برما کی بے بس عورتیں چینی بچے پیدا کرنے کی پابند


میانمار (برما) کے لوگوں پر ہونے والا ظلم و ستم کیا پہلے ہی کم تھا کہ اب یہاں کی عورتیں چین کی ”ایک جوڑا ایک بچہ“ کی ناکام ترین پالیسی کا بھگتان بھی بری طرح کر رہی ہیں۔ کل ای میل پر موصول ہونے والی ہیومن رائٹس واچ کی ایک سو بارہ صفحات پر مشتمل رپورٹ میرے لیے کسی دھماکے سے کم نہ تھی۔ اصل صورت حال یقیناً بیان کردہ حالات سے زیادہ دردناک ہو گی لیکن عالمی بے حسی اس سے کہیں زیادہ اذیت ناک ہے۔ میانمار کی کچن ریاست سے تعلق رکھنے والی ان عورتوں پر ڈھائے جانے والے بھیانک ظلم کی کڑیاں شمالی سرحد سے جا ملتی ہیں، جس کے پار چین کی عظیم الشان ریاست قائم ہے۔

1975 سے 2015 تک چین میں ایک جوڑا ایک بچے کا قانون بزور نافذ کروایا گیا۔ وہ معاشرتی روایات جن میں صرف بیٹا ہی والدین کا بڑھاپے میں کفیل قرار پاتا ہے، اس کے تحت چینی جوڑوں نے صرف بیٹے کی پیدائش کو ترجیح دی اور بڑی تعداد میں بیٹیوں کو شکمِ مادر میں ہی قتل کردیا گیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ چین میں عورتوں کی تعداد تیزی سے گھٹنے لگی۔

کئی دہائیوں تک رائج رہنے والے اس قانون کے بدترین اثرات سامنے آئے، تو چین میں یہ پالیسی واپس لے لی گئی لیکن سالوں اس فیصلے کو جبراً منوانے کا نتیجہ یہ ہوا کہ چین بری طرح صنفی عدم توازن کا شکار ہوگیا۔ اب حال یہ ہے کہ ایک بڑی تعداد میں چینی نوجوانوں کو گھر بسانے اور اولاد پیدا کرنے کے لیے مقامی عورتیں دست یاب ہی نہیں۔ عورتوں کی یہ کم یابی کئی چینی نسلوں میں ایک بڑا صنفی خلا پیدا کرچکی ہے جسے پاٹنے کا کوئی طریقہ کارگر نہیں سوائے اس کے کہ دوسرے خطوں سے عورتوں کو اسمگل کر کے یہاں لایا جائے اور انہیں چینی نوجوانوں کی دلہن بنا دیا جائے۔ اس مکروہ مقصد کی تکمیل کے لیے میانمار کی فساد زدہ ریاست ”کچن“ کی عورتیں سب سے زیادہ استعمال کی جارہی ہیں۔

ریاست کچن میں مردوں کی ایک بڑی تعداد اس تنازعے کے فریق کے طور پر براہِ راست شامل ہے۔ یوں عورتوں کے کندھوں پر ہی کفالت کی بھاری ذمہ داریاں عائد ہیں۔ کچن کی ثقافتی اقدار بھی گھر کی بڑی بیٹی کو معاشی معاملات کا ذمے دار قرار دیتی ہیں۔ یوں کیمپوں میں پناہ لینے والی عورتیں اور لڑکیاں اس بڑی ذمے داری کو تنہا نبھانے کی جدوجہد میں چاروں طرف ہاتھ پاؤں مارتی ہیں۔ میانمار حکومت کی طرف سے ان کیمپوں میں جاری امداد بند کیے جانے کے بعد انسانی اسمگلروں کی طرف سے چینی حدود میں ناجائز داخلے کا دروازہ کھول دیا گیا۔

کچن کے بے گھر ہونے والے دس لاکھ افراد میں سے صرف عورتیں ہی انسانی اسمگلروں کی توجہ کا مرکز ہیں تاکہ وہ چین میں عورتوں کی شدید کمی کو پورا کر سکیں۔ یہ عورتیں بہترین نوکریوں اور پر آسائش زندگی کا جھانسا دے کر سرحد پار اسمگل کی جا رہی ہیں، جہاں تین ہزار سے تیرہ ہزار ڈالر کے درمیان چینی خاندانوں کو فروخت کردی جاتی ہیں۔ یوں ان خاندانوں کو اپنے بیٹوں کے لیے زرخرید دلہنیں میسر آجاتی ہیں۔ یہ عورتیں کہلائی تو دلہن جاتی ہیں لیکن ان کو صرف اور صرف چینی مردوں کی جنسی بھوک مٹانے اور ان کا بچہ پیدا کرنے کے لیے استعمال میں لایا جاتا ہے۔

