میرے لئے سب حلال ہے


پچھلے دنوں میرا ٹرین کے سفر کو دل چاہ رہا تھا۔ سو میں نے سوچا کیوں نہ اس بار سیالکوٹ ٹرین سے جایا جائے۔ سو میں نے اسٹیشن کا رُخ کیا ٹکٹ خریدا اور ٹرین کا انتظار کرنے لگی۔ ہمیشہ کی طرح اپنی روایت برقرار رکھتے ہوئے ٹرین ”ذرا سا“ لیٹ تھی۔ اور مسافروں کو انتظار کی اذیت سے گزرنا پڑا۔ شکر ہے یہ انتظار انتظارِ یار نہ تھا۔ ورنہ عُمر تمام ہوتی مگر وصلِ یار نصیب نہ ہوتا آنکھیں عمر بھر انتظار میں رہتیں اور دیدارِ یار نہ ہوتا۔

خیر ٹرین آئی اور ریلوے سٹیشن کا سکوت ٹوٹا۔ مسافر اترنا چڑھنا شروع ہوئے۔ ایک افراتفری سی تھی وہ بھی اختتام کو پہنچی۔ جانے والے جا چکے تھے آنے والے مسافر اپنی اپنی سیٹ پہ قبضہ کر چکے تھے۔ میرے ساتھ ایک لڑکی بیٹھ گئی دل میں سوچا کہ اس سے گپ شپ رہے گی، سفر اچھا کٹے گا۔ ہمارے سامنے ایک خاتوٰن ہاتھوں پر دستانے چڑھا ئے پورے نقاب میں تھی۔ اس کے ساتھ ”NO“ جوان مرد تھا جو سر پر ٹوپی جمائے اور ہاتھ میں تسبیح پکڑے ہوئے تھا انھیں دیکھ کر ہی اندازہ ہو رہا تھا کہ یقیناً یہ کوئی بہت اللہ والے ہوں گے۔

ان داڑھی والے باریش ”NO“ جوان کے سامنے بیٹھ کر مجھے خود پر شرمندگی ہوئی کہ میرے گلے میں دوپٹہ تھا اور براؤن رنگے بال سٹائل سے شانوں سے نیچے گرتے تھے۔ سارے مسافر چڑھے یا نہیں لیکن ٹرین چل دی کہ اس کا کام چلتے رہنا ہے انتظار کرنا نہیں۔ ٹرین کے ڈبے میں ایک سائیڈ جدھر سنگل سیٹ ہوتی ہے ادھر ایک نوجوان آ بیٹھا جو میرے ساتھ والی لڑکی کو تاڑنا شروع ہوگیا تھا۔ وہ نوجوان تھا جوانی کی دہلیز پہ قدم رکھے جو مستیاں، شوخیاں اس عمر کا حصہ ہوتی ہیں وہ تمام بدرجہ اتم اس میں موجود تھیں۔

وہ کوئی شوخ دھن سیٹی کی شکل میں منہ سے نکالنے کی ناکام سی کوشش کررہا تھا۔ شاید وہ ہمیں صاف سنانے میں کامیاب ہوجاتا لیکن ٹرین کی چھک چھک میں اس کی سیٹی کی آواز دب رہی تھی۔ وہ ٹھہر ٹھہر کے اپنے بالوں میں اک ادا سے ہاتھ پھیرتا اور کبھی شوخ مسکراہٹ کے ساتھ ترچھی نگاہوں سے لڑکی کو دیکھ بھی لیتا۔ وہ کوشش میں تھا کہ کسی طریقہ سے اپنا سیل نمبر لڑکی تک پہنچا دے۔ لڑکی گھبرا کرادھر ادھر دیکھتی۔ ہمارے سامنے بیٹھے کب سے خیرباد کہہ چکے جہاندیدہ ”NO“ جوان یہ منظر دیکھ کر غیرت میں آئے انھیں بزرگ کہا نہیں جا سکتا کہ تحریکِ انصاف کی وجہ سے نوجوانوں کی اوسط عمر میں ردو بدل ہو چکا ہے۔

اور اس بزرگ نما بظاہر صوم و صلٰوت کے پابند لگتے ”NO“ جوان نے اپنے ساتھ جگہ بنا کر لڑکی کو اپنی زوجہ کے برابر بٹھا دیا اور خود لڑکی کے ساتھ چپک کر بیٹھ گئے۔ وہ لڑکی اس بات سے قطعی انجان تھی کہ یہ ”NO“ جوان کی نگاہیں کب سے سامنے بیٹھی خواتین کے طواف میں مشغول ہیں۔ اب وہ لڑکی نوجوان کی نظروں کے حصار سے بچ کر ”NO“ جوان کی کچھار میں تھی۔ میرے سامنے اب منظر یہ ہے کہ محترم اور ان کی مستقل شریکِ سفر کے درمیان اجنبی ”شریکِ سفر“ حائل تھی اور محترم اجنبی ”شریکِ سفر“ کے ساتھ جڑے جاتے تھے۔

