اف یہ برانڈز


تیز رفتار زندگی اور وقت کے تقاضوں نے انسان کو اس قدر الجھا کر رکھ دیا ہے کہ اب انسان کی عظمت اور وقار کا تعین برانڈز سے کیا جانے لگا ہے۔ مہنگے ترین کپڑے پہننا لوگوں کی ضرورت نہیں بلکہ مجبوری بن گئی ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے کے بیشتر افراد اپنی روایات اور اخلاقیات کو فراموش کرچکے ہیں۔ ہر کوئی خود کو خوبصورت دکھانے کی دور میں لگا ہوا ہے۔ اپنے آپ کو امیر ظاہر کرنا جیسے اعزاز کی بات بن گئی ہے۔ بڑے بزرگ اور ہمارا مذہب سمجھا سمجھا کر تھک گئے کہ انسان کی پہچان اس کے لباس سے نہیں بلکہ اس کے اخلاق سے ہوتی ہے، لیکن یہ سب باتیں اب کہیں دھندلا سی گئی ہیں۔

عقل کا تقاضا تو یہ ہے کہ انسان کا ظاہر اور باطن ایک جیسا ہو اور اسے ظاہر کرنے میں کوئی قباحت محسوس نہ کی جائے۔ اگر کوئی امیر ہے اور برانڈزکی چیزیں خریدنے کی استطاعت رکھتا ہے تو شکر کیجیے اور ان چیزوں سے لطف اندوز ہونے میں بھی کوئی برائی نہیں۔ لیکن جو لوگ مہنگی چیزیں اور برانڈز خریدنے سے قاصر ہیں تو مہربانی فرما کر اس بات کو سمجھ لیجیے اور خود کو ان چیزوں کے پیچھے خوار مت کیجئے۔ جو چیز خوشی اور آرام سے خریدی جا سکے اور آپ کے بجٹ پر اثرانداز بھی نہ ہوں اسی میں اپنی بہتری جانیے۔

آج کل کے نوجوان نہ جانے کس مٹی سے بنے ہیں جو خود کو مشکل میں ڈال کر دوسرے کو وقتی خوشی دینے کی خواہش رکھتے ہیں، جو حقیقت میں خوشی نہیں دھوکا ہوتا ہے۔ کی لوگوں کو لگتا ہے کہ وہ دوسروں کو یہ بتائیں کہ انہوں نے کس ڈیزائنر اور برانڈ کے کپڑے، جوتے یا جیولری خریدی ہے تو دوسرے خوش ہوں گے اور انہیں پسند کریں گے، اصل میں تو وہ دوسرے کو یا تو حسد میں مبتلا کر رہے ہوتے ہیں یا پریشانی میں۔ خود کو اچھا سمجھنا اور دکھانا ہر شخص کا حق ہے پر اس دوڑ میں دوسرے کو کمتر یا نیچا دکھانا غلط عمل ضرور ہے۔

اخلاقیات کی بات کی جائے تو جو کوئی بھی زندگی کی بھرپور آسائشوں اور مہنگے ترین جوڑوں اور تحفوں کی استطاعت نہیں رکھتا تو اس کے سامنے ان سب چیزوں کا تذکرہ کرنے کا جواز بھی نہیں بنتا۔ دوسرے شخص کو یہ بتانا کہ آپ نے کس جگہ سے خریداری کی ہے یا کہاں کا لباس پہنا ہوا ہے تو اس سے آپ کی کون سی دولت جڑ جائے گی، ہاں ہو سکتا ہے کہ دوسرا اپنے رب سے سوال کر بیٹھے کہ مجھے کیوں ان نعمتوں سے نہیں نوازا۔

معروف برانڈز کے مالکان جہاں اپنی دکان چمکانے میں کامیاب ہوگئے ہیں تو دوسری جانب لوگوں کو فضول خرچی کرنے کا ایک مشغلہ بھی مل گیا ہے۔ اکثر لوگوں کی زندگی میں بے سکونی آ گئی ہے کیونکہ بہت سی بیویاں اپنے شوہروں سے ان برانڈز کے کپڑے خریدنے کی ضد کرنے کی عادی ہوچکی ہیں۔ کچھ لوگ جو شروعات میں دکھاوا کرتے تھے اب ان کو اس دکھاوے کو برقرار رکھنے کے لئے مجبورا اپنی کمائی کا ایک بڑا حصہ ان بے جا چیزوں کی نذر کرنا پڑتا ہے۔

حد تو یہ ہے کہ شادی بیاہ کے موقع پر جہاں پہلے سے ہی خرچوں کی ایک لمبی فہرست موجود ہوتی ہے تو برانڈز کے کپڑے لینا اور دینا مزید پریشانی میں ڈال دیتا ہے۔ سامنے والے کی محبت کو جانچنا ہو تو یہ دیکھا جانے لگا ہے کہ آیا خریداری کس جگہ سے کی گئی ہے اور پھر ایک فضول سا مقابلہ شروع ہو جاتا ہے جس کی زد میں سب سے زیادہ گھر کے کماؤ افراد آتے ہیں جن کو یہ کہہ کر دلاسہ دیا جاتا ہے کہ اگر یہ سب نہ کیا تو لوگ کیا کہیں گے جبکہ عقل مندی اسی میں ہے کہ خود کو مشکل میں ڈالنے کی جگہ تمام کاموں کو خوش اسلوبی سے کیا جائے۔

ہر انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے اخلاق اور تعلیم کو سب سے زیادہ ترجیح دے اور ان ہی چیزوں میں مقابلہ کرے تاکہ معاشرے میں اچھائی کو فروغ حاصل ہو نہ کہ برانڈز کی دوڑ میں گھن چکر کر بنا جائے۔ اصل بات پسند کی ہوتی ہے جناب، بعض اوقات مہنگی چیز بھی اچھی نہیں لگتی اور کبھی کبھار مناسب دام میں خریدی گئی چیز بھی دل موہ لیتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).