سب کچھ محنت ہی پر منحصر ہے


زندگی صرف کامیابی کا نام نہیں بلکہ مسلسل محنت، جدوجہد اور جنگ کا نام ہے جو شخص محنت و مشقت کو اپنا لیتا ہے فتح و کامیابی کا تاج اسی کے سر پر سجتا ہے۔ شاہراہئی حیات مصائب و مشکلات اور نشیب و فراز سے بھری ہوئی ہے۔ صرف محنت و مشقت ہی کے ذریعے انسان ان مشکلات پر قابو پا سکتا ہے۔ زندگی کے ہر راستے کے لیے محنت لازمی ہے۔ محنت ہی کے ذریعے ہم اپنے ملک اور قوم کے مستقبل کو روشن کر سکتے ہیں نیز مسلسل محنت سے ہم اپنی مخفی صلاحیتوں کی نشوونما کر سکتے ہیں۔ انگلستان کے مشہور شاعر ملٹن نے کہا تھا کہ:

Fame is the spur that the clear spirit doth raise / (That last infirmity of noble mind) / To scorn delights, and live laborious days

یعنی انسان پیدا ہی اس لیے ہوا ہے کہ وہ عیش و عشرت سے نفرت کرے اور جفا کشی کی زندگی بسر کرے، سچی مسرت اسی کامیابی میں ہوتی ہے جس کے لیے ہم قلبی جدوجہد کرتے ہیں۔ ممتاز ماہر تعلیم مائیکل فراڈے کہتا ہے ”بیکار زندگی بے وقوف جیا کرتے ہیں کیا آپ بے وقوف ہیں؟ “ میں نے یہی سوال ان نوجوانوں کے سامنے رکھا جو میرے ساتھ بیٹھے مسلسل زندگی سے شکوہ کناں اور مایوسی کا اظہار کر رہے تھے۔ ان کے خیال میں کامیابی صرف اچھی قسمت سے ملتی ہے یا اچھے مراسم سے۔

وہ سماجی نا انصافیوں سے نالاں، حکمرانوں سے مایوس اور باغیانہ خیال کی طرف جا رہے تھے میں نے انہیں مایوس نہ ہونے کی تلقین کی تو انہوں نے فوراً سوال داغ دیا کہ پھر ہم کیا کریں؟ میں ان کی باتیں سن رہا تھا اور مجھے قدیم یونانی لوک کہانی یاد آرہی تھی کہ کسی گاؤں کے چوراہے پر صرف لنگوٹی باندھے، بڑھی ہوئی داڑھی او ربالوں والا بوڑھا درویش ہاتھ اٹھا اٹھا کے اور چلا چلا کر کہہ رہا تھا ”جو چاہو، سو پاؤ، جو مانگو وہ لے لو“ ’لوگ اسے دیکھتے، مذاق کرتے اور چلے جاتے۔

ان کا خیال تھا کہ یہ کوئی پاگل ہے اور ایسے ہی بولتا جا رہا ہے۔ کچھ دیر بعد اس بوڑھے نے چیخنا شروع کر دیا ”بے وقوفو! میری بات سنو، جو مانگو گے، دے دوں گا“ اس کی صدا سن کے آخر کار ایک نوجوان وہاں رک گیا، کچھ دیر تماشا دیکھنے کے بعدوہ اس کی طرف بڑھا، بوڑھا نوجوان کو متوجہ پا کر خوش ہوا، بڑی شان سے بولا، بول کیا چاہتا ہے؟ نوجوان کو یقین ہونے لگا کہ یہ بوڑھا واقعی پاگل ہے، پھر اس نے مذاق سے پوچھا، کیا جو بھی میں چاہوں گا، تم دے دو گے؟

نہیں، جو بھی تم چاہو گے، پا لو گے، بوڑھے نے جواب دیا۔ وہ کیسے؟ لڑکا بولا۔ بوڑھے نے سوال بدلتے ہوئے کہا پہلے یہ بتاؤ کہ تم چاہتے کیا ہو؟ میں ہیرے موتی چاہتا ہوں لڑکے نے مذاقاً کہا۔ لے سکتے ہو، خستہ حال بوڑھے نے باآواز بلند کہا۔ اچھا! وہ کیسے؟ کیا تم دو گے؟ لڑکے نے پھر سوال کر دیا۔ ہاں ایک ہیرا اور ایک موتی میں دوں گا۔ پھر اس سے جتنے مرضی حاصل کر لینا۔ لا، دے، نوجوان لڑکے نے ہنستے ہوئے کہا۔ تو سن ”میں تمہیں ایک ہیرا محنت کا دیتا ہوں اور دوسرا موتی وقت کا، ان کو سنبھال کر رکھنا۔

جا جاکر حاصل کرلے سب کچھ۔ نوجوان بوڑھے کی بات سن کر ہنسنے لگا اور اسے پاگل سمجھ کر آگے نکل گیا۔ کچھ ہی دور جا کر اس کا ماتھا ٹھنکا۔ ایک ہیرا محنت کا، دوسرا موتی وقت کا، اس کی رگِ حیات پھڑک اٹھی وقت اور محنت۔ یہی تو وہ ہیرا موتی ہیں جن کے اندر کامیابیوں کا راز پوشیدہ ہے۔ بات سمجھ آتے ہی اسے سمجھ آگئی کہ بوڑھا پاگل نہیں ہے اور جس کے پاس یہ دو ہیرا موتی ہوں وہ دنیا میں کچھ بھی حاصل کر سکتا ہے۔

