بچوں کی معالج خصوصی اور انسانی حقوق کی علمبردار: ڈاکٹر حبیبہ حسن


س 3 : یہ تو آپ کی نجی زندگی اور تعلیمی سفر کی جھلکیاں تھیں۔ اب ہم آپ سے ان شاندار کاموں کی تفصیل جاننا چاہیں گے کہ جو آپ سالہا سال سے مسلسل انجام دے رہی ہیں۔ اس میں بچوں، عورتوں اور دوسرے شعبوں میں آپ کا گرانقدر کردار ہے۔ پہلے یہ بتائیں کہ بچوں کا معالج بننے ہی کا انتخاب کیوں کیا؟

ج:میں نے اس کو منتخب اس لئے کیا کہ بچے معصوم، قابل محبت اور بناوٹ سے پاک ہوتے ہیں۔ اور اس کے علاوہ نازک بھی بہت ہوتے ہیں۔ اور اگر ان پہ تھوڑی مگر بھرپور توجہ دی جائے تو باوجود شدید بیماری کے سرعت رفتاری سے صحت یاب بھی ہو جاتے ہیں۔ جیسے وہ دوبارہ زندہ ہو گئے ہوں۔ میرے لیے وہ لمحہ بہت تشکر کا ہوتا ہے کہ جب ایک مرتا ہوا بچہ اگلی صبح تروتازہ اور بشاش بیٹھا ہوتا ہے۔

س 4 : ڈاکٹر حبیبہ بحیثیت معالج، استاد اور سماجی کارکن آپ کے تمام رفاعی کام ہی قابل ستائش ہیں۔ لیکن معذور بچوں کے اداروں کی تشکیل کے حوالے سے آپ کا نام خاص اہمیت کا حامل ہے۔ آپ کی اس شعبہ میں توجہ کی کوئی خاص وجہ ہے؟

ج: میں نے ہمیشہ ہی ہیلن کیلر جیسے لوگوں کی دل سے قدر کی ہے کہ جنہوں نے حالات کا بہادری سے مقابلہ کیا اور عام افراد کی نسبت سماج کی بہتری میں نمایاں اور اہم کردار ادا کیا۔ ہمارے ملک میں معذور افراد کے ساتھ جو رویہ ہے وہ افسوسناک ہے۔ ایسے افراد نہ صرف معاشرے پہ بوجھ سمجھے جاتے ہیں۔

بلکہ اس سے بھی بڑھ کر وہ گناہوں کی سزا تصور کیے جاتے ہیں۔ ان کی زندگی مایوسی اور گھر کے کسی کونے میں گزرتی ہے۔ والدین بھی انہیں باہر لے جاتے ہوئے شرماتے ہیں۔ جب میں ٹریننگ کی غرض سے یو کے گئی تو مجھے معذور افراد کے لئے بنائے گئے کئی اداروں میں جانے کا موقع ملا۔ میں حیران تھی کہ انہیں حکومتی سطح پر کتنی سہولتیں فراہم کی گئی ہیں تاکہ وہ جس حد تک ہو سکے نارمل اور خودمختار زندگی گزار سکیں۔ وہاں معذور افراد کو ان کی معذوری کی بجائے اہلیت کے حوالے سے پرکھا جاتا ہے۔

گھر میں بھی ان بچوں کووالدین کی پوری توجہ اور سپورٹ ملتی ہے۔ اور معاشرہ بھی انہیں محبت اور حوصلہ افزائی سے نوازتا ہے۔ کچھ کلبوں میں ان بچوں کے دن مختص ہوتے ہیں۔ جہاں والنٹیرز (رضاکار) ان کے ساتھ وقت گزارتے ہیں۔ اس طرح والدین کو کچھ اپنے لیے بھی وقت مل جاتا ہے۔ اور بچوں کو بھی باہر نکلنے کا موقع ملتا ہے۔ ان تمام سرگرمیوں کا مقصد یہ تھا کہ معذور بچوں کو معاشرہ کا باعزت اور ذمہ دار افراد بنایا جائے۔

ان میں خود انحصاری کا جذبہ پیدا ہو۔ اور وہ اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پہ سماج کی بہتری میں برابر کے شریک ہوں۔ جو بات ان معذور افراد میں سب سے زیادہ قابل تعریف نظر آئی وہ یہ کہ کوئی بھی کسی پہ انحصار نہیں کرنا چاہتا تھا۔ ہر شعبہ میں ان کے لیے مخصوص کوٹہ مختص تھا۔ اورادارے میں کام کرنے والا عملہ انہیں ان کی کمزوریوں اور سست روی کے باوجود خوش دلی سے قبول کرتا۔ ستر کی دھائی کے اختتام پہ لندن سے واپسی پہ میرا منظم ارادہ ان معذور بچوں کی بہتری کے لئے کچھ کرنے کا تھا۔

