غربت کا خاتمہ کیسے ممکن ہوگا؟


عوامی مفادات سے جڑا ایک بنیادی مسئلہ غربت کے خاتمہ کا ہے۔ اگرچہ پاکستان میں سیاسی یا فوجی کوئی بھی حکومت ہو اس کا بنیادی نوعیت کا نعرہ عام آدمی اور بالخصوص غربت کا خاتمہ ہوتا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے پاکستان کی مجموعی سیاست میں عوام او راس کا بنیادی مفاد حکمران طبقہ کا کوئی بڑا مسئلہ نہیں رہا۔ وہ عوامی مسائل کی بنیاد پر سیاست تو کرتے ہیں لیکن اقتدار میں آنے کے بعد ان کی سیاسی ترجیحات کافی مختلف ہو جاتی ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ عوام کو یہ دیکھنا پڑتا ہے کہ حکمران طبقہ معاشی طو رپر خو دکفیل جبکہ عام آدمی معاشی طو رپر زیادہ بدحال ہوتا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ عام آدمی اور حکمران طبقہ کے درمیان ہمیشہ سے بداعتمادی پر مبنی خلیج حکمرانی کے منصفانہ اور شفاف نظام کو چیلنج کرتا ہے۔

وزیر اعظم عمران خان نے اپنی پارٹی پالیسی کو بنیاد بنا کر ملک سے غربت مٹاؤ پروگرام کا اعلان کیا ہے۔ ان کے بقول اس ملک سے سماجی عمل کے تحفظ کو یقینی بنانے اور غربت کے خاتمہ کے لیے نئی وزارت بنائی جائے گی۔ آئین کی شق 738 ڈی میں ترمیم کرتے ہوئے روٹی، کپڑا، مکان، تعلیم اور صحت ہر شہری کا بنیادی حق سمجھا جائے گا۔ اس تناظر میں وزیر اعظم نے پس ماندہ اور غریب افراد کے لیے 80 ارب روپے کی خطیر رقم کا اضافہ بھی کیا گیا ہے اور اس کو بدتدریج اضافہ کرتے ہوئے 2021 تک 120 ارب تک لے جایا جائے گا۔

حکومتی پالیسی کے تحت لوگوں کی آمدن کا علاقے کے لحاظ سے ڈیٹا اکٹھا کرنا اور ون ونڈو آپریشن کے تحت غرب افراد کو ایک ہی جگہ تمام سہولیات فراہم کرنا اور سروے کے بعد 57 لاکھ لوگوں کے بینک اکاونٹ کھولے جائیں گے۔ اسی طرح حکومتی فیصلہ کے تحت بے نظیر انکم سکیم سپورٹ پروگرا م، بیت المال پاکستان، تخفیف غربت کونسل اور تخفیف غربت فنڈکے تمام اداروں کو یکجا کیا جائے گا۔

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وزیر اعظم عمران خان حکومت میں آنے سے قبل بھی او راقتدار میں آنے کے بعد تسلسل کے ساتھ غربت کے خاتمہ سمیت خط غربت سے نیچے زندگی گزرانے والے افراد کو معاشی طو رپر مستحکم کرنے کی بات کرتے ہیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہمارا حکمران طبقہ ان موضوعات پر بات تو کرتا ہے یا اسی کو یقینی بنانے کے لیے پالیسی، قانون سازی یا ادارے سمیت مختلف نوعیت کے پروگرام شروع کیے جاتے ہیں، لیکن نتائج میں کوئی شفافیت نظر نہیں آتی۔ کیونکہ جس تیزی سے ملک میں عام آدمی کی زندگی میں تسلسل کے ساتھ معاشی و سماجی مشکلات اور حکمرانی کے نظام کی عدم شفافیت کا پہلو نمایاں ہوتا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک طرف وزیر اعظم عمران خان معاشی غربت کے خاتمہ کے پروگرام کا اعلان کرتے ہیں تو دوسری طرف پہلے سے موجود معاشی بدحالی میں کمی کی بجائے اور زیادہ اضافہ لوگوں کی زندگیوں میں مزید مشکلات پیدا کررہا ہے۔ مہنگائی، بجلی، گیس، پٹرول سمیت دیگر اشیا کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ظاہر کرتا ہے کہ حکومت کے پاس فوری طور پر عام یا غریب آدمی کو معاشی ریلیف دینے کے حوالے سے کوئی جامع منصوبہ بندی نہیں۔

