بچوں کی معالج خصوصی اور انسانی حقوق کی علمبردار: ڈاکٹر حبیبہ حسن


وہ 1978 / 79 میں جنرل ضیا الحق کی آمریت کا سیاہ دور تھا، کہ جب صحافیوں پہ کوڑے برسانے کی گھناؤنی روش کا آغاز ہوا۔ تاہم تمام تر زیادتیوں کے باوجود خواتین محاذ ِعمل کی جانب سے محنت کش خواتین کی جدوجہد کی بقا کے لئے کراچی سے رسالہ ”آدھی دنیا“ پوری جراتمندی سے ہر ماہ بڑے اہتمام سے شائع ہو رہا تھا۔ رسالہ کی ادارت مہناز رحمن (جو پاکستان میں حقوقِ انسانی کے حوالے سے بڑا نام ہیں ) اور لالہ رخ حسین مرحومہ جو مشہور، نڈر اور جراتمند صحافی تھیں، کے سپرد تھیں۔

نسرین زہرہ مصورہ کے طور پر رسالہ سے وابستہ تھیں۔ نسرین بھی مشہورہیومین ایکٹیوسٹ ہیں۔ پھر جب کسی وجہ سے مہناز رسالہ سے وابستہ نہ رہ سکیں تونائب مدیرہ کی ذمہ داری مجھے سونپ دی گئی۔ اس زمانے میں میرے ذمہ مضامین کا انگریزی سے اردو ترجمہ بھی شامل تھا۔ ڈاکٹر حبیبہ حسن رسالے کے لئے باقاعدگی سے بچوں اور عورتوں کی صحت کے حوالے سے انگریزی میں اپنا مضمون ضرور دیتیں وہ نہ صرف ”آدھی دنیا“ میں پوری معاونت کرتیں بلکہ آمریت کے خلاف نکلنے والے رسالہ ”پرچم“ میں بھی چھپواتی تھیں۔

ان کا ظاہری حسن و کشش تو متاثر کن تھا ہی لیکن حوصلہ اور جراتمندی بھی کمال کی تھی۔ گذشتہ چار دھائیوں سے ڈاکٹر حبیبہ حسن نے حقوق انسانی کی بقا کے لئے اپنے آپ کو متحرک اور فعال رکھا ہوا ہے۔ بچوں کی معالج اور میڈیکل اسکول میں تدریس کے علاوہ وہ کئی اہم منصوبوں کی بانی ہیں اور وہ پہلی پاکستانی ہیں کہ جنہوں نے عالمی سطح پر مختلف فورمز بشمول اقوام متحدہ میں عالمی حقوق کے ادارے ایمنیسٹی انٹرنیشنل (AMNESTY International) کی نمائندگی کی ہے۔

اس کے علاوہ مختلف تنظیموں کی بورڈ ممبر ہیں۔ مثلا ہیومین رائٹس ایجوکیشن پروگرام (Human Rights Education Program)، پیس ایجوکیشن (Peace Education) کے علاوہ سندھ میں عورتوں کی تحفظ گاہ۔ ”پناہ“ (PANAH) کی بانی ہیں کہ جہاں خواتین کو گھریلو تشدد، ناموس کے نام پر قتل، کم عمری کی شادی، زنا اور جنسی زیادتی سے تحفظ اور قانونی سہارا ملتا ہے۔ نیز سنٹرل جیل میں عورتوں اور بچوں کے لئے ڈسپنسری کے قیام کے علاوہ عورتوں اور قیدیوں کو انصاف کے حصول کی غرض سے لیگل ایڈ سوسائٹی کا قیام بھی ڈاکٹر حبیبہ کا اہم کارنامہ ہے۔

تاہم ان کا ایک کام جو اہم ہونے کے ساتھ ساتھ پاکستان میں اپنی نوعیت کا ابتدائی منصوبہ ہے، وہ ذہنی طور پہ معذور بچوں کی فلاح وبہبود کے حوالے سے ہے۔ پاکستان میں معذور افراد کے ساتھ جس قسم کا رویہ رکھا جاتا ہے اس کو مد نظر رکھتے ہوئے ڈاکٹر حبیبہ نے تین اداروں کا اجرا کیا۔ جو خاص کر بچوں کے لئے ہیں۔ 1۔ ایسوسی ایشن فار چلڈرن وڈ ایموشنل اینڈ لرننگ ڈس ایبیلٹیACELP۔ ۔ اس ادارے کا قیام 1975 میں رکھا گیا۔

2۔ الامید ری ہبلیٹیشن ایسوسی ایشن فارسیر برل پالسیAURA۔ ۔ اس ادارے کا قیام 1989 میں عمل میں آیا۔ 3۔ اسپیچ اینڈ ہیرنگ ایسوسی ایشن آف پاکستانSHAPپچھلے دنوں ہم نے ڈاکٹر حبیبہ حسن سے ان کی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں اور کچھ ذاتی زندگی کے حوالے سے گفتگو کی جو آپ کی نذر ہے۔

