صحیح کا غلط استعمال


صحیح کو غلط طریق سے استعمال کرنے سے صحیح کی اہمیت کم تو نہیں ہو جاتی پر وقتی طور پر کھو ضرور جاتی ہے۔ اس اہمیت کے کھو جانے کی وجہ سے بہت سے معصوم لوگ اس کے فائدے سے محروم ہو جاتے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کے صحیح کو اپنے مقاصد کے لیے غلط طریق سے استعمال کیا جاتا ہے۔ صحیح کو کسی بھی طرح استعمال کرنے کے لیے صحیح کا علم ہونا ضروری ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کے کوئی لا علم انسان صحیح کو غلط تو کیا صحیح بھی استعمال نہیں کر سکتا۔ پر ایک باعلم انسان جس کے پاس علم ایک امانت ہوتاہے، یہ اس کی اپنی صوابدید پر ہے کہ وہ اس امانت کو دیانت داری سے استعمال کرتا ہے یا خیانت کر کے اپنے مفاد کے لیے غلط استعمال کرتا ہے۔

یوں تو بہت سے مراحل ہماری زندگی میں آتے ہیں، جہاں چھوٹے چھوٹے فائدے کے لیے لوگ سچ کو چھپا جاتے ہیں یا اپنی شہرت بڑھانے کے لیے استعمال کرتے ہیں اور پھر وہ شہرت کسی غلط کو صحیح ثابت کرانے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ اسی فارمولے کو استعمال کرتے ہوئے معمولی معمولی فوائد سے لے کر دنیا کے بڑے بڑے فائدے اٹھائے گئے ہیں۔ ایک چھوٹی سی کمپنی میں ترقی حاصل کرنے سے لے کر امریکہ کے عراق پر حملہ کرنے تک یہ فارمولا ہر مقام پر لاگو نظر آتا ہے۔

لیکن میں آج جس مقصد کے لیے اس مضمون کو کھولنا چاہتا ہوں وہ تھوڑا الگ ہے۔ شاید یہ اس صحیح کے بارے میں ہے جو بہت سارے غلط کی نشاندہی کرتا ہے اور اس صحیح کا صحیح استعمال معاشرے کو بہتر بنا سکتا ہے یا غلط استعمال بہت تھوڑے سے لوگوں کی زندگی بدل سکتا ہے۔ ایسے صحیح کو چھپا کر بہت فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے اور منفی طریق سے بتا کر بھی بہت فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے پر اس کا صحیح استعمال خطرے سے خالی نہیں ہوتا۔ ذیل میں، میں کچھ ایسی ہی صحیح باتوں یا اقدامات کا ذکر کرتا ہوں جو یا تو وقت پر نہ کیے جانے کی وجہ سے مشکوک ہو گئے یا منفی طریق سے پیش کیے جانے کی وجہ سے ضائع ہوگئے۔

بہت سی سچائیاں کشمیر، فلسطین، عراق، لیبیا، شام، افغانستان، اور یمن میں چھپی ہوئی ہیں۔ ان ممالک میں بہت سے من گھڑت صحیح ہیں جن میں فرقہ واریت کی بنیاد پر فائدہ اٹھایا جا رہا ہے اور لوگوں کو بے وقوف بنایا جا رہا ہے۔ اور دوسری طرف بہت سی سچائیوں پر پردہ ڈَالا جا رہا ہے اور جھوٹ کی بنیاد پر ان علاقوں کو اس حال تک پہنچا دیا گیا ہے۔

اس سب میں لا علم لوگوں کو بات کا یقین دلانا سب سے ضروری بات ہے اور اس کام کے لیے جن ذرائع کو استعمال کیا جاتا ہے، ان ذرائع کا بہت بڑا حصہ پرنٹ میڈیا، الیکٹرونک میڈیا، اور اب سوشل میڈیا ہیں۔

پلواما حملے کے بعد سے انڈین میڈیا نے چند منٹوں میں جو پروپیگنڈا شروع کیا۔ اس کے بعد سے بھارت میں ہر عوامی اور غیرعوامی شخصیت اپنی حاضری لگانے کے لیے پروپیگنڈے کا حصہ بن رہی ہے کیوں کہ ان کو پتا ہے کہ غیر حاضری کی صورت میں اس میڈیا کا اور میڈیا کی منفی رپورٹنگ کی وجہ سے عوام کا سامنا کرنا مشکل ہو جائے گا۔ جس کسی کو بھی کسی بھی وجہ سے میڈیا کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے وہ بس ایک ہاں میں ہاں ملانے کا جملہ بول دیتا ہے تاکہ میڈیا اس کی اصل بات سننے کو تیار ہو جائے اور اس فضول جملے کے ساتھ وہ ڈھنگ کی بات بھی اپنی رپورٹ کا حصہ بنا لے۔