جب میں یہاں آئی تو مجھے اندازہ ہوا کہ عام لوگوں کے علاوہ خود ڈاکٹرز بھی ان بچوں کی فلاح و بہبود میں کچھ اتنی دلچسپی نہیں رکھتے۔ کیونکہ اس میں وقت زیادہ اور پروگریس یا بہتری سست روی سے ہوتی ہے۔ ان بچوں کو بے وقعتی اور رحم کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ یہ تو جنرل ضیا الحق کے آنے کے بعد حکومت نے ان بچوں کے ادارے بنانے کے لئے فنڈز دینے شروع کیے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ جنرل ضیاء الحق کی بیٹی بھی ذہنی معذوری کا شکار تھی۔

تاہم ابھی بھی اس قسم کے اداروں کی بہت کمی ہے۔ کیونکہ تربیت یافتہ عملہ کی بھی بہت قلت ہیاور دیہی علاقوں میں تو اس قسم کی سہولت بالکل ہی ناپید ہے۔ مجھے محسوس ہوا کہ ان اداروں کی شدید ضرورت ہے۔ میں ہمیشہ ہی ان افراد کی مدد میں پیش پیش رہنا چاہتی تھی کہ جو ان اداروں میں کام کر رہے ہوں یا وہ والدین کہ جن کے بچے کسی قسم کی معذوری کا شکار ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں کہ جن کی محنت اور جانفشانی سے یہ ادارے چل رہے ہیں۔

س 5 : تو سب سے پہلے کس منصوبہ کو انجام دیا؟

ج: یہ 1976 کا زمانہ تھا کہ مجھ سے جناح ہسپتال کی دو ماہر نفسیات مہر حسن اور منور فاطمہ نے رابطہ کیا۔ اور اپنے ارادے کا اظہار کیا۔ کہ وہ ہسپتال کے باہر کسی جگہ پہ ایموشنلی (جذباتی) اورلرننگ ڈس ایبلٹی کا شکار بچوں کے لئے ادارہ بنانا چاہتے ہیں۔ وہ جگہ کہ جہاں ان کے نفسیاتی معائنہ، مشورہ اور رہنمائی اور تعلیم و تربیت کا انتظام ہوسکے۔ ابتدا میں باتھ آئی لینڈ میں واقع ایک پارسی اسکول کے احاطہ میں (اسکول کے اوقات کے بعد) ACELP (ایسوسی ایشن فار چلڈرن وڈ ایموشنل اینڈ لرننگ پرابلم) کے ادارے کا قیام عمل میں آیا۔ آج یہ ادارہ باقاعدہ اپنی عمارت میں واقع ہے۔ کہ جہاں بچوں کی اسیسمنٹ (Assessment) یامعائنہ رہنمائی اور ملازمت سے متعلق تربیتی پروگرامز ہوتے ہیں۔

س 6 :ایک ادارہ آپ نے سیربرل پولسی سے متعلق بھی شروع کیا تھا؟

ج: اس ادارہ کا نام AURA الامید ری ہیبی لیٹیشن ایسوسی ایشن (Alumeed Rehabilitation Association) ہے۔ جو 1989 میں سیربرل پولسی کے متاثر بچوں کے لئے بنایا گیا جہاں تھرپی، تعلیم اور ملازمت (ووکیشن) کی تربیت دی جاتی ہے۔ اس کی اپنی عمارت ہے۔ کہ جہاں آج سو ( 100 ) سیر برل پولسی سے متاثر بچوں کے علاوہ پچاس نارمل بچے قریبی علاقوں سے انکلیسو ایجوکیشن سیکشن میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔

س 7 : اس حوالے سے کوئی اور قابلِ ذکر کام؟

ج: میں SHAP یعنی اسپیچ اینڈ ہئیرنگ ایسوسی ایشن آف پاکستان (Speech and Hearing Association of Pakistan ) کی بانی ممبران میں سے ہوں۔ جس کی بنیاد 2000 میں ڈالی گئی۔ یہ SHAPکی کاوشوں کا نتیجہ تھا کہ کالج آف لینگویج اینڈ ہئیرنگ سائنس ( CSLHS۔ College of Speech Language & Hearing Sciences) ) کا قیام ضیا الدین ہسپتال میں عمل میں آیا۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ پاکستان کے لاکھوں بالغ اور بچوں کو اسپیچ تھرپی کی ضرورت کے باوجودیہاں کوئی ایسا کالج نہیں تھا کہ جہاں اسپیچ تھرپی کی تعلیم دی جائے۔ کالج میں اسپیج لینگویج تھرپی کا چار سالہ بیچلر ڈگری پروگرام کا آغاز 2007 میں ہوا اور اس طرح پہلا بیچ 2013 میں گریجویٹ ہوا۔ اس سے پہلے پورے پاکستان میں کل نو ( 9 ) اسپیچ تھرپسٹ تھے۔

آج اس پروگرام کی بدولت سو ( 100 ) کے قریب تربیت یافتہ تھرپسٹ ہیں جو ملک کے مختلف حصوں میں کام کر رہے ہیں۔ پچھلے سال دو سالہ ماسٹرز پروگرام کا اضافہ کیا گیا ہے۔ ہم نے سماعت کے متعلق آڈیولوجی ڈگری (Audiology Degree) کا نصاب بھی مرتب کیا ہے۔ اس طرح ان شعبوں میں صورتحال بتدریج بہتر ہو رہی ہے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4