س 1 :ڈاکٹر حبیبہ آپ کا کام انسانی حقوق اور بچوں اور عورتوں کی فلاح وبہبود کے حوالے سے آپ کی کاوشیں قابل تحسین ہیں۔ ان کی تفصیل میں جانے سے پہلے آپ کچھ اپنے خاندانی اور تعلیمی پس منظر کے بابت کچھ فرمائیں؟

ج: میری پیدائش بریلی، یو پی، ہندوستان کی ہے۔ جہاں میرے والدسید قدیر حسن انڈین سروے ڈپارٹمنٹ سے وابستہ تھے۔ تقسیم کے بعد انہوں نے پاکستان کے لئے آپٹ opt (منتخب) کیا۔ اور مری میں ملازمت کا آغاز کیا۔ وہاں میری ابتدائی تعلیم پریزنٹیشن کونونٹ اسکول میں ہوئی۔ پھر میں نے کوئٹہ کے سینٹ جوزف اسکول سے سینئیر کیمرج اور انٹر، کراچی سینٹ جوزف کالج سے پاس کیا۔ ڈاؤمیڈیکل کالج سے 1967 میں گریجویشن کی۔ یہ پانچ سال جو میں نے ڈاؤ میڈیکل میں گزارے بہت خوشگوار تھے کیونکہ مشنری اسکولز نے مجھے باہر کی دنیا سے اتنا آشنا نہیں کیا تھا۔

ڈاؤ میڈیکل میں میرا تعلق طلبا کی تنظیم نیشنل سٹوڈنٹ فیڈریشن (NSF) سے تھا اس طرح میں قومی اور بین الاقوامی معاملات سے پوری طرح بہرہ ور تھی۔ مجھے یہ شعور پیدا ہو گیا تھا کہ کسی بھی زیادتی کے خلاف خاموش تماشائی بن کر نہیں بیٹھنا ہے بلکہ تحریک میں حصہ لینا چاہیے۔ اس وقت ہمارے کالج میں قد آور دانشور اور سیاسی شخصیات مثلا فیض احمد فیض، معراج محمد خان، مولانا بھاشانی وغیرہ آیا کرتی تھیں۔ صدر ایوب کی مخالفتوں کے باوجود بھٹو کی پہلی سیاسی میٹنگ بھی ہمارے کالج میں ہوئی۔

صدر ایوب کی طرف سے طلبا کو کالج سے نکال دینے کی دھمکی کے باوجود یہ میٹنگ کامیاب رہی۔ میرے والد کی تربیت اور بڑے بھائی حسن ناصر کی صحبت نے مجھے اصولوں پر ڈٹا رہنے کی ترغیب دی۔ جس نے مجھے حق کے لئے آواز اٹھانے کے لئے کبھی نہیں روکا۔

س 2 :آپ کے شاندار تعلیمی کیرئیر کے بعد کا سفر کیسا رہا؟

ج: 1970 میں میری شادی مظہر عباس زیدی سے ہوئی۔ جو لندن میں طویل عرصے سے مقیم تھے۔ شادی سے ایک ہفتہ پہلے میرے خاندان سے ان کی ملاقات ہوئی۔ بدقسمتی سے یہ ایک مناسب جوڑ نہیں تھا۔ بہت سی باتوں میں غلط بیانی سے کام لیا گیا۔ بہر حال اس شادی کے نتیجے میں میری بیٹی شہلا کی پیدائش 1971 ستمبر میں ہوئی۔ تین سال تک میں نے اس شادی کو نبھانے کی کوشش کی۔ 1973 میں پاکستان آنا ہوا۔ میں اس وقت چاہتی تھی کہ سوچ سکوں کہ آیا اس شادی کو جاری رکھا جائے یا ختم کر دیا جائے۔ اس سے پہلے کہ میں کوئی فیصلہ کرتی، میری زندگی کا سب سے بڑا المیہ پیش آیا۔ 1974 میں میرے بھائی حسن ناصر کو مار دیا گیا۔

ان کی عمر تیس سال کی تھی اور وہ بلوچستان کے ترقیاتی منصوبے کے اہم کام کر رہے تھے۔ اس واقعہ نے ہر چیز بدل دی۔ میں اپنے بھائی کے بہت قریب تھی۔ بالآخرمیں نے پاکستان رہنے کا فیصلہ کر لیا۔ اسی دوران بچوں کے شعبہ میں دو تعلیمی اسناد ڈی سی ایچ (DCH۔ Diploma of Child Health) اور ایم سی پی ایس (MCPS۔ Member of College of Physicians & Surgeons ) کو 1975 میں حاصل کیا۔ اورمیڈی کئیر ہسپتال، کراچی میں اپنی پریکٹس شروع کر دی۔

1976 میں طلاق کے بعد 1978 میں ڈاکٹر شمس الدین رحمت اللہ سے میری دوسری شادی ہوئی۔ اور اس شادی سے میرا بیٹا محمد رحمت اللہ ہے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4