نواز شریف کے بعد اگلی باری کس کی !


ضمانت، ڈھیل یا ڈیل اور ٹائم فریم، پچھلے چند ہفتوں میں ن لیگ کے سربراہ اور سابق وزیراعظم نواز شریف کی ضمانت سے چند دن پہلے سے ہی حکومتی وزراء نے یہ راگ الاپنا شروع کردیا تھا کہ نواز شریف کی قسمت کا فیصلہ عدالت نے کرنا ہے حکومت انہیں باہر جانے کی اجازت نہیں دے سکتی۔ اس دوران وزیراعظم عمران خان نے بھی صحافیوں سے طویل بات چیت کی۔ اور واشگاف الفاظ میں کہا کہ حکومت کسی قسم کی ڈیل یا ڈھیل نہیں دے گی۔ اور سب یہ جانتے تھے کہ چھبیس مارچ کو نواز شریف کی ضمانت کے حوالے سے اپیل پہ سماعت ہونی ہے۔ کہنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ حکومت نے نواز شریف کی ضمانت ہو جانے کی صورت میں اپنی فیس سیونگ کے لئے پہلے سے سیاسی پوائنٹ سکورنگ کی۔ اور حکومتی جماعت نے اپنے کارکنان کو یہ تاثر دیا کہ وہ نواز شریف کے ساتھ کوئی ڈیل نہیں کرے گے اور نہ ہی کسی قسم کی ڈھیل دی جائے گی۔

وہ نواز شریف جنہوں نے بھرپور لانگ مارچ کیا اور نعرہ جمہوریت بلند کیا۔ کم از کم اپنے کارکنان کو یقین دلانے کی بھرپور کوشش کی کہ اب وہ خلائی مخلوق سے مقابلہ کریں گے اور اپنے خلاف فیصلے کو نہ ماننے کے بڑے بڑے دعوے کیے اور فیصلہ دینے والے وقت کے قاضی سمیت پانچ ججز کے خلاف کھل کے نعرے لگائے۔ ایک ہی وقت میں دو محاذوں پہ جنگ شروع کرنے کا فیصلہ کیا اور وہ بھی بغیر کسی تیاری اور موثر حکمت عملی بھی موجود نہ تھی۔

اہل عقل تو پہلے سے ہی یہی کہتے رہے کہ پارٹی از اوور۔ ناجانے میاں صاحب کو کیوں سمجھ نہ آئی۔ اور گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ گھیرا تنگ ہوتا گیا اور پھر میاں صاحب گھٹنوں کے بل گر پڑے۔ اور پابند سلاسل ہوگئے اور بد قسمتی سے ان کی بیماری کی وجہ سے انہیں چھ ہفتوں کی رہائی ملی۔ محترمہ مریم نواز صاحبہ کا ٹوئٹر اکاؤنٹ بھی شہر خموشاں بنا ہوا۔ اور شریف فیملی کے لئے مزید اچھی خبر یہ تھی کہ شہباز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا فیصلہ ان کے حق میں آیا۔

عام عوام جو رات کو سیاستدانوں کی میڈیا تقریریں سن کر رائے قائم کرلیتی ہے وہ تو یہی سمجھ رہے کہ یہ سب میرٹ پہ ہو رہا ہے۔ لیکن اہل قلم تو یہاں تک بھی سوچتے اور لکھتے ہیں کہ یہ سب ماسٹر پلان ہے کیونکہ ایسے سینکڑوں مریض جیلوں میں کئی سالوں سے پڑے ہیں ان کے کے لئے بھی ایسا قانون لاگو کرنا چاہیے۔ خیر! کوئی مانے یا نہ مانے، جیسا انہوں نے چاہا اپنی مرضی سے شریف فیملی کو رگڑا اور ”روک سکو تو روک لو“ کو روک کے دکھایا اور بالا آخر رحم کی اپیل نے ہی تھوڑی جان خلاصی کروائی۔

