بے گوروکفن جنازہ


کسی معاشرے کی تہذیب و ثقافت، اس میں عائد رسم و رواج، اور معاشی، معاشرتی اور سیاسی پہلوؤں کا دائرہ کار سمجھنے کے لیے اس معاشرے میں تخلیق کیا جانے والا ادب خصوصی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ غرض کہ ادب ایک معاشرے کا عکاس ہے اور معاشرتی تہذیب و ثقافت کی حفاظت کا ضامن۔

گزشتہ دو برس سے اردو ادب کے مطالعہ کا شرف نصیب ہوا۔ جدید اور کلاسیکی دور کے ادب کو سمجھنے، پرکھنے اور جانچنے کے بعد آج رقم طراز ہوں کہ دل کے غبار کو الفاظ کے روپ میں ڈھال سکوں۔ دور جدید کی بات کی جائے تو ہر شخص خود کو لکھاری تصور کیے الفاظ کے لامتناہی سلسلے کا ایک جال بنے ہوئے ہے۔ الفاظ کے اس جال میں ادب کا بے گوروکفن جنازہ قارئین کے لئے ستم ظریفی کا باعث بنا ہوا ہے۔

دور جدید کے لکھاری حضرات کی خدا جانے کیا شعبدے بازی ہے کہ بس لکھنا چاہتے ہیں اور تحریر پڑھنے سے یوں لگتا ہے کہ جیسے لکھنے پر مجبور ہیں۔ اور ہوں بھی کیوں نا کہ یہی لکھنا لکھانا ان کے پیٹ بھرنے کا واحد سہارا ہے اور اسی چکر میں ادب کے اندر ایک ایسا بھونڈا پن پیدا کر چکے ہیں کہ ازالہ کے لئے شاید مدتیں درکار ہوں۔ تحریر ہے کہ بس ربڑ کی مانند کہ کھینچتے جائیں اور حسب ضرورت لمبا کر لیں۔

دور حاضر کے ان جدت پسند لکھاری حضرات کے لب و لہجہ میں نا وہ شوخی و شیرینی باقی ہے نا آہ و بکا۔ نا الفاظ میں تاثیر ہے نا وہ پر اسراریت اور نہ وہ چنچلہ پن جو ایک عرصہ دراز تک اردو معلی کا خاصہ رہا ہے۔ اور تحریر کی معنویت تو جیسے روزی روٹی کے چکر میں کہیں کھو ہی گئی ہو۔

دور حاضر کے قارئین کے پاس ما سوائے اس کے کہ کلاسیکی ادب سے اپنے بنجر اذہان کو سیراب کریں کوئی چارہ کار باقی نہیں۔ جدید ادب ان کے لئے ایک تماشے کے سوا کچھ نہیں کہ اس سے وقت کے چند لمحات تو گزارے جا سکتے ہیں مگر دل کے گھٹاٹوپ اندھیروں میں شمع آس روشن نہیں کی جا سکتی۔

یہ ادب سینوں میں قید جذبات کی ترجمانی کرنے سے قاصر ہے کہ الفاظ تو موجود ہیں مگر ان میں غالب کی شوخیِ بیان نہیں۔ جو انداز درد بیان میر کے الفاظ کا خاصہ رہا ادب جدید اس سے محروم ہے۔ افسانہ نویسی میں اپنا کمال دکھانے والے سعادت حسن منٹو صاحب کی روح شاید بے چین ہوگی کہ دور حاضر کے افسانے حقیقت سے کوسوں دور ہیں۔ آج کے سفر نامے ابنِ انشاء کے الفاظ کی چاشنی سے محروم ہیں۔ مشتاق احمد یوسفی صاحب جیسا مزاح نگار کوئی دوسرا دکھائی نہیں دیتا۔

جدید ادب مذہب اور رومانویت کا ایک ایسا بے ہودہ جال ہے کہ جس کا حقیقت سے دور دور کوئی واسطہ نہیں۔ مذہب کی ایک بگڑی ہوئی شکل اور اس پر رومانویت کا رنگ، تصوف و روحانیت اور اس پر دنیاوی عشق کا تڑکا اور خدا جانے کیا کیا۔ سیاسی اور استعماری وجوہات کے علاوہ اردو زبان کی خستہ حالی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پچھلی کچھ دہائیوں سے ایسا ادب تخلیق نہیں کیا جا سکا جس کو قومی یا عالمی سطح پر سراہا جا سکے۔

شاید ایک عرصہ دراز سے اس بات کا انتظار ہے کہ دھرتی کا سینہ چاک کر آب سخن جاری ہو اور جدید ادب کے لکھاری حضرات اس میں اپنا قلم ڈبو کر ایک پرتاثیر اور قابلِ تعریف کارنامہ سر انجام دیں جو ادب کو اس کی حقیقی بلندیوں تک پہنچا سکے اور دنیائے ادب میں ایک انقلاب برپا کر سکیں۔ اسی امید پر ادب کے اس بے گوروکفن جنازہ کو کندھوں پر اٹھائے اس آس میں ہیں کہ شاید ایک نئی روح پیدا ہو۔ انتظار کیجئے اور اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ:

”پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ۔ “


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).