مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے
گزشتہ چالیس منٹوں سے وہ ڈاکٹر محمد علامہ اقبال، ان کی فکر، سوچ اور شاعری کے حوالے سے بلا تکان بول رہا تھا۔ اس کے ساتھی بھی اس کی ہاں میں ہاں ملائے جا رہے تھے۔ وہ اقبال کے کلام کو چربہ اورسرقہ قرار دیتے دیتے بے مقصد و بے معنی کہنے لگا۔ پھر ان کی شاعری کے سقم بیان کرنے کے بعد بولا۔۔ ”وہ مفکر تھا نہ دانشور، وہ ایک کنفیوزڈ آدمی تھا۔ جس کا ہیرو کبھی مارکس تھا تو کبھی مسولینی۔ وہ ملکہ و کٹوریہ کے قصیدے لکھتا تھا۔ اس نے جارج پنجم سے نائٹ ہڈ کا خطاب لیا تھا، سر کا خطاب حاصل کرنے کے لئے انگریزوں کی منتیں کیں۔ مسلمانوں کی جنگی فتوحات کو عظمت کہتا تھا اور ان کے زوال کو نشاط ثانیہ کا آغاز۔ خود تنقیدی اس کے مزاج میں نہیں تھی۔ شراب پیتا تھا مگر اندر سے کٹر مولوی تھا، آج کے جہادی اس کی وجہ سے دہشتگرد دبنے ہوئے ہیں۔ “
مجھے محسوس ہوا کہ اقبال پاکستان اور برصغیر تو کیا، دنیا کے ہر مسئلے کی جڑ ہیں۔ بڑے احترام سے دریافت کیا،
”آپ نے بانگِ درا پڑھی ہے؟
بولے ”نہیں تو“
”بالِ جبرائیل؟ “
جواب نفی میں آیا۔
” ضرب کلیم اور ارمغانِ حجاز؟ “
کہنے لگے۔ ”یہ کیا ہے؟ “
میں نے کہا ”اقبال کے اردو کلام کے مجموعے۔ “
کہنے لگے ”ہم نے تو ان کتابوں کے نام نہیں سنے۔ “
میں نے کہا ”تب تو آپ نے اقبال کے فارسی کلام کو پڑھ کر، جو ان کی نظر میں ان کا حقیقی کلام تھا، یہ نتیجہ اخذ کیا ہوگا؟
”فارسی کلام؟ “ تینوں نے حیرت سے میری طرف دیکھا۔
”جی“ میں نے عرض کیا، ”اسرارِ خودی، رموز ِبے خودی، پیام ِمشرِق اور زبُور عجَم ان کے فارسی مجموعہ کلام ہیں۔
جواب آیا، ”نہیں ہم تو فارسی بالکل نہیں جانتے۔ “
اوہ تو پھر شاید آپ علاوہ کے Reconstruction of Religious Thought in Islam کو پڑھ کر سیخ پا ہیں۔
”یہ کیا ہے؟ “ سوال پر سوال آیا۔
میں نے کہا یہ اقبال کے ان لیکچرز کا مجموعہ ہیں جو انہوں نے وقتاً فوقتاً مدراس، حیدرآباد اور علی گڑھ میں دیے، جن کے موضوعات اسلام، قانون، سیاست اور دیگر علوم ہیں۔
”یہ کتاب انگلش میں ہے؟ “ پوچھا گیا۔
”جی اور اس کا اردو ترجمہ اتنا معیاری نہیں ہے۔ “ میں نے عرض کیا۔
”یہ سب چیزیں تو ہم نہیں جانتے خیر۔ “
میرا اگلاسوال تھا، ”تو پھر آپ نے اقبال کی خرد دشمنی اور دہشت پسندی کا اندازہ اقبال کے کلام پر لکھی تحقیقی کتابوں کو پڑھ کر لگایا ہوگا۔ “
جواب آیا۔ ”اس کی کیا ضرورت ہے، آپ نے دیکھا نہیں سارے جہادی، تکفیری اور دہشت گرد اقبال کا کلام پڑھتے پڑھاتے نظر آتے ہیں۔ “ میں نے کہا، ”فکر نہ کریں اب اقبال اکیلے نہیں ہیں۔ اب فیض جیسے کمیونسٹ بھی جہادیوں، قاتلوں اور تکفیریوں کے محبوب بن چکے ہیں۔ ابھی پچھلے دنوں ایک شدت پسند قاتل کے جنازے میں سب سے زیادہ فیض کے اشعار پڑھے گئے ہیں۔ مبارک ہو۔ اقبال کے ساتھ ساتھ اب فیض بھی! “
- تیسری بیٹی - 12/02/2023
- بے حیا لڑکی - 30/01/2023
- ری ہیبیلیٹیشن سینٹر - 01/01/2023
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).