بس اب بہت ہو چکا


اب ہمارے مقناطیسی شخصیت کے مالک سابق کرکٹر عمران خاں کو حکومت سنبھالے نو ماہ ہو نے کو ہیں۔ ان کو دانستہ یا نادانستہ بلاول بھٹو نے سلیکٹڈ وزیر اعظم کہہ کر پکاراتو محترم خا ں صاحب نے بھی بھولے پن میں ان کی اس بات پر داددی۔ پہلے پہل ان کی الیکشن میں اس فتح پر غیر سیاسی قوتوں نے اپنی کامیابی محسوس کی لیکن اب حالات کچھ اور ہی بتا رہے ہیں۔ یہ قوتیں پچھلی ایک دہائی سے نا پسندیدہ سویلین قیادت سے مسلسل حکومت چھین لینے کی کوشش میں تھیں۔

اس کھینچا تانی سے ملک کمزور اور غیر محفوظ ہوا۔ پچھلے سال خان صاحب کے مخالفین اور غیر ملکی مبصرین نے اہل پنڈی اور ڈ ی چوک کے باسیوں پر الیکشن میں تحریک انصاف کی مدد کا خوب شور مچایا۔ درحقیقت میڈیا پر پابندی، مذہبی انتہا پسندوں کی پشت پناہی، ان کے الیکشن میں حصہ داری، سیاستدانوں پرعائدکفرو غداری کے فتاویٰ اور الیکشن سے کچھ دن پہلے انتہائی مضبوط امیدواروں کی سزاوں سے نا اہلی کے اقدامات نے دائیں بازو کے ہامی خان صاحب کی انتخابات جیتنے میں مدد کی۔ اس کے بعدوہ جیسے تیسے کر کے بھان متی کا کنبہ جوڑ کر اعلی ٰلوگوں کے زیر سایہ حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئے۔ کابینہ کے اس کنبہ میں سب سے اہم حصہ دار وہ لوگ ٹھہرے جو 1999 سے 2008 تک آمر کے زیر سایہ حکومت میں رہے۔

پاکستان میں پہلی مرتبہ دو مسلسل جمہوری حکومتیں مدت پوری کرنے میں کامیاب ہوئیں۔ یہ معجزہ سیاسی پارٹیوں کی سال ہا سال کی مذاحمتی سیاست کے ساتھ ساتھ سول سوسائٹی، وکلا اور میڈیا کے کردار کی وجہ سے ممکن ہوا۔ جمہوریت ہمیشہ عوام کی مزاحمت اور غیر ممالک کے دباؤکی وجہ سے ہی بحال نہیں ہوئی اس میں سب سے اہم رول اس وقت کے انتظامی و معاشی حالا ت کا بھی رہا ہے۔ ہر آمریت کے دور میں ملکی حالات جب اتنے خراب ہوے کہ حکمرانی ناممکن ہو گئی تو طوہاً وکرہاً سویلین لوگوں کو محدود مواقع دیے گئے۔

اس بار بھی حالات اس نہج پر پہنچ چکے تھے کہ یونیفارم تک پہننا ممکن نہ رہا تھا۔ لیکن پھر بھی مشرف صاحب جانے کو تیار نہ تھے۔ ان کا نومبر کا حکمنامہ ان کی اپنی نام نہادآزاد الیکٹڈ اسمبلی سے بھی مہر تصدیق نہ حاصل کر سکا، ا ور آنے والی اسمبلی کی تو کوئی مجبوری نہ تھی۔ اس لئے نواز شریف کو اپنی ضد اور انتخابی منشور کی مجبوری کی وجہ سے پاکستان کی تاریخ میں پہلی بارسابق فوجی چیف پر غداری کا مقدمہ درج کروانا پڑا۔ کیس چلا تو سابق ڈکٹیٹر کو اپنوں میں پناہ لینا پڑی۔ اور اس کی سزا سیاسی حکومت کو سزا مسلسل بھگتناپڑی۔ حالات سازگار نہ ہونے کی وجہ سے ٹرپل ون والوں کی براہ راست مداخلت سے تو گریز کیا گیالیکن اپنے لاڈلے کو لانے کا تجربہ کرنے کا فیصلہ ہوا۔

ان حالات میں کرشماتی، خوبصورت، طلسماتی ہیروکی قسمت بار آور ہونا شروع ہوگئی اور وہ دہائیوں سے مقبو ل کرپشن کے نعرہ پر سوار ہو کروزیر اعظم سلیکٹ ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ یہ وہی نعرہ تھا جولیاقت علی خان سے لے کر آج تک کی تمام حکومتوں کے مقدر میں لکھا جاتارہا۔ اور ہر آئین شکن کا ٹینکوں سے بھی زیادہ طاقتور ہتھیاربنا۔ پاکستان کی طرح دنیا کے دوسر ے ممالک میں بھی اسی تیشے سے سیاسی حکومتوں کا قلع قمع کیا جاتا ہے۔

