پاکستان اور بھارت غیر ذمہ دار ایٹمی طاقتیں?


گزشتہ صدی کی ساٹھ کے دہائی کی ابتدا میں ہی کیوبن میزائل بحران نے امریکہ اور سوویت یونین کو ایٹمی ہتھیاروں کی تباہکاری کے دہانے پر پہنچا دیا تھا۔ اس دوران دونوں ممالک نے پہلی بار مطلق تباہ کن موت کو اتنے قریب سے دیکھا۔

دونوں طرف اس لرزہ خیز واقعے کا اتنا اثر ہوا کہ امن بقائے باہمی پر راضی ہوتے ہوئے فوری طور پہ ایک ہاٹ لائن بنائی گئی جس سے ایٹمی حادثاتی ممکنات اور غلط فہمیوں سے بچا جاسکے اور دوسرا اہم قدم ہتھیاروں کی تخفیف کے معاہدات پر لائحہ عمل تیار کرنے کا کیا گیا۔ ان اقدامات نے ایٹمی ہتھیاروں کے متعلق چند مثبت اصول رائج کیے جس سے ایٹمی ہتھیاروں کی صلاحیت محض ایک دفاعی برتری نہ رہی بلکہ ذمہ داری بن گئی۔ ایٹمی عدم پھیلاؤ کا معاہدہ این پی ٹی اس ضمن میں ایک سنگ میل کی حیثییت رکھتا ہے۔

ان معاہدات و ضوابط کی روشنی میں ایٹمی ممالک کے درمیان براہ راست ایٹمی جنگ ہونا عملی طور پر ناممکن ہوگیا۔ تاہم اس مثبت تبدیلی کے ساتھ ایک منفی پہلو بھی ابھر کر سامنے آیا۔ یہ منفی پہلو پراکسی جنگوں کا کھیل تھا۔ سوویت یونین اور امریکہ کی کشاکش چونکہ دفاعی کے ساتھ ساتھ معاشی، سیاسی اور نظریاتی بھی تھی اس لئے محض مساویانہ دفاعی صلاحیت کاحصول امن قائم کرنے کے لئے ناکافی تھا۔ چنانچہ اس سے جنم لینے والے پراکسی جنگوں کے نظریے نے آنے والی دہائیوں میں افریقہ، لاطینی امریکہ، مڈل ایسٹ اور ایشیا کو اپنی پراکسی جنگوں میں جھونک دیا۔

اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ دونوں ممالک کو کرائے کے قاتل مل گئے جنھوں نے روایتی اسلحہ کی انڈسٹری کو بحال کر کے معاشی فوائد دیے۔ اسی کی دہائی تک پراکسی وار باقاعدہ ایک جنگی ضابطہ بن کر ریاستی پالیسیوں کا لازمی جزو بن گیا۔ یہاں تک کہ سوویت یونین مرتے وقت بھی افغانستان میں پراکسی جنگ میں مشغول تھا۔

1998 میں ایٹمی ہتھیاروں کی صلاحیت رکھنے کے اعلان کے بعد پاکستان درحقیقت انڈیا کے مقابل اپنی مظلومیت کا بیانیہ کھو چکا اب ظالم اور مظلوم میں فرق مٹ چکا تھا کیوں ایٹمی ہتھیاروں کا استعمال چاہے حملے کی صورت میں ہو یا دفاع کی صورت میں، مطلق تباہی کے سوا کچھ نہیں۔ لیکن اس کیس میں بھی مساویانہ دفاعی صلاحیت کی بنا پر امن برقرار رکھنا مشکل تھا۔ اعلان لاہور سے یوں محسوس ہونے لگا تھا کہ دونوں ممالک اس ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے میچورٹی کا ثبوت دینے لگے ہیں اور باہمی طور پر ایک مربوط لائحہ عمل تشکیل دیتے ہوئے کچھ ضوابط طے کرنے لگے ہیں۔ لیکن ایسا ممکن نہ ہو سکا۔

