جہانگیر ترین اور شاہ محمود قریشی کی لفظی گولہ باری اور کپتان


سال ہا سال سے بہاؤالدین ذکریا اور شاہ رکن الدین عالم کے درباروں کی گدی نشینی کے کاروبار سے کاروبار سیاست چلانے والے مخدوم کا ضمیر اچانک بیدار ہو گیا ہے یا ایک مدت سے گھاٹ گھاٹ کی سیاسی پارٹیوں کا پانی پینے والے نے کسی نئی شاخ پر نشیمن بنانے کا ارادہ کر لیا ہے؟ جہاندیدہ و تجربہ کار سیاست دان نے واقعی عمرانی اقتدار کی ڈولتی اور ہچکولے کھاتی کشتی سے چھلانگ لگانے کی تیاری کر کے دانشمندی اور سیاسی بصیرت افروزی کا ثبوت دیا ہے یا ملک پر مسلط مہنگائی، بیروزگاری، غیر یقینی اور معاشی و سیاسی بد حالی کی کریہہ اور ظالمانہ تصویر دیکھ کر مداری کی طرح ڈگڈگی بجا کر عوام کی توجہ بانٹنے کی کوشش کی ہے؟

ملکی اور عالمی سیاسی بساط کے پرانے کھلاڑی کو غیبی طاقتوں کی طرف سے ان ہاؤس تبدیلی کے نتیجے میں اقتدار کے سنگھاسن پر بٹھائے جانے کا کوئی اشارہ ملا ہے یا کپتان نے نا اہل جہانگیر ترین کے ناروا اور بھاری بوجھ کو اتار پھینکنے کے لیے وہ آزمودہ ہٹھکنڈا اختیار کیا ہے جس کی ایک جھلک علیم خان کیس کے حوالے سے نظر آتی ہے؟ وجوہات کچھ بھی ہوں ملتان کے سجادہ نشین نے بظاہر بالانشینوں اور پردہ نشینوں کو یکبارگی حیران و پریشان کر دیا ہے۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ پی ٹی آئی کے ان دو بڑوں کی نوک جھونک، رسہ کشی اور باہمی چپقلش کوئی نئی بات نہیں کیونکہ ایک میان میں دو تلواروں کا مدت مدید تک سنبھالے رکھنا ناممکن کام ہے۔ مگر اب کی بار تو ملتان کے مخدوم نے تیر ستم اور سنگ ملامت تاک کر نشانے پر مارا ہے۔ آپ ان کی بات سے اختلاف بھی بمشکل ہی کر سکیں گے کیونکہ انہوں نے بات اگرچہ رسوائی کی کی ہے مگر بات بالکل سچ کہی ہے۔ شاعر نے تو کہا تھاکہ

بات سچی ضرور کہتا ہے
اگرچہ بین السطور کہتا ہے

مگر اس بار مخدوم صاحب نے تو بات بین السطور نہیں ڈنکے کی چوٹ پر کر دی۔ کٹھ پتلی حکومت پہلے ہی پتلی گلی میں پھنسی بری طرح ہانپ رہی ہے اوپر سے شاہ صاحب نے پتلی تماشا دکھانا شروع کردیا۔ سنا ہے کہ آج کل کپتان کی بنی گالہ کی روحانی قوتوں سے بھی ان بن چل رہی ہے جب کہ رجالِ غیب کی کر شمہ سازیاں اور کرامات کے جلوے بھی پھیکے او ماند پڑتے نظر آ رہے ہیں۔ ہم پوری دیانت داری سے سمجھتے ہیں کہ شاہ صاحب نے بات بالکل درست اور کھری کی ہے کیونکہ کپتان صاحب نے یو ٹرن کے نام پر بے اصولی، پسپائی، عہد شکنی اور کذب و افترا کی انتہا کر دی ہے۔

انہوں نے خوب کو زشت اور زشت کو خوب بنانے کے لیے یو ٹرن کے نام پر جو ہڑبونگ مچا رکھی ہے اس سے تو اب پی ٹی آئی کا سنجیدہ طبقہ بھی عاجز آتا جا رہا ہے۔ وہ پہلے ایک باب میں کوئی اصول وضع کرتے ہیں پھر جب اس پر لوگوں کو پرکھنے کا مرحلہ آتا ہے تو اپنے لیے ایک پیمانہ مقرر کرتے ہیں اور مخالفین کے لیے دوسرا۔ آرٹیکل باسٹھ تریسٹھ کی زد میں آکر نواز شریف صاحب کو اپنی وزارت عظمٰی، پارٹی قیادت اور سیاسی سرگرمیوں سے محروم ہونا پڑا اور کپتان اسے آئین و قانون کی بالا دستی اور مثبت سیاسی روایات کی پاسداری قرار دیتے رہے ہیں مگر جب عدالتی نا اہلی کے باعث اپنے مربی اور اے ٹی ایم مشین جہانگیر ترین کو سوئی کے اسی ناکے سے گزارنے کا وقت آیاتو ترازو اور اس کے پلڑے فوراً بدل لیے۔

