بے نظیر کے نام سے اتنی نفرت کیوں؟


ہمارے صحافی دوست قاضی آصف نے گزشتہ روز ہم سے سوال کیا کہ حکومت اور اس کے اتحادیوں کو بے نظیر کے نام سے اتنی نفرت اور خوف کیوں ہے؟ اس حوالے سے مختلف آرا ہیں لیکن اس بحث کا آغاز اس وقت ہوا جب گزشتہ روز عمران خان نے گھوٹکی میں ایک جلسہ عام سے خطاب کے بعد اپنے اتحادی جی ڈی اے کے رہنماؤں سے ملاقات کے دوران ان کی اس مطالبے پر کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا نام تبدیل کیا جائے تو انھوں نے فوراً جواباً کہا کہ ’’نام تبدیل ہو گیا انشااللہ ‘‘۔

یہ خبر جلد ہی ملک کے سیاسی حلقوں میں بحث کا موضوع بن گئی۔ بیانات کا ایک نہ تھمنے والا سلسلہ شروع ہوگیا۔ سندھ کے وزیر بلدیات سعید غنی نے اسے وزیر اعظم کی آئین سے نا واقفیت قرار دیتے ہوئے کہا کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام آئینی طریقے سے ایکٹ آف پارلیمنٹ کے تحت قائم ہوا ہے اور اس میں تبدیلی بھی قومی اسمبلی اور سینیٹ ہی کر سکتا ہے۔ سینیٹ میں تو ویسے بھی حکومت کی اکثریت نہیں ہے اور جہان تک قومی اسمبلی کا معاملہ ہے وہاں بھی حکومت اپنی اس مہم میں ناکام ہوگی۔

ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف کے گذشتہ دور حکومت میں بھی ایک ایسی کوشش کی گئی تھی لیکن اس میں انھیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ دوسری جانب سندھ کے گورنر عمران اسماعیل نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اس عزم کا اظہار کیا کہ تحریکِ انصاف یہ نام ضرور تبدیل کرے گی لیکن تحریک انصاف کے مرکزی رہنما اور وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے کہا کہ نام کی تبدیلی قانون سازی کے زمرے میں آتی ہے اور ویسے بھی وہ ذاتی طور پر نام کی تبدیلی کے حق میں نہیں ہیں۔

آخر جی ڈی اے کو بے نظیر انکم سپورٹ کا نام تبدیل کروانے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ معروف صحافی اور سیاسی تجزیہ نگار تنویر ملک نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہ جی ڈی اے والے یہ سمجھتے ہیں کہ گزشتہ تین انتخابات میں ان کی مسلسل ناکامی کا سبب بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام ہے۔ سندھ کے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ پیسے انھیں بے نظیر کے نام پر پیپلز پارٹی کی جانب سے دیے جاتے ہیں اسی لیے وہ پی پی پی کو ووٹ دیتے ہیں۔

اگر جی ڈی اے والوں کا یہ موقف درست تسلیم کر لیا جائے تو بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام صرف سندھ نہیں بلکہ ملک بھر میں روبہ عمل ہے۔ تو پھر وہاں پی پی پی کو اکثریت کیوں نہیں ملتی؟ ہمارے لکھاری دوست رشید شورو جن کی تحریریں ’’کتاب چہرہ (فیس بک)‘‘ پر خاصی مقبولیت کی حامل ہیں ، کا کہنا ہے کہ :

ایک مخصوص ذہنیت کے حامل افراد کو ذوالفقار علی بھٹو اور ان کے خاندان سے شدید نفرت ہے۔ بھٹو صاحب جب حیات تھے تو ان کی شخصیت کے بارے میں ایک سے ایک گھٹیا بہتان تراشے گئے، لیکن جب وہ عدالتی قتل کا شکار ہوئے تو یہ ممکن ہی نہ رہا کہ بھٹو صاحب کے خلاف کوئی بات کی جائے۔ اس کے بعد محترمہ نصرت بھٹو کو ہدف ملامت بنایا گیا۔ لیکن جس طرح سے انھوں نے پارٹی کی قیادت سنبھالی اور بحالی جمہوریت کی تحریک چلائی تو مخالفین کے منہ بند ہوگئے۔ جب محترمہ بے نظیر بھٹو نے پارٹی کی باگ دوڑ سنبھالی تو ان کے بارے میں ہرزہ سرائی کی گئی۔ یہ بھی فتوے جاری کیے گئے کہ کوئی خاتون شرعی وجوہات کی بنا پر وزیر اعظم نہیں بن سکتیں۔

مزید براں، جو بھی انھیں ووٹ دے گا اس کا نکاح ٹوٹ جائے گا۔ مشرف دور میں ان کی واپسی کو ڈیل کا نتیجہ قرار دیا گیا۔ بعدازاں ان کی شہادت نے انھیں تاریخ میں امر کر دیا۔ اب یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بلاول کی مقبولیت عوام میں خاصی زیادہ ہے۔ سینیئر صحافی اور کالم نگار ارباب چانڈیو جو بلاول بھٹو کے ٹرین مارچ کے عینی شاہد ہیں، کا کہنا ہے کہ ٹرین نے مختلف اسٹیشنز پر رکنا تھا لیکن جہاں رکنا نہیں تھا اور راستے میں چھوٹے چھوٹے گاؤں آئے تو وہاں بھی لوگ خصوصاً خواتین شدید دھوپ اور گرمی میں گھروں کی چھتوں پر کھڑے ہو کر انتظار کرتے اور جیسے ٹرین وہاں سے گزرتی ٹرین کی طرف دیکھ کر والہانہ انداز میں ہاتھ ہلاتے رہے۔

صحافی سعید جا ن بلوچ کے مطابق وزیر اعظم اپنی والدہ کے نام سے بڑا کینسر اسپتال قائم کرتے ہیں لیکن ان کے پیر وکار بلاول کے بھٹو لکھنے پر معترض ہیں۔ اس کی کوئی منطقی دلیل نہیں ہے۔یہ ایک نان ایشو کو ایک ایشو بنانے والی بات ہے تاکہ لوگوں کا دھیان دوسرے مسائل جیسے کہ پٹرول کی قیمتیں، مہنگائی اور حکومت کی دیگر کارکردگی سے ہٹایا جا سکے۔ زرداری کے بعد اب بلاول کو مخالفین کی جانب سے بچہ قرار دیا گیا، نا تجربے کار کہا گیا۔ یہاں تک اعتراض کیا گیا کہ اپنے نام کے ساتھ بھٹو کیوں لکھتے ہیں۔ یہ اصل میں بلاول یا زرداری پر نہیں، بلکہ در حقیقت یہ بے نظیر پر تنقید کی جاتی ہے لیکن اس نفاست کے ساتھ کہ کام بھی ہو جائے اور بدنامی بھی نہ ہو۔ جی ڈی اے ارکان کو اصل چڑ تو بے نظیر کے نام سے ہے لیکن چوں کہ وہ حیات نہیں ہیں، اس لیے تنقید کا دائرہ بلاول اور زرداری تک پہنچ جاتا ہے۔ لیکن اب بلی تھیلے سے باہر آچکی ہے۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی مخالفت اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

لیاری سے تحریک انصاف کے منتخب رکن قومی اسمبلی شکور شاد کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ یہ اسکیم بنیادی طور پر کسی پارٹی کی نہیں، حکومت پاکستان کی ہے۔ اس کا سیاسی استعمال کیا جا رہا ہے جو مناسب نہیں ہے۔ محترمہ کی شہادت کے بعد ان کے درجات بہت بلند ہیں۔ انھیں ان اسکیموں پر نام وغیرہ کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اس اسکیم میں بہت زیادہ کرپشن کی گئی ہے جس کی تحقیقات ضروری ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).