شکر ہے ہابیل اور قابیل کے وقت اسلام کا ظہور نہیں ہوا تھا


آج کل مذہب اسلام پر الزام لگانا اور ہر بات جو کہ نقصِ امن سے جڑی ہو کو اسلام سے جوڑنا بہت اسان ہو گیا ہے۔ کچھ افراد تو تنقید میں اتنے بڑھ جاتے ہیں کہ ہر واقعے کا تعلق کہیں نہ کہیں سے اسلامی تعلیمات سے جوڑ دیتے ہیں کیونکہ آج کل ان باتوں کا رواج ہے۔

دورِ حاضر کے ذرائع ابلاغ دہشت گردی کا لفظ بہ کثرت استعمال کررہے ہیں۔ چند افراد پوری طاقت سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ (نعو ذ باللہ) دہشت گردی کا رشتہ اسلام سے ہے جبکہ تشدد اور قتل و غارتگری اسلام میں آگ پانی جیسا بیر تصور کیا جاتا ہے۔ جہاں تشدد ہو وہاں اسلام کا تصور نہیں کیا جا سکتا ہے۔ جہاں اسلام ہو وہاں تشدد نہیں ہوسکتا۔ اسلام امن و سلامتی کا سر چشمہ اور انسانوں کے مابین محبت اور خیر سگالی کو فروغ دینے والا مذہب ہے۔

خود رب کریم قران میں فرماتے ہیں کہ۔ وَلَا تُفْسِدُوْفِی الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِھَا۔ ترجمہ: اور زمین میں فساد نہ پھیلاؤ اس کے سنوارنے کے بعد (القرآن سورۃ الاعراف، آیت 56، کنزالایمان) یعنی حضور نبی کریم ﷺ کی برکت سے زمین میں ایمان و تقویٰ عدل و انصاف قائم ہوگیا تو تم کفر و شرک اور ظلم و ستم نہ کرو۔ معلوم ہوا اگرچہ فساد پھیلا نا بہر حال برا ہے۔ مگر جہاں اصلاح ہوچکی ہووہاں فساد پھیلانا زیادہ برا ہے۔

فساد پھیلانا قتل و غارتگری کرنا ناقابلِ معافی جرم ہے۔ تشدد کا خمیر ظلم و جبر نا انصافی کے وحشت سے اٹھتا ہے اور خون ریزی، قتل و غارتگری سے اس کی کھیتی سیراب و لہلہاتی ہے۔

ھماری بدقسمتی یہ ہے کہ جو افراد دہشتگردی کا تعلق اسلام یا کسی مذہب سے جوڑتے ہیں وہ انسانی جبلت کے پہلو کو بھول جاتے ہیں کہ انسان اپنے مقاصد کے لیے جانے یا انجانے میں مذہبی تعلیمات کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتا ہے لیکن بدنام مذہب ہوتا ہے اور وہ یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ اسی مذہب میں ایسے افراد ہیں جو کہ امن، مساوات اور مذہبی ہم آہنگی کی بات کرتے ہیں۔ جو غلط بات پر اواز بھی اٹھاتے ہیں۔ جو جیو اور جینے دو پر یقین رکھتے ہیں۔

لیکن اب یہ باتیں دقیانوسی سی ہو گئی ہے۔ جب تک ہم اسلامی تعلیمات پر تنقید کے نشتر نہ چلا لیں ہم دنیا کی نظروں میں اچھے نہیں بن سکتے۔ ہمیں بس واقعات چاہیے جو یہ ثابت کریں کہ جو بھی غلط ہورہا ہے اسلام کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ شکر ہے ہابیل اور قابیل کے وقت اسلام کا ظہور نہیں تھا ورنہ اس قتل کو بھی اسلام سے جوڑ دیا جاتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).