آئیں جب الوطنی اور قومیت پرستی میں بنیادی فرق کو سمجھتے ہیں


جب آپ زمین کے کسی خاص ٹکڑے اور اُس پر رہنے والے انسانوں سے محبت کرتے ہیں، ان کی ترقی، خوشحالی اور بقاء کے لیے جدوجہد کرتے ہیں تو یہ جب الوطنی کہلاتا ہے۔ قومیت پرستی یا نیشنلزم حب الوطنی سے یکسر مختلف جذبہ ہے تاہم دونوں کو ایک ہے پیرائے میں لکھا اور سمجھا جاتا ہے۔ قومیت پرستی حب الوطنی کے برعکس اپنے لوگوں اور ملک سے محبت کی بجائے غیر اقوام اور غیر ممالک سے نفرت سکھاتی ہے۔ ہم ان دونو کیفیات کو ایک قطعی مختلف تناظر میں دیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں

ہم جہاں پیدا ہوئے وہ ہماری منتخب کی ہوئی جگہ نہیں تھی۔ ہمارا قطعی کوئی اختیار نہیں تھا کہ ہم پاکستانی یا ہندوستانی پیدا ہوتے۔ کیا یہ محض اتفاق نہیں کہ آپ پاکستان میں پیدا ہوئے تو پاکستانی کہلائے یا ہندوستان میں پیدا ہوتے تو ہندوستانی کہلاتے؟ میں اکثر سوچتا ہوں کہ میں پاکستان میں پیدا ہوا تو میری ساری وفاداریاں اور محبتیں پاکستان کے لیے مختص ہیں لیکن میرے دادا اور پردادہ کی عقیدت اور محبت تو زمین کے اس ٹکڑے کے ساتھ تھی جس کے متعلق مجھے بچپن سے نصاب میں پڑھایا اور سکھایا گیا ہے کہ زمین کا وہ ٹکڑا اور اس کے مکین میرے دشمن اور میری بقاء کے لیے خطرہ ہیں۔ ایسے کون سے عوامل ہیں جن کی بنیاد پر ہم غیر اقوام اور غیر ممالک سے نفرت کرنے لگتے ہیں بلکہ لڑنے مرنے تک کے لیے تیار رہتے ہیں

بظاہر جو ایک صورت نظر آتی ہے وہ مذاہب کا مختلف ہونا ہے۔ چونکہ میں مسلمان ہوں اور باقی اقوام سے تعلق رکھنے والے غیر مذہب کے ہیں تو اس لیے وہ میرے دشمن ہیں اور مجھے ان سے لڑتے رہنا ہے۔ یہ دلیل اتنی ہی بھونڈی ہے جتنی یہ حقیقت کہ دو ہم مذہب ریاستیں ایران اور سعودی عرب ایک دوسرے کی خیر خواہ ہیں۔ مختلف مذاہب سے تعلق رکھنا دشمنی کی وجہ کیسے ہو سکتا ہے اگرچہ مذہب کے نام پر لڑی جانے والی صلیبی جنگیں بھی حقیقت رکھتی ہیں۔

تاہم آج انسانیت کو جو مہیب خطرات لاحق ہیں وہ مذہب کی بنیاد پر پھیلی تفریق اور نفرت سے کہیں زیادہ سنگین اور مہلک ہیں۔ آج تمام قومیں نیشنلزم کی بنیاد پر دوسری قوموں کو نیست و نابود کر دینا چاہتی ہیں۔ ہم اگر اس حقیقت کو تسلیم کریں کے ہم نے اپنے ماں باپ، ان دگرگوں معاشی حالات اور جغرافیائی حدود کا انتخاب نہیں کیا جن میں ہم پیدا ہوئے تو یہ بات سمجھنا قدرے آسان ہو جائے گا کہ ہم جہاں پیدا ہوئے وہ ہماری منتخب شدہ جگہ نہیں بلکہ محض ایک اتفاق تھا۔

اس ایک خیال سے ہم قومیت پرستی کے سراب سے باہر نکل سکتے ہیں۔ ہمارے پاس ایسی کوئی وجہ نہیں کہ ہم اپنے ہی جیسی شکل و صورت، جسمانی بناوٹ اور خصوصیات کے حامل انسانوں سے اس وجہ سے نفرت کریں کہ وہ غیر قوم سے تعلق رکھتے ہیں۔ ہمیں یہ سمجھنا ہو گا کہ قومیت کی بنیاد پر لڑی جنگیوں میں اپاہج، بھوکے اور لاچار انسان اور خوراک کی کمی کا شکار بچے ہماری طرف پرامید نظروں سے دیکھ رہے ہیں