شریف فیملی کے عدالتی ریلیف کی ٹائمنگ چیک کرے تو اندازہ ہوتا ہے کہ سکرپٹ کتنا اچھا لکھا گیا ہے، ایک طرف ن لیگ اور پیپلز پارٹی اسمبلی میں قربتیں تیزی سے بڑھ رہی تھی، میاں نواز شریف بھی اپنا علاج نہ کروانے کے حوالے سے ستائے ہوئے تھے اور حکومت کے سر چڑھنے کو تیار تھے، حکومت پر بھی پریشر تھا کہ کہیں میاں صاحب کو واقعی کچھ ہونا جائے، عدالت کے حوالے سے کسی حد تک عوامی تاثر تھا کہ آخر سب فیصلے میاں صاحب کے خلاف ہی کیوں آرہے ہیں۔

اسی طرح ن لیگی کارکنان بھی سوچتے ہیں کہ اسٹیبلمشنٹ ان کے قائد کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کررہی اور پیپلز پارٹی کے کمزور ٹرین مارچ کے غبارے سے بھی ہوا نکال دی گئی۔ اس ساری صورتحال میں اچھا سٹروک کھیلا گیا اور اب کسی حد تک عوام کو مطمئن کرنے کی کوشش کامیاب ہوچکی ہے۔ کیونکہ اب کم از کم ن لیگ ان سب سٹیک ہولڈرز کے خلاف آنے والے چند ہفتوں تک نہیں بولتی۔

اور یوں ضمانت بھی ہوگئی اور وہ حلقے جو ڈیل کی باتیں کررہے تھے ان کی باتیں بھی سچ ثابت ہوگئی۔ اب ڈھیل والوں کی بات کرتے ہیں۔

پانامہ سکینڈل سے لے کر اب تک شریف فیملی نے سینکڑوں چکر عدالتوں کے لگائے، اور حالات اب کچھ بہتر ہے اور امکان یہ ہے کہ میاں صاحب شاید اب دوبارہ جیل واپس نہ جائیں۔ یہ سب ان کی اپنی چھ ہفتوں کی پرفارمنس پہ مبنی ہے۔ اگر وہ سب دوستوں کے ساتھ اچھا رہے تو وہ باہر جا سکتے ہیں جیل نہیں۔

پیپلز پارٹی کی قیادت کے خلاف بھی کیسز جاری ہیں ۔ابھی تک ان کے ساتھ تھوڑی ڈھیل برتی جارہی ہے کبھی حفاظتی ضمانت ہوجاتی ہے کبھی کینسل ہوجاتی ہے۔ لیکن اس بار کوئی خیر کی خبر نہیں آئے گی کیونکہ دھڑا دھڑ اکاؤنٹس کے معاملات سامنے آرہے ہیں۔ زرداری صاحب سیاسی دباؤ ڈال رہے ہیں جیسے میاں شہباز شریف نے اپنے قائد اور بڑے بھائی نواز شریف کے لیے کیا۔ پریس کانفرنسز کی جارہی ہیں، ٹرین مارچ کیا گیا۔ کہنے والے تو یہ بھی کہتے کہ بیک ڈور پالیسی پہ بھی بھرپور عمل درآمد کیا جارہا ہے۔

پیپلز پارٹی کی سنیئر لیڈرشپ اپنی قیادت کے حق میں بولتے ہوئے حکومت پہ تنقید کرتے ہیں، لیکن یہ صرف زبانی کلامی باتیں ہیں، اصل میں پیغام فیصلہ سازوں کو پہنچایا جاتا ہے۔ زرداری صاحب کہتے ہیں کہ انہیں جیل سے کوئی ڈر نہیں اور حامد میر صاحب نے کہا تھا کہ زرداری صاحب خود گرفتار ہونا چاہتے ہیں۔ لیکن شاید یہ بات حقیقت کے برعکس ہے کیونکہ جب پہلے زرداری صاحب گرفتار ہوئے تھے تو پیپلز پارٹی پنجاب میں طاقتور تھی، بی بی شہید وزیراعظم تھی، عوامی مقبولیت بھی تھی۔

زرداری صاحب کی اب عمر بھی ڈھل رہی ہے۔ اور ان کی سیاسی مقبولیت دو ہزار اٹھارہ کے الیکشن میں سب کے سامنے ہے۔ اس لئے بلاول بھٹو زرداری کو ہر جگہ سامنے لایا جارہا ہے۔ اگر میاں صاحب کے حالات اداروں کے ساتھ ٹھیک رہے، اور حکومت وقت بجٹ سیشن منظور کروا گئی، تو پھر اگلی باری زرداری کی!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).