یہ شادی نہیں چل سکتی


ٹیلی ویژن اور اخبارات کے بعد آج کل سوشل میڈیا کی خبریں زیادہ زیر بحث رہتی ہیں جو اکثر افواہ کی شکل اختیار کرتی ہیں۔ افواہ محض میڈیا کی مختاج نہیں ہے۔ افواہ سازی میں سینہ گزٹ اہم کردار ادا کرتا ہے۔ حساس اداروں میں کچھ رشتہ داراور کلاس فیلوز دوست کی ملازمت افواہ ساز کی افواہ کو مصدقہ بنانے کے لئے کافی ہے۔ پہلی افواہ خاتون اول محترمہ بشریٰ بی بی کے متعلق ہے۔ جو سینہ گزٹ سے سوشل میڈیا کی زینت بھی بنی ہوئی ہے اور اس پر خوب مغزماری بھی جاری ہے۔

افواہ کے بارے میں عمومی تاثر یہ ہے کہ افواہ نما خبر کی نوعیت مصدقہ یا غیر مصدقہ دونوں ہونے کے امکانات موجود ہیں۔ راولپنڈی میں سیاسی شخصیت کے دفتر میں چار ماہرین ہر فن مولا بشمول سیاستدان خاتون اول کی واپسی اور جمائماخان کی دوبارہ انٹری کے معاملے پر نتائج اخذ کر رہے تھے۔ جب ایک نیم صحافی نے مہر ثبت کرتے ہوئے بات کی کہ خاتون اول بشریٰ بی بی کے تمام پچھلگ بنی گالہ میں براجمان ہوچکے تھے۔ جس پر وزیر اعظم سیخ پا ہوئے اور معاملہ نازک موڑ پر پہنچ گیا ہے۔

میاں بیوی میں کھٹ پٹ ہے۔ صلح کے امکان نہیں ہیں۔ جمائماخان واپس آ رہی ہے۔ 23 مارچ کی پریڈ سمیت کئی اہم پروگرام میں خاتون اول کی عدم موجودگی کی دلیلیں افواہ کو رد کرنے میں اہم ترین ہیں۔ بشری ٰ بی بی سے سیاسی شادی تھی بلکہ صرف الیکشن 2018 کے لئے انتخابی شادی تھی۔ عمران خان کے ساتھ موصوفہ کا کوئی جوڑ ہی نہیں ہے اور نہ ہی بطور خاتون اول جچتی ہے۔ یہ شادی بالکل نہیں چل سکتی ہے۔ اصل جوڑ جمائما ہے۔ اور پھر قاسم اور سلمان کی ماں ہے۔

بنی گالہ پر بشری ٰ بی بی کے پچھلگوں کا حق نہیں ہے بلکہ جمائما اور عمران خان کے بچے اصل حق دار ہیں۔ متفقہ اعلامیہ یہی قرار پایا کہ یہ شادی نہیں چل سکتی ہے۔ دوسری افواہ میں وزیراعظم عمران خان کی جانب سے بیان منسوب کیا جارہا ہے کہ عمران خان نے غم وغصے کا اظہار کرتے ہوئے یہ بات کہی ہے کہ اگر ایسے ہی چلے گا تو وہ وزارت عظمیٰ چھوڑ دیں گے۔ اس بیان کے موقع ومحل پر ابہام ہے کہ عمران خان نے غم و غصے کا اظہار کس بات پر اور کس موقع پر کیا اور کیونکر کیا ہے۔

ماہرین ہرفن مولا کے مطابق عمران خان جو چاہتے ہیں، انہیں وہ کرنے نہیں دیا جارہا ہے۔ عمران خان سمجھتے تھے کہ وزیراعظم بن کر وہ سب کچھ سنبھال لیں گے لیکن کرسی اقتدار پر بیٹھ کر انہیں اندازہ ہوا ہے کہ اختیارات کا منبع تو کہیں اور ہے۔ یہ بات تحریک انصاف میں بھی سرایت کر چکی ہے کہ ہمارے ساتھ گیم ہوئی ہے۔ اقتدار کے نام پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ صرف وزیراعظم بے اختیار نہیں ہے بلکہ وزیر مشیر، ایم این ایز اور ایم پی ایز بھی نام کی حد تک ہیں۔

تھانے کا ایس ایچ او بھی ان کی نہیں سن رہا ہے۔ وزیر اعظم صرف فائلوں پر دستخط کرنے تک محدود ہیں۔ یوتھ تو شدید پریشانی کا شکار ہے۔ شادیانے بجانے کی تو نوبت ہی نہیں آنے دی گئی ہے۔ ہنی مون میں ہی سیاپا شروع ہو گیا۔ اب اعجاز شاہ کو وفاقی وزیر بنا کرمزید کیا پیغام دینا مقصود ہے کہ اصل حکمران پی ٹی آئی نہیں ہے۔ اگر یہی پیغام ہے تو پھر عمران خان کا غم و غصہ ٹھیک ہے۔ بے شک زیادہ پہلے ہی اکثریت ان کی ہے مگر پھر بھی اخلاقیات بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔

آخر منتخب حکومت ہے۔ ووٹ بھی لیے ہیں۔ عوام کو بھی منہ دکھانا ہے۔ اور پھر چپ رہنے کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ تحریک انصاف پنجاب کا مہنگائی اور پٹرول کی قیمتوں میں اضافے پر اپنی ہی حکومت کے خلاف مظاہرہ بھی اس امر کی بین گوائی ہے کہ ساک مندے نیں۔ یہ شادی نہیں چل سکتی ہے۔ اب دیکھیں پی ٹی آئی سر جھکا کر گھر بسانے کو ترجیح دیتی۔ خلع لیتی ہے کہ طلاق پر بات ختم ہوگی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).