ممکن ہے کہ حکومت کے پاس مستقبل کے تناظر میں کچھ اچھی خوش خبری ہو، مگر آج کے حالات بظاہر حکومت کے کنٹرو ل میں نہیں نظر آتے ہیں۔ معاشی میدان میں لمبی مدت کی معاشی پالیسیوں کی یقینی طور پر اہمیت ہوتی ہے، مگر چھوٹی مدت کی منصوبہ بندی بھی اپنی جگہ بہت اہمیت رکھتی ہے او ر اسی پر توجہ دے کر آپ لوگوں س میں امید کا پہلو پید ا کرتے ہیں۔ لیکن حکومتی معاشی سطح کے ماہرین فوری طو رپر عام آدمی کے حوالے سے کوئی ریلیف نہیں رکھتے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ حکومتی معاشی پالیسی او راس کے نتائج پر وہ لوگ بھی تنقید کررہے ہیں جو اس حکومت کے حامی تھے یا ان کی حمایت میں نرم گوشہ رکھتے تھے۔

ابھی حا ل ہی میں قومی ادارہ صحت او ر برطانوی ادارہ برائے بین الا اقوامی ترقی کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں غذائی قلت کے شکار بچوں کی تعدادخطہ میں سب سے زیادہ ہے۔ سٹنٹنگ کے موجودہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں 44 فیصد بچے غذائی قلت کا شکار ہیں۔ اسی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں محض 6 ماہ سے 23 ماہ تک کے 15 فیصد بچوں کو مناسب غذائی سہولتیں میسر ہیں جبکہ 85 فیصد بچے غذائی قلت کا شکار بنتے ہیں۔ اسی طرح سے نئی نسل میں بے روزگاری کا شرح خوفناک حد تک بڑھ گئی ہے پڑھے لکھے اور ان پڑھ لوگ کے سامنے ایک بڑا چیلنج مناسب روزگار ہے۔

ملکی اور بین الا اقوامی سرمایہ کاری میں کمی، کاروبار کے محدود مواقع، وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم، بدعنوانی او رکرپشن سے جڑا نظام، فنی تربیت کی کمی، کمزور معاشی و سیاسی ڈھانچہ، سیاسی عدم استحکام، عالمی اداروں پر حد سے بڑھتا ہوا انحصار، ٹیکس نیٹ میں کمی، حکومتی اداروں کی ناقص پالیسیاں، ادارہ جاتی عمل کا کمزور ہونا، مخصوص طبقہ کے معاشی مفادات کا تحفظ جیسے مسائل کی وجہ سے ہم ایک ایسی معاشی پالیسی یا عمل پیش نہیں کرسکے جو سب کو معاشی تحفظ کو یقینی بناسکے۔

وزیر اعظم عمران خان ہمیشہ چین، ترکی، ملائیشیا، بھارت جیسے ملکوں کی مثالیں دیتے ہیں کہ وہا ں کی قیادت نے چند برسوں میں معاشی سطح پر ایسے اقدامات کیے جس سے نہ صرف غربت کا خاتمہ ہوا بلکہ خط غربت سے نیچے رہنے والے طبقہ کو معاشی طور پر کھڑا کیا گیا۔ لیکن ان ممالک نے جو معاشی و سیاسی پالیسیاں اختیار کیں اس سے عملا ہم کچھ سیکھنے کے لیے تیار نہیں۔ محض ان ملکوں کی مثالیں دینا، نعروں کی بنیاد پر سیاسی ڈگڈی بجانا اور عملی اقدامات میں بہت فرق ہوتا ہے۔ یقینی طور پر عمران خان بہت کچھ بدلنا چاہتے ہیں، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ان کے سامنے ایک فرسودہ نظام ہے او راس نظام کی بنیاد پر بڑ ی اصلاحات یا انقلابی اقدامات ممکن نہیں۔ ہمیں عملا ایک بڑی انتظامی، ادارہ جاتی سمیت اپنی سیاسی ومعاشی پالیسیوں میں ایک بڑی کڑوی سرجری اور دنیا کے تجربات سے سیکھنا ہوگا۔