پھر میرا کرپٹ ہپ ہپ اور تیرا کرپٹ تھو تھو ہو گیا۔ اسی پہ بس نہیں اصل تماشا اس وقت لگتا ہے جب کپتان عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہوئے اپنے اس کارنامے کو تاریخی یو ٹرن سے تعبیر کرتے ہیں۔ خیر کپتان کے آٹھ ماہ میں لیے جانے والے ایسے یو ٹرنوں کی تعداد اس قدر زیادہ ہے کہ ایک ضخیم کتاب مرتب ہوسکتی ہے۔ یہ داستان پھرکسی دن، فی الحال ہم پی ٹی آئی کے دو بڑوں کی باہمی چپقلش کے نتیجے میں حکمران پارٹی میں بننے والے دو طاقتور دھڑوں اور کپتان کی مشکلات پر آتے ہیں۔

کپتان بارہا ان دو بڑوں کی باہمی رنجش اور رسہ کشی کے حوالے سے کہہ چکے ہیں کہ حکومت ملنے کے بعد ان کی لڑائی مضبوط اور تگڑے وزیر اعظم کی وجہ سے ختم ہو جائے گی۔ مگر ان کی امید کے برخلاف سب نے دیکھا کہ حکمران پارٹی کو کس طرح جگ ہنسائی کاسامنا کرنا ہڑا۔ کپتان کو اگر کرپشن پر نا اہل شخص کو سرکاری اور غیر سرکاری اجلاسوں میں بٹھانے سے کوئی مسئلہ نہیں ہے تو نواز شریف، اسحاق ڈار اور ان کی معاشی ٹیم سے بھی مشاورت کر لیں جنہوں نے بد حال معیشت کو بحالی کے راستے پر ڈال دیا تھا۔

کپتان نواز شریف سے یہی راز کی بات پوچھ لیں کہ جب اوپن مارکیٹ میں پٹرول کی آج والی قیمت چل رہی تھی تو انہوں نے پاکستان میں اس کے نرخ 65 روپے فی لیٹر کس طرح برقرار رکھے تھے؟ مگر کپتان ٹھہرے انا پرست، نرگسیت کے ما رے اور خود پسند راہنما، وہ بھلا ملکی مفاد میں نواز شریف جیسے غدار اور چور ڈاکو سے بات کیوں کر یں گے؟ بہرحال سنا ہے کہ کپتان نے اپنے دونوں نو رتنوں کے درمان وقتی طور پر سیز فائر کروا دیا ہے مگر یہ سیز فائر کتنی دیر برقرار رہے گی کیونکہ بقول شاعر دونوں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی۔

اصل گھٹن، اضطرابی کیفیت اور لفظی گولہ باری حکومت کی ہر شعبے میں بدترین کارکردگی اور نا اہلی کی وجہ سے ہے۔ کیونکہ سب جانتے ہیں کہ حکومت کے ہر اجلاس میں پارٹی راہنماؤں اور اتحادیوں کے درمیان تو تکار اور بحث و تکرار ہوتی ہے۔ فی الحال اس بدترین کارکردگی میں مستقبل میں بہتری آنے کی کوئی امید بھی نہیں ہے۔ یہ حکومت پہلے ہی بھان متی کے کنبے کے مصداق کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا اکٹھا کر کے بڑی مشکل سے عمران کے سرپرستوں کی طرف سے کھڑی کی گئی تھی جواپنی ہی نا اہلی کے بھاری بوجھ تلے آکر گرنے والی ہے۔

کپتان صاحب کو اگر اپنی ٹیڑھی میڑھی اور بوسیدہ صفوں میں اتحاد برقرار رکھنا ہے تو نادیدہ کی ناز برداری اور باربرداری کے ساتھ ساتھ کچھ اپنی کارکردگی بھی دکھانا پڑے گی ورنہ جہانگیر ترین اور شاہ محمود اور ان دونوں کے حامیوں کے دلوں میں نفرت اور بیزاری کی سلگتی چنگاریاں کسی بھی وقت شعلہء جوالہ بن کر کٹھ پتلی حکومت کو خس و خاشاک کی طرح بھسم کر دیں گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).