دیسی لبرلز کو آئینہ دکھائیے


اسی کے عشرے کے وسط اور نوے کی دہائی کے اوئل میں پیدا ہونے والے بچے ّ ہمارے معاشرے کے تغیر و تبدل کے گواہ ہیں۔ پیدا ہوئے تو گلی گلی یہ نعرے کانوں میں گونجتے تھے کل روس بکھرتا دیکھا تھا اب بھارت ٹوٹتا دیکھیں گے ہم برق جہاد کے شعلوں سے سے امریکہ جلتا دیکھیں گے۔ ذرا بڑے ہوئے تو جہاد دہشت گردی میں تبدیل ہو چکا تھا اور امارات اسلامیہ آگ کے شعلوں کی لپیٹ میں تھی۔ ان بچوں کو وہ زمانہ بھی یاد ہے جب جینز پہنی لڑکی کو معاشرہ ایسی نگاہوں سے دیکھتا تھا کہ گویا زمین پھٹ کیوں نہیں جاتی اور اکا دکا شہراوں پر لگے قد آور بورڈ کے کسی اشتہار میں خاتون کا قد کاٹھ اور چہرہ نمایاں ہوتا تو اگلے دن اس کے پر کوئی دل جلا سیاہی مل دیا کرتا تھا۔ پی ٹی وی پر کالج جینز جیسا ڈرامہ شروع ہوا تو ہمیں اپنی اقدار خطرے میں نظر آنے لگیں اور اس پر پرزور احتجاج ہوا۔ استاد نصرت فتح علی خان فوت ہوئے تو ایک طبقے نے افواہ مشہور کردی کہ ان کی قبر پھٹ گئی اور زبان دراز ہو کر جسم سے لپٹی ہوئی بہت سے اہل ایمان نے دیکھی (معاذاللہ)۔

حالانکہ اُس زمانے میں شدید سردی میں آنے والے روزوں میں ہم سحر و افطار سے پہلے ان کی قوالی میری توبہ سنا کرتے تھے۔ بسنت کے موقع پر علاقے کی مسجد کے امام صاحب لاوڈ سپیکر پر امت مرحومہ سے ہندوانہ تہواروں کو ترک کرنے کی اپیل کیا کرتے تھے مگر جب ہر چھت پر لگے بوفرز میں سے بھارتی و پاکستانی گانوں کی آواز یں گونجتی اورمانجھے تیز ہوتے ہوئے دیکھتے تو گڑ گڑا کرخدا کے حضور بسنت کے دن بارش ہونے کی دعا کرتے مگر بھلا گناہگار امتوں پر ابر رحمت کب برسا کرتی ہے۔

پھر ’ہماری بد اعمالیوں‘ کے سبب معاشرہ مادر پدر آزادی کی طرف مائل ہوا تو جو کل تک ایشیا سرخ ہے کا نعرہ بلند کرتے تھے اب این جی اوز بنانے لگے اور روبل کے بجائے ڈالرز کے متلاشی ہوگئے، علاقے میں جہاں چند ایک گھروں پر ڈش انٹینا نصب تھے وہاں گھر گھر کیبل آگئی، وینڈوز 96 کے بعد کمپیوٹرز بھی عام ہونے گے اور موبائل کی شکل میں نیا فتنہ ہر ہاتھ میں نظر آنے لگا، اکابر کی گستاخی کا انجام بھی شدید ہوا کرتا ہے نتیجتاً علماء کیے اقوال زریں منبر تک رہ گئے اور کہیں کیٹ واک تو کبھی مراتھن کا اہتمام ہونے لگا۔

چادر و چار دیواری سے نکل کر بنت حوا بھی اپنے حقوق مانگنے لگی اور نئی صدی کے آغاذ سے ویلنٹائن اور ڈیٹ جیسے الفاظ بھی نوجوان نسل میں مقبول ہونے لگے۔ وقت کو اتنی تیزی سے تبدیل ہوتا دیکھ کر زمانے کی رفتار کے مطابق چلنے، معاشرے میں مثبت کردار ادا کرنے اور مخالف نظریات کا ان کی سطح پر آکر مقابلہ کرنے کے بجائے مذہبی طبقہ اپنی نرگسیت کا شکار ہو کر رہ گیا۔

نتیجتاً پندرہ بیس برس میں جو بیج بوئے گئے تھے اس کی فصل عورت مارچ کے موقع پر کٹی جب اپنا کھانا خود گرم کرو، میرا جسم میری مرضی، اکیلی آوارہ آزاد، لو بیٹھ گئی صیحح طریقے سے اور دوپٹہ پسند ہے تو آنکھوں پر باندھ لو کے ’زہر آلود‘ نعرے پورے پاکستان میں گونجے۔

