نیوزی لینڈ نے یہ رواداری ہم سے سیکھی ہے


ہماری طرح کا ہر ذی شعور شخص جو مغرب کی ٹیکنالوجی اور دولت سے مرعوب نہیں ہے اور منطقی انداز میں تجزیہ کر سکتا ہے، یہ بات بخوبی جانتا ہے کہ مغرب کی ترقی کا راز صرف اسلام کے سکھائے ہوئے اصول پر عمل درآمد ہے۔ یورپی نہایت دیانت داری سے بتاتے ہیں کہ پانچویں سے دسویں صدی عیسوی کا زمانہ یورپ کا تاریک عہد تھا۔ لیکن یہ وہ نہیں بتاتے کہ جب انہوں نے 1095 عیسوی میں پہلی صلیبی جنگ لڑنے کے لئے مشرق وسطی پر حملہ کیا تو یہاں موجود علوم کے وسیع ذخیرے کے علاوہ اسلامی تعلیمات کو بھی سیکھ گئے۔ یہی وہ تبدیلی تھی جو اس پہلی صلیبی جنگ کے محض 105 برس بعد یورپ میں نشاۃ ثانیہ کے آغاز کا سبب بنی۔

مثلاً یہی دیکھ لیں کہ آج کے علم حیاتیات اور جدید طب کی بنیاد سمجھے جانے والے ارتقا کو چارلس ڈارون سے پورے ایک ہزار برس پہلے الجاحظ البصری نے نظریہ ارتقا پیش کر دیا تھا اور رائٹ برادران سے کامل ایک ہزار برس پیشتر عباس ابن فرناس نے جہاز اڑا کر دکھا دیا تھا۔ بعد میں سارا کریڈٹ ڈارون اور رائٹ برادران لے گئے۔

خیر علوم کی بات تو جانے دیں۔ یورپ نے ساری سائنس سیکھی ہی مسلمانوں سے ہے۔ بات کرتے ہیں اخلاقیات کی۔ نیوزی لینڈ والے واقعے کے بعد سے لوگ ادھر کی وزیراعظم کی بے تحاشا تعریفیں کر رہے ہیں کہ وہ اقلیتوں کا بے حد خیال رکھتی ہیں۔ ادھر ناداروں کے لئے وظیفہ ہے۔ لوگ جھوٹ نہیں بولتے۔ عدل انصاف کا دور دورہ ہے۔ سامان خورد و نوش میں ملاوٹ نہیں کرتے۔ جعلی دوائیاں نہیں بناتے۔ صفائی کا ازحد خیال رکھتے ہیں اور کوڑا کرکٹ گلیوں میں نہیں پھینکتے۔ پانی ضائع نہیں کرتے۔ ایمانداری سے اپنی جاب کرتے ہیں۔ علم کی تحصیل پر خاص زور دیا جاتا ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ ہر ذی شعور مسلمان اس بات سے اتفاق کرے گا کہ یہ سب زریں اصول اسلامی تعلیمات ہیں۔

کیا کسی کو اس بات میں کوئی شبہ ہے کہ صرف ہم مسلمانوں کو ہی اس بات کا پتہ تھا کہ سچ بولنا اچھی بات ہے، سودا کرتے وقت ایمانداری سے کام لینا چاہیے، مذہبی و نسلی اقلیتوں سے اچھا سلوک کرنا چاہیے، کسی صلے کی تمنا کے بغیر دوسرے انسان حتی کہ جانوروں تک کی مدد کرنی چاہیے۔ امیروں سے وصول کردہ رقم کو غریبوں پر خرچ کرنا چاہیے۔

یورپ کے تاریک عہد میں تو ہر طرف جھوٹ کا دور دورہ تھا۔ کوئی علم حاصل کرنے کی کوشش کرتا تو پادری اسے بلاسفیمی کا مرتکب قرار دے کر مار دیا کرتے تھے اور کہتے تھے کہ پڑھ لکھ کر آدمی گمراہ ہو جاتا ہے۔ لندن پیرس وغیرہ دنیا کے گندے ترین شہر تھے۔ انگریز تجارت کرنے چلے تو منشیات کی فروخت کو ترجیح دی اور چین کی پوری قوم کو مغل ہندوستان کی افیم بیچ بیچ کر افیمی بنا ڈالا۔ یعنی اخلاقی تباہی کے سوا کچھ نہ تھا۔ جھوٹ بولنے کے اس قدر شائق تھے کہ من گھڑت ڈراموں کا بادشاہ شیکسپئیر ادھر پیدا ہوا۔

پھر ایک سازش کے تحت انہوں نے ہم لوگوں سے ساری اچھی چیزیں سیکھ کر اپنے ہاں رائج کر لیں۔ جبکہ ہماری قوموں کو اپنی ترقی کی چکاچوند دکھا کر اس بات پر قائل کر لیا کہ ہم اپنے زریں اصولوں کو ترک کر کے ان نقالی کر لیں۔ انہوں نے ہماری ایک کمزوری سے فائدہ اٹھایا۔ مرشد مولانا طارق جمیل کے بیانات سن سن کر ہمارے ذہن میں تو جنت کا تصور ہی یہ بن گیا ہے کہ ادھر شراب طہور اور حسن حور کی ایسی فراوانی ہو گی کہ کسی دوسرے کام کے لئے وقت ہی نہیں بچے گا۔

اسی کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اہل مغرب نے ایک چالاکی یہ کی کہ حسن بن صباح کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ادھر زمین پر ہی اپنے اپنے ملکوں میں جنت ارضی بنا لی جس میں انواع و اقسام کے سامان تعیش اور شرابوں کے علاوہ ارضی پریوں کے حسن و فحاشی کی فراوانی تھی۔ ہمیں تو انہوں نے شعر و شاعری کی صنعت سازی پر لگا دیا کہ سارا دن بیٹھے شعر کا وزن کیا کریں اور خود لوہے کی صنعتیں قائم کر کے دن رات ایک کر کے دساور بھیجی جانے والی مشینی مصنوعات کا وزن کرنے لگے۔

نتیجہ یہ کہ وہ بے تحاشا امیر ہو گئے اور مشرقی ممالک ان کی مصنوعات خرید خرید کر خوب غریب ہو گئے۔ بابا فرید کہہ گئے ہیں کہ روٹی ایمان کا چھٹا رکن ہے یعنی غربت کی زیادتی ایمان لے جاتی ہے۔ حرام کو حلال کر دیتی ہے۔ نتیجہ یہ کہ ہمارے ہاں کرپشن عام ہو گئی۔ لوگ ایک طرف دولت کے لئے جھوٹ، بدکاری، لوٹ مار ہر شے کو جائز سمجھنے لگے اور دوسری طرف مغرب کی جنت میں جانے کے لئے اپنے ایمان تک پر سمجھوتہ کرنے لگے۔

اس لئے اگر اہل مغرب میں آپ کو ترقی، اعلی اخلاق، انسان دوستی، علم سے محبت وغیرہ دکھائی دے تو ان سے مرعوب ہونے کی بجائے یہ سوچ کر مسکرا دیا کریں کہ ان میں کوئی خوبی نہیں، یہ تو ہماری صفات ہیں جن پر وہ اترا رہے ہیں اور اپنی قوم میں فسق و فجور دکھائی دے تو خوب جان لیں کہ ہمارے تمام برے اعمال کی ذمہ داری اہل مغرب پر ہے۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar