جناب وزیراعظم: اب اتنا نہ رلاؤ


تحریک انصاف کی حکومت کا ہنی مون پریڈ تمام ہوچکا۔ کارکردگی دکھانے اور عوام کو راحت پہنچانے کا مرحلہ شروع ہوچکاہے۔ حالیہ چند ماہ کے دوران عمومی طورپر غیر مقبول حکومتی فیصلوں پر شہریوں نے احتجاج یا ناراضی کا اظہار کرنے سے گریز کیا ۔ حکومت کو معاملات سمجھنے اور رفتہ رفتہ ایسے اقدامات کرنے جو ملک کو ترقی اور خوشحالی کی جانب لے جائیں کا بھرپور موقع دیاگیا۔لیکن اب رفتہ رفتہ صبر کا پیمانہ لبریز ہوتا نظر آرہاہے۔

ہوش ربا مہنگائی کا طوفان امنڈ آیا ہے۔ بجلی اور گیس کے بلوں پر صارفین کی چیخوں نے ساتویں آسمان پر بھی دستک دی۔عجیب طرفہ تماشا ہے کہ اب پٹرول کی قیمت میں بھی اضافے کی اطلاع ہے۔پاکستان کی آبادی کا ایک بہت بڑا طبقہ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرتاہے۔

سفیدپوش طبقہ جسے عرف عام میں متوسط طبقہ قراردیاجاتاہے وہ بھی تحریک انصاف کی وزارت خزانہ کی مہربانی سے گزشتہ چھ ماہ کے اندر غربت کی لکیر سے نیچے اترچکا ہے۔ تعلیم، صحت ، ٹرانسپورٹ اور پینے کے صاف پانی کی فراہمی کا تحریک انصاف نے وعدہ کیا تھا۔ ان وعدوں کی تکمیل کے امکانات مستقبل بعید میں بھی نظر نہیں آتے۔

ٹھوس پالیسیاں مرتب کرنے اور تیزرفتاری سے ان پر عمل درآمد کے بجائے وزراء کرام کا زیادہ وقت مخالفین پر تبرہ بازی اور تمسخر اڑانے میں گزرجاتاہے۔عمران خان کے’’ معاشی گرو‘‘ وزیرخزانہ اسد عمر پاکستان کی تاریخ کے ناکام ترین وزیرخزانہ کا لقب پائے بغیر اقتدار سے رخصت نہ ہونے کا تہیہ کرچکے ہیں۔موصوف اپنا کام کاج چھوڑ کر اکثر خارجہ امور پر بیان بازی کرتے ہیں۔

راولپنڈی کے سیاسی مفکر شیخ رشید احمد جو ریلوے کے وزیر ہیں۔ سرشام بلاناغہ ٹی وی سکرینوں پر جلو ہ افروز ہوتے ہیں۔ وزارت کا خسارے کم کرنے، شہریوں کو بہتر سفری سہولتیں فراہم کرنے بارے گفتگو کرنے کے بجائے بلاول بھٹو زرداری یا شریف برادران کے خلاف لتے لیتے ہیں اورحظ اٹھاتے ہیں۔

وزیراعظم عمران خان بھی کم نہیں۔ چند دن قبل فرمایا: افغانستان میں عبوری حکومت قائم کی جائے تاکہ رواں پیس پراسیس مکمل کیاجاسکے۔ ردعمل سخت سامنے آیااسے آنا ہی تھا۔ یہ سوال بھی اٹھا کہ کیاجمہوری نظام پر یقین رکھنے والا کوئی حکمران افغانستان کی منتخب حکومت کو ہٹانے کی تجویز دے سکتاہے؟

کیا وزیراعظم پاکستان کو افغانستان کے داخلی معاملات میں مداخلت کاحق حاصل ہے؟وزارت خارجہ نے وضاحتی بیان جاری کرکے وزیراعظم کے بیان سے پیدا ہونے والی تلخی کو زائل کرنے کی کوشش کی۔ خلیل زلمے زاد نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان کے بیان نے طالبان اور امریکہ کے درمیان جاری مذاکرات میں ملنے والی کامیابیوں کو گہری گزند پہنچائی۔

نیب ایک خود مختار ادارہ ہے۔ بلاامتیاز احتساب جس کی ذمہ داری ہے لیکن وزراء نیب کی ہر کارروائی کا کریڈٹ اپنے نام کرتے ہیں۔ مخالفین کو دھمکاتے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ دنیا کے دیگر مہذب ممالک کی طرح نیب کو اپنی مرضی اور رفتار کے مطابق کام کرنے دیا جاتا۔اس کی کارکردگی کا کریڈٹ لیاجائے اور نہ اس کی ناکامیوں پر تاسف کا اظہارکیاجائے۔

پرے سال برطانیہ کے وزیرداخلہ پاکستان کے دورے پر آئے۔ پوچھاگیا کہ ایم کیوایم کے لیڈر الطاف حسین کے خلاف ان کی حکومت کارروائی کا ارادہ رکھتی ہے؟ معصومیت سے انہوں نے جواب دیا: الطاف حسین کے معاملات لندن کی پولیس دیکھ رہی ہے۔ پولیس کے کاموں میں وہ مداخلت کے مجاز نہیں۔

احتساب ایک مشکل اور پیچیدہ عمل کا نام ہے ۔خاص کر وائٹ کالر جرائم کا سراغ لگانے کے لے عمر خضر درکار ہوتی ہے۔ گزارش یہ ہے کہ حکومت یا نیب سرکاری اہلکاروںیا کاروباری شخصیات کو ٹھوس ثبوتوں کے بنا حراست میں نہ لے۔ احتساب اور انتقام میں بال برابر فرق ہوتاہے ۔ذرا سی بے اعتدالی توازن بگاڑ دیتی ہے۔

یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ گزشتہ چھ سات ماہ کے دوران سرکاری ملازمین اور کاروباری طبقات نے خوف کے باعث کام کرنا ہی چھوڑ دیا۔ رئیل اسٹیٹ مارکیٹ جو گزشتہ بیس برس سے ہماری اکانومی کی ریڈھ کی ہڈی کا کردار ادا کرتی تھی غلط پالیسیوں کے باعث زبردست مندے کا شکار ہے۔

کاروباری طبقات کو ٹیکس کے ایک ایسے گھن چکر میں الجھایاجاچکے ہے کہ وہ مزید سرمایہ کاری کے بجائے اپنا سرمایہ بچانا یا چھپانے میں مصروف ہیں۔ مشرق وسطیٰ جہاں لاکھوں پاکستانی بسلسلہ روزگار مقیم تھے اب معاشی کساد بازاری کا شکار ہے۔ خاص کر سعودی عرب کی حالیہ معاشی پالیسیوں نے ہزاروں نہیں لاکھوں پاکستانیوں کو بے روزگار کیا۔

شکایات عام ہیں کہ کمپنیاں بروقت اجرت ادا نہیں کرتیں۔ ملک کے اندر صنعتی ترقی کا پہیہ بڑی حدتک سست روی کا شکارہے۔ ضرورت اس امرکی ہے کہ حکومت اور خاص کر وزیراعظم ایک دوہفتوں تک معاشیات اور تجارت کے ممتاز ماہرین کے ساتھ مسلسل مشاورتی نشستیں کریں۔

ضرورت ہوتو بیرون ملک مقیم پاکستانی ماہرین اقتصادیات سے بھی مشورہ کریں۔ عشروں تک عالمی مالیاتی اداروں میں اعلیٰ عہدوں پر فائز پاکستانیوں کی خدمات سے اسلام آباد نے استفادہ کیا۔ وہ معاشی جادو گر نہ تھے لیکن کم ازکم انہوں نے پاکستانیوں کے مہنگائی سے کس بل نہیں نکالے۔ معیشت کا پہیہ گھومتارہا۔چولہے اور امیدکا دیا بجھا نہیں۔

پنجاب میں عمران خان نے اپنے لشکر کا سب سے کمزور اور ناتواں گھوڑا میدان میں اتارا۔ مقابلہ وہ کیا کرتاپنجاب کے تجربہ کار اور گھاگ سیاستدانوں اور نوکر شاہی نے اس کے پاؤں ہی زمین پر نہ لگنے دیئے۔ یہ پنجاب ہی ہے جہاں سیاستدانوں اور پارٹیوں کی قسمت کے فیصلے لکھے جاتے ہیں۔ تحریک انصاف اگر کامیابیوں اور کارکردگی کا گہرا نقش ثبت نہ کرسکی تواس کا بوریابستر گول ہونے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا۔

نون لیگ نہ صرف آج بھی پنجاب کی مضبوط جماعت ہے بلکہ نوازشریف مقبول لیڈر ہیں۔ تحریک انصاف کو پنجاب میں متاثر کن طرز حکمرانی فراہم کرنا ہوگی۔ سیاستدان مسند اقتدار پر فائز ہوجائیں تو سمجھتے ہیں کہ وہ عقل کل ہیں۔ دانشمندی ، تدبیر اور سیاسی حکمت عملی کا منبع ان کی ذات قرارپاتی ہے۔ حقیقت اس کے برعکس ہوتی ہے جسے وہ سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں۔وہ اقتدار کی اندھی غار میں قید ہوجاتے ہیں۔انہیں اپنی پسند کی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔ وہی کچھ دکھایا جاتاہے جو و ہ دیکھنا چاہتے ہیں۔

خوشامدیوں کا ایک ٹولہ ان کے گرد ہجوم کیے ہوتاہے جوسفینہ غرق کرائے بغیر دم نہیں لیتا۔ وزیراعظم عمران خان کو اس مصنوعی ماحول سے نکل کر مشاورت کا دائرہ وسیع کرنا ہوگا۔ لوگوں کو راحت پہنچانے اور ان کی مشکلات کم کرنے پر توجہ مرکوز کرنا ہوگی تاکہ شہریوں کا ریاست پر اعتماد بحال ہو۔ پٹرول، بجلی اور گیس کی قیمت کم کرنے کی کوشش کریں۔ اضافے کا تصور بھی نہ کریں۔

تاریخ گواہ ہے کہ معاشرے کے کمزور طبقات کو رلانے والے حکمرانوں کا تخت تختہ بن جاتاہے۔ افسوس! گزر چکے حکمرانوں کے انجام سے لوگ سبق سیکھتے نہیں۔

بشکریہ روزنامہ نائنٹی ٹو

ارشاد محمود

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ارشاد محمود

ارشاد محمود کشمیر سے تعلق رکھنے والے ایک سینئیر کالم نویس ہیں جو کہ اردو اور انگریزی زبان میں ملک کے موقر روزناموں کے لئے لکھتے ہیں۔ ان سے مندرجہ ذیل ایمیل پر رابطہ کیا جا سکتا ہے ershad.mahmud@gmail.com

irshad-mehmood has 178 posts and counting.See all posts by irshad-mehmood