی طرح دیسی مرغیوں کے پورے مرغی خانے کے مالک بننے کے خواب سجائے خراماں خراماں چلتے رہے۔ اب لگتا ہے آپ نے اب تک صرف گندے انڈے ہی اکٹھے کیے ہیں، جو بدبو تو دے سکتے ہیں، بچے نہیں۔ آپ اپنے آس پاس پورے ملک کا سیاسی کچرا اکٹھا کر کے کوئی چمتکار نہیں دکھا سکتے آپ نے ثابت کیا ہے کہ آپ کے پاس کوئی ٹیم نہیں تھی۔

آپ کے وسیم اکرم مسلسل نو اور وائیڈ بالیں پھینک رہے ہیں۔ اپنی تنخواہ اور مراعات چھ گنا بڑھوانے کا بل پاس ہونے دیا، لیکن کسانوں کی آنے والی فصل گندم کے دام ایک روپیہ نہیں بڑھنے دیے۔ اب آپ نے کٹوں کو لات مار کر ہمیں بکری کا کان پکڑا دیا ہے۔ نہ جانے کس نابغے نے آپ کے کان میں یہ لغو بات ڈال دی ہے، کہ ہم اور ہمارے بچے پڑوسیوں کے باپو گاندھی جی کی طرح بکری کے دودھ اور دہی کے رسیا ہیں۔ سو بکریوں کا دودھ پی کر مست پڑے رہیں گے۔

دو مہینے پہلے آپ نے کٹوں اور مرغیوں کی فارمنگ کا مژدہ سنایا تھا، اب آپ نے بکریاں چروانے پر لگا دیا۔ اس سے پہلے آپ نے خیبر پختونخواہ میں گدھا پروری کے ذریعے معیشیت کی کایا پلٹ دینے کا دعویٰ کیا۔ ابھی کافی سارے جانور باقی ہیں۔ امید ہے اگلے دو تین سال میں ہر دو چار مہینے بعد آپ اونٹ، گھوڑے، طوطے اور بطخیں پالنے کی سکیمیں لوگوں کے سامنے لاتے رہیں گے۔

جناب عالی! پاور پوائینٹ پر دی گئی پریزینٹیشن اور حقیقی صورتحال میں بہت فرق ہوتا ہے۔ اس وقت آپ گھاگ بیوروکریسی اور نکمے مشیروں اور وزیروں کے گھیرے میں آ چکے ہیں۔ آپ کو جو پرچی تھمائی جاتی ہے آپ پر جوش ہو کر وہ پڑھ دیتے ہیں۔ آپ کبھی خود گاؤں دیہات گئے ہیں؟ بکریاں اور کٹے پالنے کے لئے زمین کی بھی ضرورت ہوتی ہے، جس پر ان کا چارہ کاشت ہو سکے۔ آپ کو معلوم ہے، وہاں کتنے لوگوں کے پاس زمین ہے؟ اگر کسی کے پاس ہے تواس کے پاس اس کو کاشت کرنے کی سکت بھی ہے؟

یہاں کاشت کے قابل زمین کا مالک ہونا تو دور کی بات ہے، لوگوں کے پاس تو سر چھپا۔ نے کو چھت تک نہیں، اور آپ کے پچاس لاکھ گھر سارے شہروں میں بنیں گے۔ دیہی سندھ میں سندھ رورل سپورٹ پروگرام کے تحت حکومت سندھ کے تعاون سے ایک غیر سرکاری تنظیم ایک ایک لاکھ روپے میں غریبوں کو سستے گھر بنا کر دے رہی ہے۔ گاؤں میں جو تنکوں کی جھونپڑیوں میں سسک سسک کر جی رہے ہیں، ان کے لئے تو ایک کمرہ، ایک کچن اور ایک ٹوائلٹ ہی مکمل گھر ہے۔

اس طرح کے گھروں پر دو سے ڈھائی لاکھ خرچہ آئے گا۔ آپ صرف ان کے گھر پکے کروا دیجیے۔ اس طرح کے مستحق لوگ جنوبی پنجاب، چولستان، سندھ، بلوچستان اور کے پی کے میں بہت ہیں۔ وہ آپ کو دعائیں دیں گے۔ آپ کا صحت انصاف کارڈ پروگرام صرف ان کو ملے گا جو بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت رجسٹرڈ ہیں۔ آپ نے کبھی پتا کرنے کی کوشش کی کہ کتنے مستحق لوگ اس پروگرام کے تحت رجسٹرڈ ہیں، اور کتنے سیاسی وابستگیوں کی بنیاد پر۔

آپ نے کبھی دوبارہ مقامی حکومتوں کے قیام کا نام لیا ہے؟ یا کوئی کام ہو رہا ہے؟ آپ کے معاشی جادوگر جناب اسد عمر نے اب تک کیا کارنامہ سرانجام دیا ہے، سوائے روپے کو بے قدر کرنے کے اور ضروریات زندگی مہنگی کرنے کے۔ دوائیوں کے دام بڑھ گئے ہیں۔ رشوت کے ریٹ دگنے ہو گئے ہیں۔ لوگوں کے روزگار جا رہے ہیں۔ اب آپ نے کراچی کے ساحل کے قریب سے تیل نکلنے کی خوشخبری سنا دی ہے۔ آپ سے پہلے اس طرح کی نوسربازی چنیوٹ سے لوہے اور سونے کے ذخائر ملنے کے نام پر کی گئی تھی۔

جب تک کراچی والا تیل نکلے گا اس سے پہلے آپ اور آپ کے معاشی جادو گر بلکہ ”وچ کرافٹ“ لوگوں کا تیل نکال کر کام چلاتے رہیے۔ جب تک کٹے پل کر جوان نہ ہوں، آپ روز ایک نیا کٹا کھول دیا کریں، اور اڑیلو کٹوں کی مدد سے انقلاب لانے کے خواب دکھاتے رہیے۔ جب تک دیسی مرغیاں انڈے بچے دینا شروع نہ کریں، گندے انڈوں سے کام چلائیے۔ اس دوران عوام بیشک بھوکی بکریوں کی طرح منمناتے رہیں، وہ جائیں بھاڑ میں، آپ اپنی کامیابیوں کے بکرے بلاتے رہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).