میں نے نوجوانوں سے گذارش کی کہ یہ انسان پر خاص کرم ہے کہ محنت ہر اس آدمی کے پاس مفت میں ہوتی ہے جو تندرست ہے اور وقت مفت میں ہر ایک کے پاس ہوتا ہے۔ بغیر کسی قیمت کے یہ دونوں چیزیں ہر ایک کے پاس ہیں۔ یہی قسمت ہے اور انہی کے بل بوتے پر انسان سب کچھ حاصل کر سکتا ہے۔ یہ یونانی لوک کہانیاں جہاں ختم ہوتی ہے وہیں سے انسانی زندگی کی ایک نئی شروعات ہوتی ہے۔ محنت اور وقت دو ایسے اوپن چیک ہیں جو ہر کسی کے پاس ہوتے ہیں کوئی فرد جب چاہے انہیں کیش کروا لے۔

کب کتنا ملے گا وہ آپ پر آپ کی محنت پر منحصر ہے۔ ہر شخص کی زندگی اس کے کام اوروقت کے مطابق ہوتی ہے۔ کوئی جتنی محنت کرتا ہے، جتنا وقت لگاتا ہے اس کے مطابق ہی ثمر ملتا ہے۔ ببول لگا کر آپ آم کا ذائقہ نہیں چکھ سکتے۔ آپ جو کچھ بھی بننا چاہتے ہیں اس جیسا کام کرنا پڑے گا۔ جب تک آپ ایسا نہیں کریں گے۔ آپ کی خواہش، آپ کا خواب پورا نہیں ہو سکتا۔

میں نے نوجوانوں کو مخاطب کر کے سمجھانے کی کوشش کی کہ دوسروں کی کامیابیوں سے حسد کر کے آپ کامیاب نہیں ہو سکتے۔ شکوے و شکائتیں کرنے اور مایوس ہو جانے کی بجائے محنت او ر وقت کا استعمال شروع کر دیں، انسان جب محنت کرتا ہے تو اس سے کچھ نہ کچھ ضرور پیدا ہوتا ہے۔ بہ الفاظ دیگر محنت کا ماحصل تخلیق ہے یعنی محنت انسان میں خدائی صفات کی عکاسی کرتی ہے۔ محنت کرنا، محنت کا احترام کرنا اور اس کی ترغیب دینا ان خدائی صفات کی تعظیم کرنے کے مترادف ہے جو خدا نے انسان کو عطا کی ہیں۔ لارڈٹینی سن کی ایک نظم کا ایک حصہ ہے کہ

We are not here to play، to dream، to drift;

We have work to do and load to gift

Shun not struggle that is God ’s Gift۔

یعنی ہم اس دنیا میں محض دل بہلانے، خیالی پلاؤ پکانے کے لیے نہیں بھیجے گئے بلکہ ہمیں کام کرنا ہے، محنت کرنی ہے کیونکہ یہ عطیہ خداوندی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جتنے بھی پیغمبر آئے انہوں نے محنت کا احترام کیا بلکہ اپنے پیغام کی صداقت کے لیے محنت و مشقت کا عملی مظاہرہ بھی کیا۔ محنت انسان کی فطرت میں داخل ہے۔ جب بھی کسی نے ایمانداری سے محنت کی وہ کبھی رائیگاں نہیں گئی۔ تمام عظیم الشان لوگ جو تاریخ کے دامن میں شہاب ثاقب کی طرح جگمگا رہے ہیں ان سب نے بڑی بھرپور زندگی گزاری، انہیں عروج اسی وقت حاصل ہوا جب انہوں نے اپنے کام اور نصب العین کے لیے ہر طرح سے محنت کی۔ پائیدار کامیابی اور عظمت کے لیے کوئی شارٹ کٹ نہیں۔ محنت اور محنت کا اصول ہی منزل مراد کی کلید ہے۔ برطانوی شاعر E۔ Henley کہتے ہیں

Hights by greatmen reached and kept

we are not allowed by sudden flight ’

For they while their companions slept

were toiling hard upward in the night

یعنی عظیم لوگ جن بلندیوں تک پہنچے وہ کسی اچانک پرواز کی بدولت نہیں تھا بلکہ رات کے وقت جب ان کے ساتھی خواب خرگوش میں مست ہوتے اس وقت بھی یہ عظیم بزرگ سخت محنت کرتے رہے اوراسی کی بدولت کامران ٹھہرے۔ میری گفتگو سن کر نوجوانوں کی مایوسی امید میں بدلی اور انہوں نے تہیہ کر لیا کہ وہ محنت اوروقت کی قدر و قیمت کو نصب العین بنائیں گے۔ انہیں تھامس ایڈیسن کی یہ بات بھی یاد آگئی اور انہوں نے مجھے خود ہی سنائی کہ محنت و مشقت کا کوئی نعم البدل نہیں۔ نوجوان نسل کو باور کروانے کی ضرورت ہے کہ کامیابی و کامرانی محنت کے بغیر ممکن نہیں۔ Stephen G۔ Weinbaum جو کہ بڑا سائنسی فکشن نگار تھا کی ایک بات نوجوانوں کے نام کر کے بات ختم کروں گا

”If you can ’t excel with talent، triumph with effort“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).