اب موجودہ سیاسی، احتسابی، اور عوامی مسائل کی صورتحَال میں پاکستانی میڈیا کے کردار کو دیکھا جائے تو یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ہر طرح کا میڈیا بہت سے صحیح بتا رہا ہے اور کسی بھی بات کو غلط ثابت کرنا تو بہت دور کی بات ہے غلط کہہ دینا بھی بہت مشکلات کا باعث بن سکتا ہے۔ اس لیے بس ہر کوئی اپنی اپنی بات کر رہا ہے کوئی کسی کی بات کی تائید یا تردید کرتا بہت کم نظر آتا ہے۔ پاکستان میں اس وقت صحیح بامقابلہ صحیح کی سی صورتحال ہے۔

اب اس صورتحال میں بات کی جاتی ہے کہ اختلاف برداشت کرنے کا ماحول نہیں رہا اور اب لوگ اختلاف برداشت نہیں کر سکتے اور بہت جلد پھٹ پڑتے ہیں۔ اس حالت کی ذمہ داری تعلیم کی کمی، سہولیات کی عدم دستیابی اور بہت سے مسائل کی وجہ سے پیدا ہونے والی بے صبری اور مایوسی کے سر ڈالی جاتی ہے۔ پر ان ساری وجوہات کے ساتھ ایک مسئلہ اور بھی ہے اور شاید اس مسئلے کا حل حکومت وقت سے زیادہ عام آدمی کے پاس ہے۔ میں اس مسئلے کو حل کرنے کی کچھ ذمہ داری پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کی بھی سمجھتا ہوں۔

میں ان لوگوں میں شامل ہوں جن کو والدین کہا کرتے تھے کہ اردو الفاظ کا ذخیرہ بڑھانے کے لیے پی ٹی وی کا ڈرامہ اور خبریں دیکھا کرو۔ مضامین لکھنے کا سلیقہ سیکھنے کے لیے اردو اخبار کے کالم پڑھا کرو۔ انگریزی الفاظ کی بہترین ادائیگی سیکھنے کے لیے بی بی سی سننا چاہیے۔ مگر اس وقت یہ حالت ہے کہ والدین نہ تو بچوں کو ڈرامہ دیکھنے کی حوصلہ افزائی کر سکتے ہیں اور نہ ہی خبروں کے چینلز دیکھنے کی تلقین۔ اس وقت دونوں پر ہی اتنا انتشار ہے کے زیادہ دیر ٹی وی کے سامنے بیٹھنے سے دماغ کی شریانیں پھٹنے لگتی ہیں۔ اخبارات وہی باتیں چھاپ دیتے ہیں جو ان کے قارئین پچھلے دن سن چکے ہوتے ہیں۔

یہاں یہ بتانا بھی بہت ضروری ہے کہ اِس وقت میڈیا میں موجود لوگ بہت ہی تجربہ کار ہیں اور معاملات اور مسائل کا بہت اچھی طرح سے ادراک رکھتے ہیں۔ حالت کی بہتری اور مسائل کا حل سب بہت اچھی طرح سے جانتے ہیں۔ بہت دفعہ سارے ممکنہ حل بتائے بھی جا چکے ہیں اور نہ صرف بتائے جا چکے ہیں بلکہ متعدد دفعہ دہرائے بھی جا چکے ہیں۔ پر دیکھنے میں یہ آیا ہے کے جس انداز سے میڈیا پر بات کی جاتی ہے وہ مسائل کو حل کرنے یا حالات کو بہتر بنانے میں مدد گار ثابت ہونے کے بجائے جلتی پر تیل ڈالنے یا آگ کو ہوا دینے کا کام کرتی ہے۔ ان سارے حالات میں جب کبھی بھی صحیح بات کی جاتی ہے تو وہ اس سارے انتشار میں گم ہو جاتی ہے اور یا پھر اس انداز سے کی جاتی کے وہ اس انتشار کا حصہ بن جائے۔

ہم سب جانتے ہیں کے کسی بھی مسئلے کو صاحب اختیار تک پہنچانے کا کیا طریقہ ہوتا ہے۔ ہم سب روزی روٹی کی خاطر کوئی نہ کوئی کام کرتے ہیں اور بہت سے مسائل کا سامنا بھی کرتے ہیں اور ان مسائل کا حل بھی ہم جانتے ہیں۔ اگر ہم صاحب اختیار کے کمرے میں دروازے کو لات مار کے داخل ہوں اور تو تکار کرتے ہوئے اپنا مسئلہ بیان کریں تو مسئلے کے حل ہونے کے امکانات بہت کم رہ جائیں گے۔ اور اگر مسئلہ حل ہو بھی جائے تو نئے مسائل کھڑے ہونے کے بہت زیادہ امکانات ہو جائیں گے۔ صرف مسائل کا حل جاننا ہی ضروری نہیں ہے۔ اس حل کو احسن طریق سے متعلقہ لوگوں تک پہنچانا بھی بہت ضروری ہے۔