دونوں طرف موجود کچھ طبقات نے ایٹمی ہتھیاروں کو مسئلہ کشمیر کے حل کے تناظر میں، ان کو سجا کر رکھنے کی بجائے استعمال کرنے کا جذباتی بیانیہ عوام میں مقبول کرنا شروع کردیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ایٹمی ہتھیار سفارتی و دفاعی دباؤ کی بجائے محض ایک کھوکھلی دھمکی بن کر رہ گئے۔ ان کے استعمال کرنے کے خوف سے جنگی ہیجان پیدا کر کے رائے عامہ کے حصول کا لطف تو لیا جاتا ہے لیکن ان کو بطور دفاعی و سفارتی بلوغت کے اظہار کے لئے استعمال نہیں کیا جاتا۔ نتیجہ یہ نکلا ہے کہ عالمی برادری دو دہائیاں گزرنے کے باوجود ایٹمی ہتھیاروں کے عدم استعمال کی یقین دہانیوں پر اعتماد کرنے کو تیار ہی نہیں۔

اس بیانیے کا دوسرا بڑا نقصان پراکسی جنگوں کا خطرناک ہوجانا ہے۔ چونکہ طرفین اب کسی مکمل جنگ کے متحمل نہیں ہوسکتے اس لئے پراکسی جنگوں کا ہونا ناگزیر ٹھہرا۔ افغانستان اور کشمیر کے انتخاب کیے جاچکے۔ لیکن ایک بات جو سوویت امریکہ پراکسی جنگوں میں نہیں پائی جاتی تھی لیکن پاک بھارت معاملے میں کھلم کھلا ہے وہ پراکسی عناصر کو زیرسایہ تسلیم کرکے تحفظ فراہم کرنا ہے جس سے ان کی طرف سے کی گئی کارروائیوں کے شعلے ان ممالک تک پہنچتے ہیں اور ایٹمی جنگ کا خطرہ پیدا کردیتی ہیں۔

1998 کے بعد انڈین پارلیمنٹ حملہ، ممبئی حملہ اور اب پلوامہ حملہ کیسز کے بعد یہی کچھ دیکھنے کو ملا کہ غیر ریاستی تنظیموں نے ذمہ داریاں قبول کیں اور بھارت اس کو پاکستان کی زیرسایہ پراکسی سمجھ کر فوراً ایٹمی جنگ کا خطرہ پیدا کر بیٹھا۔ حالانکہ یہ تنظیمیں دونوں ممالک میں دہشتگرد قرار دی جاچکی ہیں۔ ان واقعات سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ پاک بھارت ایٹمی طاقتیں انتہائی غیر ذمہ دارانہ رویے کے ذریعے پوری دنیا کے امن کو داؤ پر لگا دینے کو تیار ہیں۔

ذرا سوچئے اگر بھارت، سوویت یونین طرز پہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے لگ جائے تو کیا وہ ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال سے چوکے گا۔ قریب کی مثال ہے کہ پلوامہ حملے کے جذباتی بھاشن تلے آکر بھارت نے پاکستان کی سرحدی خلاف کرڈالی۔

درحقیقت دونوں ممالک کی ایٹمی ایمپائر اتنی کمزور ہیں کہ یہ پراکسی جنگ کا بوجھ نہیں اٹھا سکتیں۔ کوئی بھی غیر ریاستی تنظیم معمولی سی شرارت سے دونوں ممالک کو ایٹمی جنگ کے دہانے پر لے جاسکتی ہیں۔ لیکن دونوں ممالک کے حکمران طبقات اس کے متعلق کوئی سنجیدہ لائحہ عمل بنانے کی بجائے مجرمانہ طور پر نظرانداز کیے جارہے ہیں۔ جس کی وجہ سے خطے میں ایٹمی ہتھیاروں کا استعمال خارج از امکان نہیں۔

ان سے بہتر سوجھ بوجھ تو ٹام کروز کے پاس ہے جس نے حال ہی میں ریلیز مشن امپاسیبل سیریز کی فلم میں اس نکتے کو اجاگر کیا کہ کیسے ایک بین الاقوامی باغی جاسوس گینگ کشمیر میں ایٹمی دھماکہ کرکے پورے خطے کو ایٹمی جنگ کی لپیٹ میں جھونک سکتے ہیں لیکن بھلا ہو ٹام کروز کا جس نے کمال بہادری سے اس کو ناکام بناڈالا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).