ایک مسئلہ یہ ہے کہ پوری روایتی سیاست، بیوروکریسی، پالیسی ساز افراد او راداروں نے عملی طور پر پورے حکومتی یا حکمرانی کے نظام کو جکڑا ہوا ہے۔ یہ ہی وہ طبقہ ہے جو بڑی تبدیلی میں رکاوٹ ہے۔ اسی طرح اگر حکمران طبقہ کے پاس خود ٹھوس منصوبہ اور سیاسی فہم و حکمت نہیں ہوگی تو اس کے نتائج بھی مختلف ہی ہوں گے۔ یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ حکومتی معاشی ماہرین کی حکمت کی کمزوری کی وجہ سے یہ تاثر ابھر ہی نہیں رہا کہ حکومت معاشی عمل میں درست ٹریک پر گامزن ہے۔ یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ کوئی بھی جماعت ہو بشمول تحریک انصاف اقتدار میں آنے سے قبل ان کے پاس کوئی ٹھوس ہوم ورک نہیں ہوتا او رمحض نعرے بازی یا اقتدار میں آنے کے بعد روایتی معاشی پالیسیوں میں ہی پورا حکومتی یا حکمرانی کا نظام جکڑا ہوا نظر آتا ہے۔

یہ جو جمہوری اور سیاسی نظام کی کامیابی کی کنجی ہوتی ہے اس کا براہ راست تعلق معاشی استحکام سے ہوتا ہے۔ ایک ایسا معاشی استحکام جو عام یا غریب افراد کے مفاد سے جڑ ہو، وگرنہ معاشی عدم استحکام اور نا انصافی یا تفریق کا عمل عملا سیاسی اور جمہوری نظام کی ناکامی کا سبب بھی بنتا ہے۔ ایک بڑا چیلنج دیہی معیشت کا ہے جو بدحالی کا شکار ہے اور سارا بوجھ شہری معیشت پر کھڑا ہے۔ وزیر اعظم سب سے زیادہ محروم افراد جن میں بیوائیں، معذور افراد، خانہ بدوش، یتیم، مسکین، اسٹریٹ چلڈرن، خواجہ سرا کی بات کررہے ہیں، لیکن یہاں تو متوسط طقہ بھی بدحالی پر مبنی نظام میں جکڑا ہوا ہے۔ امیری اور غریبی میں بڑھتی ہوئی خلیج یا ناہمواریاں ایک بڑا چیلنج ہے جو ملک میں موجود لوگوں میں نفرت یا غصہ پیدا کرنے کا سبب بنتا ہے، جو ملکی مفاد میں نہیں۔

وزیر اعظم کو سمجھنا ہوگا کہ اگر واقعی وہ غربت سے نجات دلانا چاہتے ہیں تو ان کو اپنے ہی اردگرد موجود افراد، نظام اور اداروں کی سطح پر کچھ بڑا کرکے دکھانا ہوگا۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان اشتراک کار، حکمرانی کے نظام کو نچلی سطح پر مستحکم کرنے، اداروں کی شفافیت سمیت منصوبہ یا پالیسی سازی کے نئے عمل کو پیدا کرنا ہوگا جو براہ راست غریب لوگوں کے مفاد سے جڑا ہو۔ ایک نئی سیاست اور عالمی اداروں کی معاشی پالیسیوں میں جکڑ کر یا حد سے زیادہ عالمی اداروں پر انحصار ہمیں کچھ نہیں دے سکے گا۔ وزیر اعظم کو تسلیم کرنا ہوگا کہ ان کی تبدیلی پر مبنی حکومت فی الحال لوگوں کو خوش کم مایوس زیادہ کررہی ہے، یہ ہی عمران خان کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے او راس سے نمٹے بغیر ان کی تبدیلی پر مبنی حکمرانی کا نظام مکمل نہیں ہوسکے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).