پمز: ایک اسپتال یا مذبح خانہ


وفاقی دارالحکومت کا سب سے بڑا سرکاری ہسپتال پمز جہاں خیبر پختونخواہ، اندرون پنجاب کے دور دراز علاقوں سے حصول شفا کے لئے لوگ جوق در جوق آتے ہیں۔ پاکستان انسٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز جسے عرف عام میں کمپلیکس بھی کہا جاتا ہے یہاں پہنچنے کے بعد ایک نئی دنیا آپ کا انتظار کر رہی ہوتی ہے، او پی ڈی یا ایمرجنسی کی پرچی بنوانے سے لے کر مریض کو ایڈمٹ کروانے تک یہاں ہر ایک قدم پہ آپ کی ملاقات مافیا سے ہوگی جس کی جڑیں شاید اس ہسپتال کی بنیادوں سے بھی زیادہ مضبوط ہیں۔

پمز ہسپتال کی انتظامیہ سے جب بھی مریضوں کی صورتحال یا ڈاکٹروں کی لاپروائی کی بات کی جائے تو رش زیادہ ہے کا رٹا رٹایا جواب دے کر جان چھڑوا لی جاتی ہے۔ یہاں کے اکثر ڈاکٹرز شہر کے بڑے پرائیوٹ اسپتالوں میں پریکٹس کرتے ہیں، مریض جتنا ہی سیریس کیوں نہ ہو سینئر ڈاکٹر صاحب موجود نہیں ہوں گے کیونکہ انہیں تو اپنے پرائیوٹ کلینک کو ٹائم دینا ہے۔ جن ڈاکٹر صاحب سے ایک منٹ بات کرنے کے لئے پمز میں اپ کو ایک مہینہ انتظار کرنا پڑتا ہے وہی صاحب پرائیوٹ کلینک میں اپ کی خدمت کے لئے رات ایک بجے بھی حاضر ہوتے ہیں۔

برین یا نیوروسرجری جیسے انتہائی حساس آپریشنز جہاں ڈاکٹر کی چھوٹی سی غفلت مریض کے لئے موت کا پروانہ لا سکتی ہے، وہاں کبھی بھی سنیئر ڈاکٹر آپ کو آپریشن تھیٹر میں نظر نہیں آئیں گے اور اسی وقت وہی ڈاکٹر صاحب اپنے پرائئیوٹ کلینک کے سٹیٹ آف دی آرٹ تھیٹر میں مصروف عمل دکھائی دیتے ہیں۔ اکثر آپریشن جونیئر ڈاکٹرز اور ہاوس جاب کے لئے آئے ایم بی بی ایس کے طالب علم سر انجام دے رہے ہوتے ہیں۔ سیریس سے سیریس مریض کو بھی آپریشن کے لئے مہینوں کی تاریخیں دی جاتی ہیں مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ اسے کسی طرح گھسیٹ کے پرائیوٹ کیلینک تک لایا جا سکے۔

چند روز قبل ایک مریض کی عیادت کے لئے پمز جانے کا اتفاق ہوا جو ماجرا میری آنکھوں کے سامنے ہوا اسے سوچ کے بھی روح کانپ جاتی کہ چند پیسوں کے لئے اس حد تک بھی انسان گر سکتا ہے قصہ کیا ہے وہ بھی سن لیں۔ ڈاکٹر صاحب نے ایم آرآئی ٹیسٹ لکھ کر دیا جو کہ مریضوں کے لئے پمز میں فری دستیاب ہے جب ایم آر آئی کے لئے پہنچے تو بتایا گیا کہ مشین خراب ہے ٹھیک ہونے میں مہینہ لگ سکتا ہے اسی دوران جب مریض مایوس قدموں سے لوٹتا ہے تو پرائیوٹ ایم آر آئی مافیا کے لوگ آپ کے ہاتھ میں کارڈ تھمائیں گے اور یوں مریض وہی ٹیسٹ باہر سے دس ہزار سے کروا کے آئے گا۔

میں نے معاملے کی چھان بین کی تو معلوم ہوا کہ پمز ایم آر آئی ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ کی اپنی پرائیوٹ مشین ہے اور وہ صاحب تمام مریضوں کو وہیں ریفر کر رہے ہیں۔ خیر اس حوالے سے ایک سٹنگ آپریشن بھی کرنا پڑا۔ ٹاوٹس بھی پکڑے گئے جنہوں نے بتایا کہ ایک مریض بھیجنے کا ایک ہزار کمیشن ملتا ہے۔ معاملہ جب ایگزیکٹو ڈائریکٹر پمز ڈاکٹر امجد کے علم میں لایا تو انہوں نے انکوائری کے بعد ذمہ داران کو معطل کردیا۔ کیا یہ معطلی ہی مسائل کا حل ہے؟

سینکٹروں میل دور سے آنے والے مریض اس مافیا کا روزانہ آسانی سے نشانہ بنتے ہیں۔ نیورو سرجری میں لائے گئے ایک مریض کو دیکھا جس کا سر کھلا ہوا تھا اور کان سے خون بہہ رہا تھا اس کی والدہ چیخ چیخ کر ڈاکڑوں کو پٹی کرنے کا کہہ رہی تھیں اور ڈاکٹر صاحب جواب میں فرماتے ہیں کہ روئی اٹھا کر کان میں ڈالو اور اوپر ٹیپ لگا دو۔ قارئین کرام اگر آپ نے اشرف المخلوقات میں بے حسی کی انتہا دیکھنی ہوتو پمز تشریف لے جائیں گیٹ سے لے کر کر آئی سی یو تک ہر ایک قدم پہ انسانیت دھاڑیں مار مار کے رو رہی ہوگی۔

میری موجودگی کے دوران چند خواتین دھاڑیں مار مار کر رو رہی تھیں پوچھنے پر معلوم ہوا کہ چوک منڈا ملتان سے ایک برین ہیمرج کی شکار خاتون مریضہ کو لایا گیا یہاں کے ڈاکٹر صاحب نے علاج میں ریفرڈ ٹو نشتر ملتان کا نوٹ لکھ کر دے دیا۔ بات کرنے پر متاثرہ خاتون کی بیٹی نے بتایا کہ اپنے جہیز کے زیورات بیچ کر ایمبولینس کا کرایہ بنایا اور اب یہاں سے یہ جواب مل رہا۔ پھر ایک طبقہ وہ بھی ہے جس کے پروٹوکول کے لیے پمز کے ڈاکٹرز سارا دن انتطار کرتے ہیں۔

پمز کے ایک وی آئی پی ہال میں نظر پڑٰی تو چند ڈاکٹرز کافی دیر سے کسی کے منتظر پائے میں نے سوچا شاید کوئی میٹنگ ہو گی لیکن جب پوچھا تو پتا چلا کہ دو نہیں، ایک پاکستان والے وزیراعظم کے ایک مشیر کی بیٹی جلد کی چھائیوں کے لئے آ رہی ہیں تو یہ ٹیم ان کی منتطر ہے۔ دوسری طرف پمز کے وی آئی پی وارڈز میں جائیں تو وہاں بڑی پرچیوں والوں کا قبضہ نطر آئے گا اور سب سے بڑھ کے حیرت اور اس فنکاری پر پمز انتظامیہ یقیناً داد کی مستحق ہے جس طرح انہوں نے وزیر اعظم عمران خان اور سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کو مطمئن کر کے بھیجا۔ عمر فاروق کے طرز حکمرانی کی مثالیں دینے والے حکمران جب تک خود ان اسپتالوں میں علاج نہیں کروائیں گے حالات یونہی رہیں گے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).