کامران موچی اور جوتے کا سوراخ


کامران موچی کا مسئلہ یہ تھا کہ وہ دنیا کو جوتے کے سوراخ سے دیکھتا تھا۔ اسے موچی کا کام آتا تھا اور اس کے اسرار و رموز سے واقف تھا۔ آپ کہہ لیجیے کہ وہ ایک اچھا موچی تھا مگر اسے فلسفی بننے کا بھی خبط ہو گیا اور اس نے سوچ لیا کہ وہ جوتا گانٹھنے کے فن سے ہی سارے عالم کو سمجھ لے گا۔ وہ اشفاق احمد کے کرداروں جیسے مکالمے بول لے گا اور لوگ اس میں حکمت و دانائی تراش لیں گے۔ مگر سوچنے کی بات یہ بھی تو ہے کہ ساری دنیا کیا یوں جوتے کے سوراخ سے دیکھ کر سمجھی جا سکتی ہے؟

مگر کامران موچی کیا ایسا کرنے والا ہمارے معاشرے کا واحد انسان ہے؟ دراصل یہ بات تھوڑی تفصیل کی متقاضی ہے۔ دنیا کو اپنے ذاتی تجربات سے سمجھنے کی کوشش کرنا ایک انسانی روش کا نام ہے جسے مکمل طو رپر غلط نہیں کہا جا سکتا۔ مگر سوچنے کی بات یہ بھی تو ہے کہ ہمارا تجربہ کتنا بڑا ہے؟ ہمارا فہم کتنا بڑاہے، ہم نے اپنی زندگی میں کن خیالات پر غور کیا ہے؟ کیا علوم حاصل کیے ہیں اور وہ عالم کی تفہیم میں ہماری کتنی معاونت کرتے ہیں؟

اقبال اور عسکری جیسے شعور والے جب ”میں یہ سمجھتا ہوں“ کہتے ہیں تو اس کے معانی بہت بڑے ہوتے ہیں۔ جب کہ جب میرے اور آپ جیسے اپنے اپنے میدان کے، بلکہ کنویں اور جوہڑ وں کے کامران موچی ”میں یہ سمجھتا ہوں“ کہتے ہیں تو اس کا مطلب کچھ اور ہوتا ہے۔ انسان کو اپنی قدرت سے بڑا دعویٰ بہت بھاری پڑی جاتا ہے، ہضم نہیں ہوتا۔ ظاہر سی بات ہے کہ چھوٹے آدمی کے فہم میں بڑا تجربہ آتا نہیں، آ سکتا نہیں۔ اس لئے وہ اپنے شعور میں ناقابل تفہیم تجربے کو ٹھونسنے کے لئے اس تجربے کو توڑ مروڑ دیتا ہے، اس کا جزوی یا کلی انکار کر دیتا ہے۔

اس کیفیت کو سمجھنا ہے تو فردیت (Individualism) کے کینسر کو پھلتا پھولتا ہر طرف دیکھئے۔ لوگ سماجی میڈیا پر ہر لمحہ ”میں سمجھتا ہوں، میرے خیال میں، میری رائے میں“ جیسے جملوں کی ہی تکرار میں ملوث رہتے ہیں۔ لوگوں نے دنیا کو سمجھنے یا اس پر رائے زنی کرنے کا واحد پیمانہ (Yardstick) صرف خود کو سمجھ لیا ہے۔ یہ وہ خودپرستی کا کینسر ہے کہ جو انسان سے دنیا کا فہم بھی چھین رہا ہے بلکہ اپنے اپنے وجود کے جوہڑوں، کونوں سے باہر نکلنے ہی نہیں دیتا۔ یہ اپنے سے مختلف ہر تجربے کا کلی انکار انسانوں میں ابلاغ کی ہر صورت کو ہی معدوم کر دے گا۔

یہ کینسر دنیا میں جدیدیت کے اجراء سے عام ہوا۔ اس کی علامات سب سے پہلے مرزا غالب کی شاعری میں نظر آئی، ملاحظہ فرمائیے۔
اپنی ہنستی سے ہی ہو، جو بھی ہو
آگہی گر نہیں، غفلت ہی سہی

یا
حاصل نہ کیجئے دہر سے عبرت ہی کیوں نہ ہو

مگر سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ غالب پھر بھی غالب تھا۔ بڑا شعور اگر خود میں بند بھی ہوتا ہے تو بھی اس کا اپنا تجربہ اتنا محدود نہیں ہوتا کہ اسے بالکل ہی بالشتیا بنا دے۔ اسی بڑے تجربے نے غالب کو اس کینسر سے نکالا بھی ہے۔

غالب خستہ کے بغیر کون سے کام بند ہیں؟
روئیے زار زار کیا، کیجئے ہائے ہائے کیوں؟

مگر کامران موچی اور آج کے بینکروں، صحافیوں، استادوں، مارکیٹنگ منیجروں اور جسے دیکھئے اسے ہی یہ خبط ہے وہ تو بس دنیا پر چھایا ہی ہوا ہے۔ وہی تو دنیا چلا رہا ہے، اس کے تجربے سے برتر کیا ہے؟ لوگوں نے تو اپنی زندگی کی مثالیں ارسطو اور افلاطونوں کو کیا نبیوں اور ولیوں کے تجربات کو سمجھنے میں دینی شروع کر دی ہیں۔ لوگوں کو لگنے لگا ہے کہ کیونکہ سانس تو انبیاء بھی لیتے تھے اور کھانا تو وہ بھی کھاتے تھے، اس لئے (نعوذ باللہ) وہ تو اس مماثلت کی بناء پر نبیوں کے تجربات کو اپنی زندگی کے محدود تجربے سے سمجھ لیں گے۔

کتنی عجیب بات ہے کہ اگر ہر چور ڈاکو یہ سمجھنے لگا ہے کہ دوسرا بھی چور یا ڈاکو ہے، جامعہ کے اساتذہ افلاطون اور ارسطو کی تشبیہ خود سے دیتے ہیں، اور جہاں پر کسی کے کچھ سمجھ نہیں آتا تو وہ اس پر تحقیر آمیز ہنسی ہنستا ہے اور آگے بڑھ جاتا ہے۔ یہ ”میں“ کا وہ کنواں ہے جہاں سے انسانی شعور کا خاتمہ ہوتا ہے۔ یہ وہی خودی ہے جس کے گیت اقبال نے بھی گائے تھے۔ بس بات یہ ہے کہ اب کوئی اقبال کی تاکید کے مطابق خودی کو بلند نہیں کرتا بلکہ ہر تجربے کو اپنی خودبین خودی کی سطح پر گھٹا کر لے آنا چاہتا ہے۔ اسی لئے سطحیت سکہ رائج الوقت بنتی ہے اور ہر ارفا تجربہ لائق تکذیب قرار پاتا ہے۔ اسی لئے کامران موچی غرور سے وکی پیڈیا پڑھتا ہے اور ”طواسین ’کو حقارت سے دیکھتا ہے۔ “ اتنی بیکار چیز جو میری سمجھ نہ آئے؟ چلو کامران موچی، جوتا سازی کے عظیم ماہر، اس فن کے اتھارٹی، دنیا پر اتھارٹی بن جاؤ ”
کامران موچی فخر سے اپنی مونچھوں کو تاؤ دیتا ہے اور جوتا گانٹھنے لگتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).