لبرل طبقے کے سیلاب کے سامنے مذہبی طبقہ بے بسی کی تصویر بنے اپنی مسندوں تک محدود ہوکر رہ گیا اور زبانی تبرا اور فتوؤں سے کام چلانے کی کوشش کی۔ گو کہ سیکولرازم پر کاری ضرب لگانے کا الجماء الاسلامیہ، شکری مصطفی، ال جہاد ٰپارٹی کا مصری ماڈل سامنے تھا۔ صدر سادات، وزیر اطلاعات صفوات الشریف اور وزہر اعظلم عاطف صدقی کے قتل اور نجیب محفوظ جیسے ادیبوں سمیت معاشرے کے روشن خیال افراد پر حملوں سے بھی آگاہ تھے مگر یہاں نیشنل ایکشن پلان بھلا چین کب لینے دیتا ہے۔

ورنہ بخدا توحید کی امانت سینوں میں پوری آب و تاب کے ساتھ موجزن تھی۔ مذہبی طبقے کو یہ یاد رکھنا ہوگا کہ نظریات کی جنگ میں میدان کارزار تبدیل ہوتے رہتے ہیں اور اب کی بار لبرل و سیکولر قوتوں نے مملکت خداداد کی سڑکوں چوراہوں پر مورچہ لگایا ہے۔ اگر آپ کی نظر میں یہ غلط ہیں تو اس کے سدباب کی سبیل کرنی ہوگی اور انہیں کاری جواب دینا ہے تو موقع ہاتھ میں ہے۔ لاہور میں ایک انسانیت سوز سانحہ ہوا ہے۔ پوش علاقے کے رہائشی نے اپنے دوستوں کے سامنے ڈانس نہ کرنے پر اپنی بیوی پر نا صرف تشدد کیا بلکہ بدبخت خاوند نے اس کے سر کے بال بھی مونڈھ دیے۔

اب چونکہ ایسا جرم کرنے والا مرد آپ کی نگاہ میں سیکولر ہے، یہ سب محبت کی شادی اور عورت مارچ کا ثمر ہے اور آپ کے وجدان کے مطابق موم بتی مافیا، ’لبڑل آنٹیاں‘ ، اور مغربی ایجنڈے کی حامل سیکولر قوتیں اس بنت حوا کو انصاف فراہم کرنے سڑکوں پر نہیں آئیں گی۔ تو کیا آپ کو بھی سانپ سونگھ گیا ہے۔ متاثرہ خاتون پر بے جا گھٹیا الزامات مت لگائیے۔ معاشرے میں اپنا مقام بلند کرنا چاہتے ہیں تو اس کی مدد کو آگے بڑھیئے اور موقع غنیمت جانئیے کیا آپ بھی اسلاف کے سنہرے ماضی کو بھلا بیٹھے ہیں جس میں خواتین کی ’عزت و آبرو‘ محفوظ تھی۔

آپ کیوں اس المناک سانحے کے خلاف میدان میں نہیں آتے؟ آپ کیوں بائیس سالہ اسما عزیز کے سر پر دست شفقت نہیں رکھتے؟ مظلوموں کی مسیحا  عاصمہ جہانگیر اس دنیا میں نہیں رہی تو کیا آپ نے فری قانونی مدد فراہم کرنے کی حکمت علمی اپنائی ہے؟ آپ کیا اپنی مذہبی تنظیموں کا وفد لے کر اس کے سر پر چادر رکھنے جائیں گے؟ اگلے جمعے مدارس کے طلباء اور خود کو انبیاء کرام (ع) کے وارث کہلانے والے اس مظلوم لڑکی کے لئے احتجاج کریں گے؟

جب فلسطین و کشمیر کی عزت مآب بیٹیوں کے حق میں احتجاج کیا جا سکتا ہے تو اس بیٹی کے لئے کیوں نہیں۔ اگر مولانا حسین احمد مدنی کے سیاسی نظریات سے اختلاف کرنے والے مشہور صحافی و کالم نگار کے خلاف متحدہ محاذ بنا کر احتجاج کیا جاسکتا ہے اور ایک غیر ملکی عالم شیخ نمر کی پھانسی کے خلاف دھرنے دیے جاسکتے ہیں تو اے محمد بن قاسم کے روحانی فرزندو، آپ لوگ کیوں اس مسلم بہن کی پکار پر لبیک نہیں کہتے۔

آئیے ہمت ہے تو اسماء کو کو انصاف دلانے کے لئے آگے بڑھئے اور ’دیسی لبرلز‘ کو آئینہ دکھائیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).