محترم بتانے لگے کہ انھوں نے پانچ حج کر رکھے ہیں چھٹے کا ارادہ تھا مگر حکومت آڑے آگئی۔ انھیں لوگ حاجی صاحب کہتے ہیں اور حاجی صاحب کو اکثر ”جاگتی آنکھوں“ سے سچے اشارے ہوتے ہیں۔ اور وہ قسمت کا حال بتانے میں بھی ماہر ہیں۔ قسمت کا حال جاننے میں بیتاب لڑکی نے جھٹ سے اپنا ہاتھ ”NO“ جوان کے ہاتھ میں تھما دیا جو خود کو حاجی صاحب کہہ رہے تھے۔ ٹرین کے دو گھنٹے کے سفر میں حاجی صاحب لڑکی کا ہاتھ تھامے اس کے مستقبل کے ایسے ایسے نقشے کھینچتے رہے کہ وہ احمق لڑکی اگلے پانچ گھنٹے بھی خوشی سے ہاتھ دکھا سکتی تھی۔

اگر ٹرین رکنے پر اس کی مطلوبہ منزل نہ آجاتی۔ حاجی صاحب پورے شرعی حلیے میں مکمل غیر شرعی حرکتیں کر رہے تھے۔ لڑکی حاجی صاحب کی مرید ہو چکی تھی اور عقیدت سے انھیں دیکھ رہی تھی۔ ”NO“ جوان حاجی صاحب نے بھی دستِ شفقت اس کے سر پر رکھا اور بیٹی کہہ کر گلے سے لگا لیا۔ اور اب ”NO“ جوان حاجی صاحب کی آنکھیں سامنے والی سیٹ پر آکر بیٹھنے والی نئی ”بیٹی“ پر تھیں۔ وہی کمینی سی مسکراہٹ ان کے لبوں پر موجود تھی جسے انھوں نے شرعی لبادے میں چھپا رکھا تھا۔

تھوڑی ہی دیر میں نئی ”بیٹی“ ان کی ”برکتوں“ سے فیضیاب ہورہی تھی۔ اور میں حیران تھی کہ ہم احمق لڑکیاں کس طرح دوسروں کے ملمع چہروں اور بناوٹی میٹھے لہجوں پر یقین کر لیتی ہیں۔ اور ایسے ہی کسی ڈھونگی کی بھینٹ چڑھ جاتی ہیں۔ کسی کے بیٹی کہنے پر اسے باپ مان لیتی ہیں اور اسے باپ کا درجہ دے دیتی ہیں بنا یہ سوچے کہ اگلے کی نیت کیا ہے۔ ضروری نہیں کہ لڑکی کو دیکھ کر شوخ ہونے والا ہر نوجوان اس پہ بری نظر رکھے اور نہ ہی یہ ضروری ہے کہ شرعی لبادے میں کوئی بہت نیک شریعت کا پابند انسان ہو۔ بعض لوگ شرعی حلیہ اپنا کر تصور کر لیتے ہیں کہ ان کے لئے سب حلال ہے چاہے وہ حرام ہی ہو۔ ہاں ان کا خیال ہوتا ہے دوسرے لوگوں کو بہت محتاط رہنا چاہیے۔ یہاں تک کہ حلال چیزوں میں بھی لوگ محتاط رہیں کہ اسی میں دانشمندی ہے۔ اور ایمان بھی خطرے میں نہیں پڑتا۔ سو حلال چیزوں میں بھی اگر ذرا سا شبہ ہو تو بہتر ہے اس حلال کو بھی ترک کر دیں۔ لیکن ایسے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ اصول دوسروں کے لئے ہے اس کے اپنے لئے نہیں۔ ایسے مرد سوچتے ہیں کہ وہ جو بھی کریں ان کے لئے جائز ہے۔

لیکن اگر یہی حرکت یہ لوگ کسی دوسرے کو کرتے دیکھیں تو لا حول ولا قوۃ ضرور پڑھتے ہیں۔ کچھ غیرت دکھا کر منع بھی کردیتے ہیں اور کچھ جوش میں آکر ایک دو ہاتھ جڑ بھی دیتے ہیں۔ لیکن جب یہی کام وہ خود کر رہے ہوں تب کہاں کی غیرت اور کہاں کا ایمان۔ ایسے مولوی ٹائپ حضرات بیٹی کا مقدس لفظ استعمال کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ میں سوچ رہی تھی کہ دونوں مرد غلط ہیں، ٹھرکی ہیں، دونوں کی نظریں للچائی ہوئیں ہیں بس ان کے انداز جدا ہیں۔ دونوں میں ایک قدرمشترک ہے، دونوں سمجھتے ہیں کہ ان کے لئے سب حلال ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).