ہم سب کو جب بھی کبھی کسی بھی قسم کے دفتر سے کام پڑتا ہے ہم بہترین الفاظ میں درخواست لکھتے ہیں بہت عجز و انکسار سے وہ درخواست متعلقہ افسر تک پہنچاتے ہیں اور اس کے بعد بھی ہر قسم کی خدمت دینے کو نہ صرف تیار ہوتے ہیں بلکہ خود بھی اپنی خدمات پیش کر دیتے ہیں۔ مگر جب عوامی مسائل کی بات آتی ہے، معاملات کو ٹھیک کرنے کی بات آتی ہے تو اتنے تحکمانہ لہجے میں بات کرتے ہیں کہ اگر بات صحیح بھی ہو تب بھی سننے والے کو بری ہی لگتی ہے اور بات متعلقہ ادارے یا شخصیات تک پہنچ بھی جائے تو اس پر کوئی مثبت اثر نہیں چھوڑتی۔

اور یہ احساس بہت تیزی سے عوام میں پھیلتا جا رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ تفریحی چینلز ہوں یا نیوز چینلز، پچھلے سالوں کے مقابلے میں ریٹنگز کم ہوتی نظر آرہی ہیں۔ لوگوں میں یہ احساس پیدا ہوتا جا رہا ہے کہ کوئی بھی ان کے مفاد کے لئے بات نہیں کر رہا بس اپنی حاضری لگا رہا ہے تاکہ برا وقت آنے پر کہہ سکے کہ میں نے تو پہلے ہی بتا دیا تھا۔

اس سارے منظر نامے میں دیکھا جائے تو بہت بے یقینی نظر آتی ہے۔ اور صرف حکومت وقت کو ہی نہیں، بیوروکریسی، اسٹیبلشمنٹ، سرمایہ دار، عوام اور ان سب کے ساتھ میڈیا کو اپنا تاثر بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ یہ بات بھی ٹھیک ہے کہ اس تاثر کو بہتر بنانے کے لئے ایک بیانیئے کی ضرورت ہے جو کہ شاید حکومت وقت کی طرف سے آنا چاہیے اور میرے خیال سے حکومت نہ صرف اس پر کام کرہی ہے بلکہ پاکستان کا بین الاقوامی سطح پر تاثر بہتر بنانے کی بھر پور کوشش بھی کر رہی ہے۔

اس لئے ہم سب کو اس بیانیئے کو ساتھ لے کر چلنا چاہیے۔ اور اگر ہم اس بیانیئے سے سو فیصد متفق نہیں بھی ہوں تو بھی ہم اپنی اپنی جگہ اچھے اخلاق کے ساتھ مثبت سوچ اور مثبت طریق سے اس بیانیئے میں کمی اور بہتری پر بات کریں تو بہت سی بہتری آسکتی ہے۔ ہم سب بہت اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ اچھے اخلاق سے بہت سے کام آسان ہو جاتے ہیں۔ اور ہمیں جس قسم کی صورتحال کا سامنا ہے اس میں ایک نئی حکومت ہے اور اس نئی حکومت کے لئے بھی سب لوگ اور حالات نئے ہیں اور ان حالات میں سب سے اچھا دوست وہ ہوتا ہے جس کا اخلاق اچھا اور وہ دوسرے کو اپنی جگہ بنانے کا موقع دے۔ میں یقین سے سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر مثبت سوچ اور مثبت طریق کو اپنایا جائے تو عوام پر بھی مثبت اثر پڑے گا۔

یہ بات ہم سب کو بہت اچھی طرح سے سمجھ لینی چاہیے کہ یہ سب ہم نے ہی کرنا ہے ورنہ کوئی باہر سے آکر سب ٹھیک کرنے کی کوشش کرے گا اور اس کی کامیابی کی بھی کوئی گارنٹی نہیں۔ ہم دیکھ ہی رہے ہیں افغانستان کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ سو سال سے زیادہ عرصہ سے وہ خود بہتری کی طرف آنے کے لئے متحد نہیں ہو پارہے اور دوسرے ان کو اپنی مرضی کی بہتری دینے کی ناکام کوششیں کر چکے ہیں

اطہر محمود خان
Latest posts by اطہر محمود خان (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).