کئی مہینوں تک بند کمروں میں رکھ کر تواتر سے ان کا ریپ کیا جاتا ہے تاکہ وہ جلدازجلد حاملہ ہوسکیں۔ چینی خاندانوں کا ان عورتوں سے صرف یہی تقاضا ہوتا ہے کہ ”بچہ پیدا کرو اور آزادی حاصل کرو۔ “ بچے کی پیدائش کے بعد ان عورتوں کو دودھ پلانے کے لیے صرف سال بھر تک اس گھر میں جگہ دی جاتی ہے۔ اس دوران یہ بدبخت مائیں اپنے بچوں کے ساتھ کچھ وقت گزارنے یا دودھ پلانے کے علاوہ انہیں گود میں لینے سے بھی محروم کردی جاتی ہیں۔

بالآخر سال بھر بعد انہیں گھر سے کسمپرسی کی حالت میں نکال دیا جاتا ہے، لیکن افسوس آزادی پھر بھی ان کا مقدر نہیں بن پاتی اور یہ عورتیں کسی اور گھر میں چینی نسل بڑھانے کے لیے قید کردی جاتی ہیں۔ اس شرم ناک ظلم کے باوجود 2030 تک ایسے چینی مردوں کی تعداد پچیس فی صد تک ہوگی جنہوں نے اپنی زندگی کے تیس سال بغیر بیوی یا کسی عورت کے گزارے ہوں گے۔

انسانی حقوق کی تنظیموں کے پا س اب تک درست اعداد و شمار نہیں کہ میانمار سے ہر سال کتنی عورتیں چین اسمگل کی جاتی ہیں، لیکن رپورٹ کے مطالعے کے بعد میرا اندازہ ہے کہ یہ تعداد خطرناک اور حیران کن حد تک جا پہنچی ہے اور اس میں مسلسل اضافہ ہی ہورہا ہے۔ چین اور میانمار دونوں ہی طرف کا قانون کسی بھی قسم کی اسمگلنگ کی ممانعت کرتا ہے لیکن افسوس دونوں ملکوں کی سرحدوں پر موجود پولیس اہل کار ہی اس غیرانسانی دھندے میں ملوث ہیں۔ حتی کہ گزشتہ سال ایک لڑکی نے چین سے فرار ہونے کی کوشش کی تو وہ سرحد پر موجود اہل کاروں کے ہاتھوں دھر لی گئی، جنہوں نے رہائی کے عوض اس کے گھر والوں سے آٹھ سو امریکی ڈالرز کا مطالبہ کیا۔

غلط پالیسیوں اور صنفی بنیادوں پر ہونے والے اسقاط حمل کے نتیجے میں چین میں عورتوں کا جو قحط پڑا، اس کمی کو پورا کرنے کے لیے جنگی اور فسادزدہ خطوں کی عورتوں کا بدترین استعمال اور اس پر عالمی اداروں کی خاموشی دونوں مجرمانہ ہیں۔ اس سے زیادہ کڑوا سچ اور کیا ہو گا کہ جن ملکوں میں عورتوں کی تعداد بہت زیادہ ہے وہاں بھی وہ استحصال کا شکار ہیں اور جہاں تعداد میں بہت کم ہے وہاں بھی رولی جارہی ہیں۔ صرف چین ہی نہیں بلکہ انڈیا، کمبوڈیا، ویت نام اور کوریا میں بھی بڑھتا ہوا صنفی عدم توازن عورتوں کی شرح خطرناک حد تک گھٹاتا جارہا ہے۔

لیکن اس کمی کو پورا کرنے کے لیے اختیار کیے جانے والے غیرانسانی حربے قابلِ ملامت ہیں۔ ایسے ممالک میں عورتیں صرف اسمگلنگ ہی نہیں بلکہ ہر طرح کے تشدد کا شکار بنائی جاتی ہیں۔ زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے صنفی عدم توازن کے مسئلے پر مثبت طریقے سے قابو پانا ہی عورتوں کے حقوق کا ضامن ہے، اس کے سوا سب بے کار ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).