ہمارا نصاب وہ پہلی سیڑھی ہے جس پر چڑھتے ہوئے ہمارے بچوں کے ذہنوں میں قومیت پرستی کا ذہر بھر دیا جاتا ہے۔ جب ہم اپنے بچوں کو پڑھاتے ہیں کہ یہ تمہارا سکول ہے، یہ تمہارا شہر اور ملک ہے، یہ تمہارے لوگ ہیں، یہ تمہارے جنگجو ہیروز اور شاندار جنگ ذدہ ماضی ہے تو تمہیں ساری زندگی ان سب سے مجبت کرتے رہنا ہے تو اس ننھے سے ذہن میں انسانیت کی ننھی کلی پنپنے سے پہلے ہی مرجھا جاتی ہے اور قومیت پرستی اپنی تمام نفرتوں اور حشر سامانیوں کے ساتھ انگڑائی لے کر بیدار ہو جاتی ہے۔

اسی دوران کہیں وہ بچہ بڑا ہو جاتا ہے اور مرتے دم تک قومیت پرستی سے جڑا رہتا ہے۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ میں نے چھ سال کی عمر سے زمین کے اُس ٹکڑے اور اس پر رہنے والوں کو اپنا دشمن سمجھنا شروع کیا جس کا نام ہندوستان ہے حالانکہ وہاں کے رہنے والوں نے میرا کچھ نہیں بگاڑا۔ ان میں سے اکثریت تو ایسی ہے جن کی ترجیہات میں صرف دو وقت کی روٹی کمانا ہے تاکہ وہ جسم اور روح کا رشتہ برقرار رکھ سکیں۔ میں بارڈر کے دونوں طرف بسے مظلوم انسانوں کے ساتھ کھڑا ہونا چاہتا ہوں قطع نظر اس کے وہ مسلمان ہیں یا سکھ، ہندو اور عیسائی، تو کیا مجھے حب الوطنی اور قوم پرستی کے ترازو سے گزرنا ہو گا جبکہ میں ان پیمانوں کا ہی انکاری ہوں۔

قومیت پرستی کے متعلق آئن سٹائن کہتے ہیں

“Nationalism is the measles of humanity. It is infantile disease. I consider myself as a man”

قومیت پرستی انسانیت کے لیے وبائی امراض سے زیادہ مہلک ہے۔ یہ ایک بچگانہ سوچ کی عکاسی کرتی ہے۔ میں خود کو سب سے پہلے انسان سمجھتا ہوں

آئن سٹائن کا ماننا تھا کہ حد سے بڑھی حب الوطنی سے قومیت پرستی جنم لیتی جو بیماری کی طرح پھیلتی ہے اور لاکھوں انسانوں کی تباہی کا سبب بنتی ہے۔

جارج آرول نیشنلزم کے متعلق کہتے ہیں

“Nationalism is a power hunger tempered by self deception”

آج طاقتور اقوام اپنی سپرمیسی برقرار رکھنے کے لیے کمزور قوموں پر جنگ مسلط کیے ہوئے ہیں۔ وہ عراق، شام، لیبیا یا افغانستان پر امریکہ کی مسلط کی گئی جنگ ہو، ایران اور سعودی عرب کی یمن میں اپنے مفادات کی جنگ ہو، کشمیر میں بھارتی جارحیت ہو یا فلسطین میں اسرائیل کے انسانیت سوز مظالم، ہر جگہ قومیت پرستی انسانیت کی توہین کر رہی ہے

قومیت پرستی کا مرض ساری دنیا میں عام ہے تاہم اس کی شدت کہیں کم ہے تو کہیں زیادہ۔ زمین کے دوسرے خطوں میں یہ جذبہ ذرا کم ہے تاہم برصغیر میں یہ شدید نوعیت اختیار کر چکا ہے۔ نتیجہ میں تیسری جنگ عظیم انسانیت کے دروازے پر دستک دے رہی ہے جو شاید نوع انسان کے لیے آخری جنگ ثابت ہو۔ آج ہمیں اپنی مذہبی وابستگی اور جغرافیائی حد بندی سے بالاتر ہو کر ایک وسیع پیرائے میں اس معاملے کو دیکھنا ہے کہ ہم بنیادی طور پر عالمی شہری ہیں۔ ہمارا کسی ایک خطے یا جگہ سے اگر تعلق ہے تو وہ محض اتفاق ہے۔ یہ زمین ہمارا وطن ہے نا کہ زمین کے وہ ٹکڑے جن کی جغرافیائی حدود انسانی ارتقاء کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوتی رہی ہیں

ہم اس زمین کو انسانوں کے رہنے کے لیے پر امن اور خوبصورت جگہ صرف اسی صورت میں بنا سکتے ہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).