ہم سے بھی زیادہ فوجی مداخلتیں جھیلنے والے ملک تھائی لینڈ کی حکومت 1991 میں اسی الزام پر توڑی گئی اورکرپشن میں بدنام منتخب حکومت کو ہٹا کرفوج نے ایک نئی سیاسی پارٹی بنا کر حکومت پر قبضہ کر لیا۔ تھائی لینڈ کی یہ سلیکٹڈحکومت دو سال بھی پورے نہ کرسکی۔ اس کی مخالفت میں طلبا نے تحریک کا آغاز کیا جو کہ مئی 1992 میں فوج کے نامزد کردہ وزیر اعظم کو ہٹانے میں کامیاب ہویئی۔ ہمارے ہیرو کے ہیرو مہاتیر محمد کے پچھلے دور میں انور ابراہیم کوحکومت سے ہٹا کر اخلاقی الزامات کے ساتھ کرپشن پربھی سزادی گئی۔ اب ان سزاوں کومجبوراً ختم کر کے ان کو جیل سے نکال کرڈاکٹر مہاتیر کو اپناساتھ ڈیفکٹو لیڈر کے طور پرحکومت میں شامل کرنا پڑا۔ کرپشن اور اخلاقی الزامات لگانا بہت آسان ہوتا ہے اورسزا تو ایک حکم نامے سے نافذ ہوجاتی ہے لیکن عوام میں مقبول سیاسی لیڈروں کو جیل میں رکھنا ناممکن ہوتا ہے۔

حکومت تو دھاندلی، دباؤ، منافقت، لالچ اور کرپشن کی کہانیوں سے بدلی جا سکتی ہے لیکن ملک کے مشکل سیاسی و معاشی حالات کو سنبھالنے کا کام صرف گالیوں، نعروں اور جھوٹے وعدوں سے نہیں ہوسکتا۔ اس کو اعتماد، تجربہ، اخلاقی طاقت اور سیاسی حکمت عملی سے ہی ممکن بنایا جا سکتا ہے۔ نا تجربہ کاری اور نا اہلی سے زندگی کی گاڑی نہیں چلتی ملک کیسے چلے گا۔ ملک مشکل فیصلوں اورعقلمندی سے کیے گے عملی اقدامات سے چلتا ہے۔ ملک چلانے کے لئے ذہین وفطین، عاجز اور منکسرالمزاج افراد کی ضرورت ہوتی ہے۔

جنات، عملیات، چلا کشی وتعویذ گنڈے جہالت اور دیوانگی کی علامت ہیں۔ مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے ڈالر 103 سے بڑھ کر 140 کی سرحد کو پار کرچکا ہے۔ طاقتور محکموں کے حکمران تو ایک طرف اب تو اپنے سلیکٹڈ لوگوں نے بھی بات بات پر جھگڑنا شروع کردیا ہے۔ بے بسی کا یہ عالم ہے کہ اپنے سرکاری اداروں کے بارے میں ارشاد فرمایا جا رہا ہے کہ وہ حکومت سے زمینیں چھپا رہے ہیں۔ عوام کو ہر دس پندرہ دن کے بعد مہنگائی کے کسی نئے بم سے شکار کیا جا رہا ہے۔

ٹیکس کولیکشن کم ہورہی ہے۔ گدائی کا کشکول اٹھاے در بدر خاک چھان رہے ہیں، کہیں سے خیرات ملتی ہے اور اکثر جگہ سے ناکام و نامراد لوٹتے ہیں۔ بیلین ڈالرز بھیک میں لانے کے باوجود خزانے میں ان کی مقدار کم ہی ہوتی جا رہی ہے۔ اپنے سجاے گئے ملکی محاذ پر تو یو ٹرن لے لے کر بہت مقبول ہو چکے ہیں اب امریکہ اور افغانستان سے متعلق بیانات پر بھی فارن آفس کو وضاحتیں جاری کرنا پڑ رہی ہیں۔ بس اب بہت ہو چکا ہے اب ملک کو نا اہل حکمرانوں کی خواہشات کی بھینٹ مزیدنہیں چڑھایا جا سکتا۔ اب اگریہ تجربہ مزید جاری رہا تو حالات اس رخ کی طرف جا سکتے ہیں جہاں پر سنبھا لنا شاید مشکل ہو جائیں۔

آؤ ستر کی دہائی کا ایک مقبول گانا سنیں

Enough is Enough ( No more tears)

بس اب بہت ہو چکا

بارش ہو رہی ہے، چھت ٹپک رہی ہے

میری محبت کی زندگی، آنسوں میں ڈھل رہی ہے

بہت سال بیتنے کے بعدبھی

کوئی سورج چمکا، کوئی چاند نہیں نکلا

کوئی کہکشاں، کوئی نشانی محبت نہیں

لیکن، اب مزید موقع بھی نہیں

میں نے ہمیشہ کامل محبوب کے خواب دیکھے

وہ بھی ہر دوسرے آدمی کی طرح کا نکلا

ہماری محبت، ہماری محبت

آنسوں کی) بارش بارش، ٹپکنا ٹپکنا)

اب یہاں ہمارے لئے کچھ نہیں

اب ایک بھی آنسو مزید نہیں

کہو اس کو کہ چلاجاے

بات کرنے کو کچھ نہیں بچا

اس کا رین کوٹ پکڑو، اسے باہر کا رستہ دکھلاؤ

اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالو اور چلاو

بس اب بہت ہو چکا

میں مزید، میں مزید نہیں چل سکتی

بس اب بہت ہو چکا

جاؤ جاؤ، اسے باہر کا دروازہ دیکھاؤ

گڈ بائی مسٹر

بس اب بہت ہو چکا

اب مزیدآنسو نہیں

بس اب بہت ہوچکا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).